جادوگروں اور جِنّات سے متعلق بہت سے کہانیاں آپ نے پڑھی
ہوں گی۔ اگر آپ کبھی یہ سوچ کر اُداس ہو جاتے ہیں کہ جادو نگری دیکھ نہیں
پائے یا جِنّات کے درشن نہیں کر پائے تو ہرگز دِل چھوٹا نہ کریں۔ اپنے
ماحول پر نظر دوڑائیے، کچھ ہی دیر میں یقین ہوجائے گا کہ آپ جادو نگری میں
ہیں اور جِِنّات کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ نہیں ہے اور جو کہیں وجود ہی
نہیں رکھتا وہ دکھائی دے رہا ہے۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ اب اِس پر کسی کو
حیرت بھی نہیں ہوتی۔ جادو، ٹونے کے چَکّر میں پڑنے والوں پر البتہ حیرت
ہوتی ہے۔ اب ایسا کون سا کام ہے جس کے لیے جادو، ٹونے کا سہارا لیا جائے؟
اُن کے لیے اپنا ماحول گھر کی مُرغی ثابت ہو رہا ہے یعنی سراسر دال کے
برابر ہے۔ موجودہ پاکستانی معاشرے میں کیا ہے جو شعبدہ نہیں؟ کس بات سے
جادو نہیں جھلکتا؟ کون سا شعبہ ہے جو طلسمات سا نہیں جان پڑتا؟
طلسمات کیا ہے؟ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ در حقیقت نہ ہو یا کچھ اور ہو۔
اور جو کچھ کسی بھی حیثیت میں وجود ہی نہیں رکھتا وہ آنکھوں کے سامنے موجود
ہو۔ یہاں دَم بہ دَم یہی تو ہو رہا ہے۔
شرت چندر چٹوپادھیائے کے ناول ’’دیو داس‘‘ پر سب سے پہلے 1936 میں اِسی نام
سے فلم بنائی گئی جس کے ہیرو کندل لعل سہگل تھے۔ 2002 میں شاہ رُخ خان کو
مرکزی کردار میں لے کر یہ فلم تیسری بار بنائی گئی جس میں دیو داس کو قدرے
outrageous دکھایا گیا۔ اس سے قبل 1955 میں بھی ’’دیو داس‘‘ بنائی گئی تھی
جس کے ہیرو دلیپ کمار اور ڈائریکٹر بمل رائے تھے۔ ہیرو کو ذہنی طور پر خاصا
اُلجھا ہوا دکھایا گیا۔ دلیپ کمار کے اپنے الفاظ میں ’’دیو داس کہتا تھا،
کرتا کچھ تھا اور ہو کچھ اور جاتا تھا۔‘‘ پاکستانی معاشرے کی بھی کچھ کچھ
یہی کیفیت ہے۔ لوگ ہوتے کچھ ہیں، دکھائی کچھ دیتے ہیں۔ کیا کچھ جاتا ہے اور
ہو کچھ اور جاتا ہے! کسی معاملے کا سَر دکھائی دیتا ہے نہ پَیر۔ کوئی اگر
کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسے طلسمات میں کھو جاتا ہے جس میں مُڑ کر
دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا ہے! بہت مغز پاشی کرنے پر بھی کسی معاملے کو
سمجھنا ناممکن کی حد تک دشوار ہی رہتا ہے۔ ع
ڈور کو سُلجھا رہا ہوں اور سِرا مِلتا نہیں!
گزشتہ دِنوں پر ٹی وی پر کسی مغربی ملک کے سرکس کی وڈیو دیکھی۔ ٹِھنگنی نسل
کے گھوڑے کو خاصی مہارت سے بال (ایال) لگاکر شیر کا ’’لُک‘‘ دیا گیا تھا۔
ہاتھ میں ہنٹر لیکر ایک لڑکی اِس شیر نُما گھوڑے کو رِنگ میں دوڑا رہی تھی
اور وہ یوں دوڑ رہا تھا کہ دور سے اور بغور نہ دیکھنے پر شیر سا دِکھائی
دیتا تھا۔ پھر اُس نے ’’مالکن‘‘ کے اشارے پر بندرو کی سی اُچھل کود شروع
کردی! ہنٹر اگر کسی حسین کے ہاتھ میں ہو تو اصلی شیر کو بھی بندر بننے میں
کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی، وہ تو پھر گھوڑا نُما شیر تھا! حاضرین یعنی
تماشائی حیران رہ گئے کہ یہ کیسا گھوڑا ہے جو دِکھنے میں شیر ہے اور اُچھل
کود بندروں والی کر رہا ہے۔
وڈیو میں لوگوں کی حیرت دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی۔ کیوں نہ ہوتی؟ جو تماشا ہم
66 سال سے دیکھتے آئے ہیں جھیلتے بھی آئے ہیں اُسے دیکھ کر اہلِ مغرب محظوظ
ہو رہے ہیں! ہمارا سیاسی سرکس ایک زمانے سے یہی سب تو پیش کر رہا ہے۔ گدھوں
کا عالمِ شوق دیکھیے تو گھوڑے بننے کو بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ
نکلتا ہے کہ گھوڑے بھی نہیں بن پاتے اور گدھا پن بھی ایسا جاتا ہے کہ پھر
ہاتھ نہیں آتا۔ اور پھر اُن کی ’’خَچّریت‘‘ ہم عوام کو جھیلنا پڑتی ہے!
گھوڑے بھیس بدل کر شیر جیسے دِکھائی دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور شیر
کی سی ہیئت بنانے کے بعد جب لوگوں کو ہیبت زدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں
تو خوشی کے مارے ’’بندرانہ‘‘ حرکتوں پر اُتر آتے ہیں! بے چارے بندر باری کے
منتظر رہتے ہیں۔ اُن کا بیشتر وقت یہ سوچنے میں گزرتا ہے کہ موقع پر ملنے
پر وہ کون سا آئٹم پیش کریں گے! اُن کے حصے کی تمام ’’خوش اعمالیاں‘‘ یعنی
اُچھل کود تو دیگر سیاسی جانور تماشائیوں کی نذر کرچکے ہوتے ہیں! ایسے میں
اصلی بندروں کی اُچھل کود پُرلطف تو نہیں، ہاں مزاحیہ ضرور دکھائی دیتی ہے!
سیاسی بندر ذرا سا موقع ملنے اور اُفق پر امکانات کا اُجالا پھیلنے پر خود
کو شیر اور ہاتھی سمجھنے لگتے ہیں اور پھر جب ایک ہی رگڑ سے مُلمّع اُتر
جاتا ہے تو اپنی اوقات سے بہت نیچے گِر کر بھیگی بِلّی کی طرح کھرج کے
سُروں میں میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہیں!
سیاسی سرکس میں سب سے اہم چیز ہے مفاد کا تحفظ۔ مفادات بچانے کے لیے کسی
بھی وقت، کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے! اچھے خاصے گھاس چرنے
والے جانور درندگی پر تُلے ہوئے ہیں اور درندے اپنے مفاد کی خاطر گھاس چرنے
سے بھی گریز نہیں کرتے!
جب ریس کے گھوڑوں کو ٹانگے میں جوتا جائے اور ٹانگے کے گھوڑوں کو ریس کورس
میں دوڑایا جائے تو تماشا دیکھنے والوں کی دِل بستگی کا سامان تو ہوکر رہے
گا۔ سیاسی سرکس میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ جانوروں کی اُچھل کود سے زیادہ
دھماچوکڑی تو مَسخروں نے مچا رکھی ہے۔ لوگوں کو ہنسانے کی کوشش میں وہ جو
مسخرا پن پیش کرتے ہیں اُسے دیکھ کر تماشائی دَم بَخود رہ جاتے ہیں کہ داد
ہنستے ہوئے دیں یا روتے ہوئے!
ایک زمانہ تھا جب سرکس میں اسٹنٹس کے آئٹمز تمام تماشائی سانس روک کر دیکھا
کرتے تھے۔ اب اسٹنٹس دیکھ کر تماشائی سانس تو نہیں روکتے، اسٹنٹ مین اپنے
سَر البتہ ضرور تھام لیتے ہیں! اب وہ کیا پیش کریں؟ اُن کے آئٹمز مختلف
انداز سے سبھی پیش کر رہے ہیں! سیاسی سرکس کی یہی تو خوبی ہے کہ سب بیک وقت
سب کچھ کر رہے ہیں یا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اپنا کام آئے یا نہ آئے،
دوسرے کے میدان میں دوڑ لگانا پیدائشی حق گردانتے ہیں۔
ماحول ایسا ہے کہ کَوّے کوک رہے ہیں اور کوئل کائیں کائیں کرنے پر مجبور
ہے۔ جن کی ’’راگنی‘‘ سُن کر گدھے بھی اپنے ’’سُر‘‘ بھول جائیں وہ نغمہ
سرائی کے منصب پر فائز ہیں! کسی کا گائیکی پر اختیار ہے نہ گانے والے پر۔
جو گانا جانتے ہیں وہ گانے سے توبہ کربیٹھے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن
کی فنکاری کو لوگ بے سُرا پن سمجھ کر جُوتے نہ برسائیں! اور پھر ایک بڑا
مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں صرف گانا آتا ہے۔ اداکاری اُن کے بس کی بات نہیں! اب
گانے میں اداکاری ہے اور اداکاری کے نام پر گانا بجانا ہو رہا ہے۔
مجموعی کیفیت یہ ہے کہ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ اپنی اصلیت سے بہت
دور ہے اور کچھ کا کچھ لگ رہا ہے۔ راتوں رات سبھی کچھ پانے کی تمنا ہوس کا
درجہ اختیار کرچکی ہے۔ سبھی پر وحشت سی طاری ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ وحشت
میں کیا ہوتا ہے؟
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے! |