وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف آجکل اونچی
ہواؤں میں ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ امریکہ کے سرکاری دورے پہ ہیں۔شیری رحمان
کہتی ہیں کہ یہاں ٹی وی پہ بیٹھ کے امریکہ کو گالیاں دینے والے امریکہ کے
ویزے کے لئے جس قماش کا ترلہ کرتے ہیں،بیان کر دوں تو حیرت سے پاکستانیوں
کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔پاکستانیوں کی تو اب خیر ڈار صاحب ہی نے
کوئی چیزسلامت نہیں رہنے دی لیکن امریکہ میں سفیر رہنے والی شیری رحمان کا
بیان اس کے باوجود اہمیت کا حامل ہے۔کاش وہ پاکستانی قوم کی آنکھوں کے
پھٹنے کا خیال نہ کرتیں لیکن وہ چونکہ پیپلزپارٹی کی ہونے کے باوجود ایک
خاتون بھی ہیں اور شک ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے رحم دل ہوتی ہیں انہوں
نے پاکستانی عوام پہ کمال شفقت اور مہربانی کرتے ہوئے ان سورماؤں کے نام
ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اے نیک دل شیری تیری عظمت کو سلام۔
ایسے میں انکل سام کے دیس میں نواز شریف کا سرکاری دورے پہ امریکہ جانا
بذات خود اتنی بڑی سعادت ہے کہ جسے نواز لیگ مدتوں یاد رکھے گی اور ہمیں
بھی یاد رکھوائے گی۔جان کیری نواز شریف ملاقات میں ہو سکتا ہے نواز شریف
آدھا امریکہ پاکستان کے نام کروانے میں کامیاب ہو گئے ہوں لیکن سرکاری اور
نجی چینلز کی اس ملاقات کی فوٹیج میں ہم نے تو یہی دیکھا کہ کیری بول رہے
تھے اور نواز شریف کا سر مسلسل یوں ہل رہا تھا جیسے چابی سے چلنے والے کسی
کھلونے کی گردن کا سپرنگ ڈھیلا ہو جائے تو اس کی گردن مسلسل ہلتی رہتی
ہے۔نواز شریف انتظامیہ یوں بھی خوش ہے کہ اس دفعہ یقینا مانگے سے زیادہ ملے
گا۔ورنہ ایسا کبھی ہوا ہے کہ گانگریس نے خاموشی سے ہی پاکستان کی امداد کر
دی ہو۔اس سے پہلے کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ سرکار نے جب بھی دیا اتنا
ذلیل کر کے دیا کہ بھیک کا سارا مزہ ہی کرکرا ہو گیا۔
اس دفعہ ایسا کیا ہے کہ امریکیوں کی مہربانیاں قابل دید ہیں۔کیا نواز شریف
کی پاکستان میں مقبولیت سے امریکہ کے حکمرانوں پہ کپکپی طاری ہے۔کیا
پاکستان میں اچانک ہی سونے کی کوئی کان یا تیل کا کوئی دریا وجود میں آ گیا
ہے کہ امریکی ہمارے وزیراعظم کی راہ میں دیدہ ودل فرشِ راہ کئے ہوئے
ہیں۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کیا ہمارے وزیر اعظم بھی ایرانی صدر کی
طرح ایٹمی معاملات پہ امریکہ سے گفت وشنید پہ راضی ہو گئے ہیں۔ان کے پاس
دینے کو ہے ہی کیا اور منگتوں کو ریڈ کارپٹ پہ کوئی اﷲ کا ولی ہی چلائے تو
چلائے امریکہ نے تو ابھی تک ولایت کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔پھر آخر وہ کیا
راز ہے کہ امریکی یوں اچانک میاں صاحب پہ مر مٹے ہیں کہ اوبامہ ان سے
ملاقات کے لئے جوگ لئے بیٹھے ہیں۔امریکی کہہ رہے ہیں کہ سیکیورٹی کے علاوہ
پاکستان سے سول نیوکلیر ٹیکنالوجی کے معاملے اور تجارت پہ بھی بات ہو گی
لیکن جان کیری نواز شریف ملاقات میں تو جتنے بھی امریکی تھے ان سب کا تعلق
تو سیکیورٹی کے معاملات سے تھا۔
میں باخبر ہر گز نہیں نہ ہی کبھی اس کا دعویٰ کیا۔نہ ہی سازش کی کسی تھیور
ی کا پروموٹر ہوں لیکن جو سامنے دکھتا ہے اس سے صرفِ نظر کرنا مشکل ہو تا
ہے۔پہلے بھی کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ مملکتوں کے درمیان دوستیاں ویسے نہیں
ہوتی جیسے ہم جیسے جذباتی لوگ سمجھتے ہیں۔ان میں نہ کوئی ہمالیہ ہوتا ہے
اور نہ ہی کوئی امہ کی پرواہ کرتا ہے نہ ہی کسی کو خلافت اور ثقافت کی
مجبوری ہوتی ہے۔ یہ ہمی ہیں جو کبھی ہمالیہ کی طرف دیکھتے ہیں اور جب
ہمالیہ کی باری آتی ہے تو وہ نانگا پربت کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔یہ ہمی ہیں
کہ وقتافوقتا ہمارے پیٹ میں امہ کا درد اٹھتا رہتا ہے اور امہ اپنے سارے
امی ہمارے ہاں بھیج کے ہمارے مروڑوں کا علاج کرنے کی سعی کرتی رہتی ہے۔آج
کل بیٹے اور باپ کے درمیاں تعلقات بھی مادیت پہ استوار ہیں جبکہ ہم بین
الاقوامی تعلقات میں بھی گلے میں بانہیں ڈال کے گھومنے والی یاریوں کی توقع
لگائے رکھتے ہیں۔
اگر ہمارے پاس امریکہ کو دینے کے لئے کچھ نہیں تو پھر آخر ایسا کیا ہو
گیاکہ امریکہ ہماری "چمیاں " لینے پہ تلا ہوا ہے تو جناب اس کی وجہ وہ
"پچھتر ہزار کنٹینرز" ہیں جنہوں نے واپس امریکہ جانا ہے اور جن کی واپسی کی
صرف ایک ہی راہ ہے جو بھولے کے صحن سے ہو کے گذرتی ہے۔ان" پچتھر ہزار
کنٹینرز" میں نہ صرف کھربوں ،پدموں ڈالر مالیت کی مشینری ہے بلکہ اس میں
بچی کچھی امریکی نخوت اور نخرہ بھی ہے جو ملا عمر کی دسترس سے بچ گیا
ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ اگر وہ افغانستان سے خیرو عافیت سے نکل کے پاکستان
پہنچ جائے تو پھر بحیرہ عرب تک پہنچنے کے لئے اسے کسی دشواری کا سامنا نہ
کرنا پڑے۔امریکی کبھی بھی سیدھے سبھاؤ اپنا مدعا بیان نہیں کرتے بلکہ وہ
پستول کی جگہ توپ کا لائسنس مانگتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے وہ اکثر راکٹ لانچر
استعمال کرنے کی اجازت لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔کیری صاحب نے پچھلے
دنوں افغانستان میں بھی اپنے پیچھے رہ جانے والے فوجیوں کے لئے عدالتی
استثناء طلب کرکے توپ کا لائسنس مانگا ہے۔نواز اوبامہ ملاقات میں ہم سے بھی
شاید اسی طرح کا کوئی مطالبہ کیا جانے والا ہے۔افغانستان نے تو فی الحال
اسے لویہ جرگہ پہ ڈال کے ٹال دیا ہے جبکہ ملا عمر نے تو اس مطالبے کا
باقاعدہ مضحکہ اڑایا ہے۔اب دیکھئیے ہمارے ریڈ کارپٹ کے نشے میں ٹن حکمران
اس خدمت کا کیا صلہ مانگتے ہیں۔اﷲ کرے اس دفعہ ان سے بھول ہو اور یہ غلطی
ہی سے سہی پاکستان کے لئے کچھ مانگ لیں۔تاریخ لیکن ہماری اس رجائیت پہ
چارحرف بھیجتی نظر آتی ہے۔غالب نے شاید انہی حکمرانوں کے بارے میں کہا تھا
کہ
ہم کو ہے ان سے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے |