وزیر اعظم پاکستان کا دورہ امریکہ

 کسی گاؤں میں ایک جاگیردار رہتا تھا اس کے پاس بے شمار زمین ،پلازے ،پالتوں جانور اور ان کی دیکھ بھال کے لئے سینکڑوں ملازمین تھے ،گاؤں میں اس کے علاوہ بھی بہت سے خاندان،برادریاں آباد تھیں مگر دولت زمین اور تعلقات زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا نہ صرف اپنے گاؤں کی باقی برادریوں پر بلکہ دوسرے گاؤں کے لوگوں پر بھی رعب و دبدبہ قائم تھا ،گاؤں والے یا دوسرے گاؤں کے لوگ کوئی بھی کام کرتے کوئی شادی بیاہ ہوتا ،کوئی ترقیاتی سیکم ہوتی کسی قسم کا بھی کوئی فلاح و بہبود کا کام ہوتا تو وہ جاگیردار سے مشورہ ضرور کرتے اس کے مشورے کے بغیر گاؤں میں کسی قسم کا کوئی کام نہ ہوتا یہاں تک کے پڑوسی گاؤں والے بھی اس سے مشاورت کو اپنا اعزازسمجھتے ،جاگیردار اکثر اپنے گھر میں نہ ملتا وہ کبھی کئی تو کبھی کئی ہوتا،اس کے بیٹے یا فیملی والے ہی گھر میں ہوتے گاؤں کی دوسری برادریوں کے لوگوں نے جاگیردار کے بیٹے بیٹیوں سے اچھے تعلقات رکھے ہوئے تھے اور ان ہی تعلقات کو وہ اپنی طاقت اور اپنا بڑا پن سمجھتے ۔،گاؤں میں کسی قسم کا ایشوہوتا کوئی لڑائی جھگڑا ہوجاتا تو لوگ جاگیردار کے بیٹوں، یا رشتے داروں جن سے ان کے اچھے مراسم ہوتے بلاتے اور اپنی حمایت کرواتے یا پھر دباو ڈال کر اپنا کام نکلواتے ،کبھی کھبار جاگیردار اپنے گھر آتا تو گاؤں کی دوسری برادریوں کے بڑے بڑے لوگ اسے ملنے جاتے اس کی خوب خدمت کرتے ،گاؤں کی سوغاتیں اسے پیش کرتے اور ساتھ ساتھ اپنی ہمدردیاں اور تعلقات کو ظاہر کرتے جب کوئی بڑا آدمی جاگیردار کو ملنے جاتا تو باقی لوگ اسے بے شمار مطالبات بتاتے کے جاگیردار سے پوچھنا کہ ہماری واٹر سپلائی کی سکیم کب تک شروع ہو گی کسی کا مطالبہ ہوتا کہ ہمارے بچے کو نوکری کب ملے گی فلاں سکول کو ہائی کر دیا جائے وہ سڑک جس کا علان ہوا تھا شروع کروائی جائے آئندہ الیکشن میں کس کی حمایت کی جائے مطلب کہ گاؤں کے چھوٹے موٹے مسائل حل کروانے کے لئے جو بھی جاگیردار سے ملنے جاتا اسے بتا دیے جاتے ہیں وہ شخص جو خود کو معتبر سمجھتا جب جاگیردار سے ملتا، چائے ،پیتا، حال احوال پوچھتا، اپنی ہمدردی ،خلوص اور وفاداری جیتاتا، جاگیردار کی تعریف کرتا کچھ ذاتی معاملات پر بات کرتا اور واپس چلا جاتا وہ مسئلہ اور مطالبات جس امید پر گاؤں والے بیٹھے ہوتے وہ اس سے زیر بحث ہی نہ لاتا،مگر جب واپس آتا تو یہ کہتا کہ میں نے چیدہ چیدہ باتیں تفصیل سے جاگیردار سے کی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ سب کچھ جلد ہو جائے گا،سڑک بھی بن جائے گی پانی کے پائپ بھی لگ جائیں گئے سکول ہسپتال کی بھی بات کی ہے وہ راضی ہیں کہ بس جلد ہی ان پر کام شروع کروا دیا جائے گا جب کہ ایسا ہوتا نہیں تھا ۔اور گاؤں والے خوش بھی ہوتے اور راتوں کو اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر گھنٹوں اس پر باتیں کرتے کہ آج فلاں صاحب جاگیردارکے پاس گئے ہوئے تھے یہ، یہ باتیں کر کے آئیں ہیں جب کہ جانے والا شخص تو بس اپنی چاپلوسی اور اپنے زاتی مراسم کو بہتر کر کے آتا ۔
آج کل ہمارے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف مطلبی دوست امریکہ کے دورے پر ہیں سب لوگوں کی نظرین ان پر لگی ہیں جیسے وی جھولی بھر کے عوام کے لئے ہی لائیں گے ،میڈیا ،سیاست دان، اور عام دفاتر میں اپنی اپنی بساط، علم اور لگاو کی بنیاد پر تبصرے،تجزیے،اور باتیں ہو رہی ہیں کہ میاں نواز شریف،کشمیر کی بات کریں گے،ڈرون حملوں کو بندکروانے کا مطالبہ کرے گے،پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے پر تبادلہ خیال ہوگا،دہشت گردوں سے مذاکرات ،یا جنگ پر بات چیت ہوگی،ملک میں ترقیاتی منصوبوں اور بیرون ملک سرمایا کاروں کو ملک میں سرمایا کاری کے بہتر مواقع پر خیالات کا اظہار ہوگا،بعض تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی منظوری بھی وہاں سے لے کر آئیں گے یہاں تک کہ تمام ٹی وی چینل اور اخبارات میں اسپیشل پروگرام اور ایڈیشن شائع ہوئے کہ دورہ کامیاب اور اچھا رہے گا یا نہیں اس میں قرضے آسان شرائط میں ملے گے ایڈ نہیں ٹریڈ پر بات ہوئی،یہ خوش خبری لائے وہ لائے اس طرح کی بہت سی باتیں جن میں سے اکثر تو فلمی ڈائیلوگ لگتے ہیں اور بس وقت پاس کرنے کے لئے جملے، ماضی میں ایسے ہزاروں دوروں کی تاریخ کا باغور جائزہ لیا جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ہم نے یہ یہ مطالبات پیش کئے مگر منظور کچھ نہیں ہوا اور آئندہ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات پر بات چیت کا خاتمہ ہوا دوسری چیز ماضی کے دوروں سے نمایاں ملتی ہے وہ یہ کہ دورہ چاہئے جیسا بھی ہو وہ کامیاب اور بہترین دورہ رہا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں میرے خیال میں تو یہ دورہ بھی ماضی کے دوروں کی طرح کا ہی ہوگاکوئی نئی بات نہیں ہوگی ،زیادہ سے زیادہ کچھ ڈالر قرض لے کر کشکول میں چند ڈالر ڈال کر واپس آجائیں گے۔ بات وہی جاگیردار سے ملنے اور کامیابی کا نام دینے کا مطلب بس یہی ہو گا،کہ ذاتی مراسم اور وفاداریاں،ہمدردیاں دیکھانے کا ہی دورہ ہوگا وہ مسائل جو حل ہونے چاہئے ان کا ذکر بھی بس رسمی سا ہوگا جن کی ضرورت نہیں ۔ بس ان کو کامیابی کا نام دے دیا جائے گا۔ڈاکٹر عافیہ آج بھی دل ہلا دینے والے مظالم کا شکار ہے ۔ اس کو کبھی پاکستان کی بیٹی تو کبھی قوم کی بیٹی کہا جاتا ہے ایک غیرت مند قوم کے لئے اس کی عزت سے بڑھ کر کوئی سودہ نہیں ،مگر آج اپنے ہی کئے وعدے کس کو یاد ہونگے وہ تو ووٹ لینے کے لئے سب کچھ تھا۔ اصل میں ہمارے جیسے ملک کے رہنماوں کا امریکہ کا سرکاری دورہ کرنا ہی کامیابی ہوتی ہے اس میں کسی مطالبے کا منظور ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ عوام اور حکمرانوں کے مطالبات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔عوام کو تو خود مختاری چاہئے آزادی چاہئے مگر حکمرانوں کی کتاب میں ان تمام الفاظوں کے معنی کچھ اور ہوتے ہیں۔ڈرون حملے ہوں یا دہشت گردی،کشمیر کا مسئلہ ہو یا بھارت کی ہٹ دھرمی ،اس پر امریکہ کے کسی بھی حکمران نے نہ پہلے کبھی بات کی اور نہ آئندہ کبھی کرے گا۔رہی بات قرضے لینے کی یا امداد کرنے کی تو یہ ایک لعنت ہے اس کو دوستی نہیں بلکہ ایک دلدل اور جھال میں پھنسانے کے مترادف ہے ۔ بھیک لینے سے دوستیاں نہیں پلتی،یہ ڈور اپنے ہاتھ رکھنے کا ایک ہنر ہے جو امریکہ بہتر استعمال کر رہا ہے۔ ہمارے حکمران کبھی بھی کھل کر اپنی بات نہیں کر سکتے اس کی وجہ بذدلی نہیں بلکہ اس کی وجہ وہ نقصان ہے جو حکمرانوں کو امریکہ کی طرف سے مل سکتا ہے ،عوام اور ملک جائے بھاڑ میں اگر امریکہ کو کچھ چاہئے تو اسے حکمرانوں کی غلامی اور چاپلوسی چاہئے جو آزادی سے لے کر اب تک مل رہی ہے اور ملتی رہی گی باقی مسائل ،مشکلات،دہشت گردی جانے عوام جانے متاثر عوام نے ہونا ہے کسی حکمران نے نہیں،اس لئے یہ دورہ سرکاری طور پر کیسا بھی رہا ہو اس کو کچھ بھی نا دے دو اس کو بے مثال لکھ کر اس کو جو جو نام دے دو کوئی فرق نہیں پرتا۔ اس کا رزلٹ اور اس کا ثمر اس کی اوٹ پٹ سب کے سامنے ہیں کیا اس دورے سے کوئی تبدیلی یا کوئی فرق عوامی سطح پر آئے گا اگر ہاں تو کامیاب اگر نہیں تو بس ماضی کی طرح کاغذی کارووائی اور نام کامیاب۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 70520 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.