ملالہ یوسف زئی، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟

ان دنوں ملالہ یوسف زئی پر غیر ملکی انعامات، اعزازات اور ایوارڈز کی موسلادھار بارش ہورہی ہے۔وہ کچھ ہی عرصے میں نامور اور عالمی سطح کی شخصیت بن گئی ہے۔وہ مسلسل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ملالہ پر دستاویزی فلم تیار کی۔امریکا کے وائٹ ہاﺅس سے لے کر برطانیہ کے برمنگھم پیلس تک پورا مغرب ملالہ کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ملالہ کو نوبل پرائز کا مضبوط حق دار قرار دیا جارہا تھا۔اس کا نام 159نامزدگان میں سر فہرست تھا۔ نوبل امن پرائز کے اعلان سے صرف ایک دن پہلے یورپی یونین کا انسانی حقوق کا سخاروف ایوارڈ بھی ملالہ کو دیا گیا۔ 2013ءمیں بچوں کا بین الاقوامی امن کا انعام ملا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ملالہ کو ”ضمیر کا سفیر“ بنایا جبکہ ملالہ کو گلوبل سٹیزن ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی انسانیت کے نام پر ایک اور اعزاز ہیومنٹیرین ایوارڈ ملالہ یوسف زئی کو دیا۔ان کے علاوہ اور نجانے کون کون سے انعامات سے ملالہ کو نوازا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون ،برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون ، ملکہ برطانیہ اورامریکی صدر اوباما سمیت کئی مغربی شخصیات اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر ملالہ یوسف زئی سے یوں خصوصی ملاقات کرچکے ہیں جیسے کسی بہت بڑے مشنری سے ملاقات کی جاتی ہے ۔متعدد ملکوں کے سربراہان ملالہ کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویریں بنوانے کو اپنے لیے باعث عزت محسوس کرتے ہیں۔ ملالہ کے بارے میں یہ معاملہ تو مغرب کا ہے جبکہ ہمارے یہاں بھی ملالہ کے حوالے سے دو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ایک طرف کچھ لوگوں کے نزدیک ملالہ سے عظیم شخصیت شاید اس روئے زمین پر کوئی نہیں۔ وہ ملالہ کو اس دھرتی کی عزت، قوم کی بیٹی اور علم کی علامت گردانتے نہیں تھکتے۔ بعض تو اسے پوری دنیا کی خواتین کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔

دوسری جانب پاکستان کی اکثریت ورطہ حیرت میں ڈوبی ہوئی ہے کہ آخر ملالہ نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دے دیا ہے جس کی وجہ سے ایک کم عمر بچی دیکھتے دیکھتے شہرت کی بلندیوں پر اڑنے لگی؟ مغرب کی جانب سے ملالہ کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے اور بے بہا انعامات و اعزازات کی بھرمار کو دیکھتے ہوئے ایک عام آدمی بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ معاملہ کیا ہے؟۔اسلامی دنیا کے بے شمار اسکولوں اور مدرسوں کو خطرناک ہتھیاروں سے تباہ و برباد کر کے لاکھوں کروڑوں مسلمان بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے والے مغرب کو آخرپاکستان کے سوات میں بچوں کی تعلیم سے اچانک اتنی دلچسپی کیوں پیدا ہوگئی؟۔ متعدد مسلم ممالک پر جنگیں مسلط کرکے اور کئی مسلم ممالک میں خانہ جنگی کی آگ لگا کر بے شمار معصوم مسلمان بچوں کو خون میں لتھڑا اور سسکتا ہوا چھوڑ کر آخر مغرب کو پاکستان میں ایک زخمی ہونے والی بچی کی ہی اتنی فکر کیوں لاحق ہوئی کہ پورا مغرب اس کی تکلیف پر تلملانے لگا ۔اپنے ہاں لے جاکر اس کا علاج کیا اور پھر اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے مسلم دنیا کی لیڈر کے طور پر پیش کیے جانے کی تیاریاں کی جانے لگیں۔ان باتوں کو دیکھتے ہوئے میڈیا کی پہنچ سے بھی دور کسی گاﺅں میں بیٹھے دیہاتی کے ذہن میں بھی یہ بات آنے لگی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے؟۔

مغرب کی جانب سے ملالہ کو مختصر سے عرصے میں حد سے زیادہ پذیرائی دینے کی وجہ سے پاکستان کی اکثریت ملالہ کے معاملے کو ہمارے خلاف ایک گھناﺅنی سازش قرار دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پہ اس حوالے سے آئے روز رنگا رنگ تبصرے پڑھے جاسکتے ہیں۔گزشتہ دنوں پاکستان اسمبلی کے سینئر ممبر جمشید دستی نے ایک ٹاک شو میں واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ملالہ کا معاملہ ایک ڈرامہ ہے جسے اب بند ہونا چاہیے۔ملالہ کا ڈرامہ صرف اسلام، مسلمان اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے رچایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار اعلیٰ شخصیات نے ملالہ کے معاملہ کو مغربی ڈرامہ قرار دیا ہے۔ان تمام لوگوں کی بات کو گزشتہ دنوں معاصر ڈان کی رپورٹ نے سچ کردیا ہے۔11اکتوبر 2013بروز جمعہ کو ملالہ کے بارے میں پاکستان کے سب سے بڑے اور معروف اخبار ڈان نے ایک ہوش ربا انکشاف کیا ہے کہ اپریل میں چند اخبار نویس پانچ ماہ کے لیے وادی سوات میں ملالہ کے معمے کو کھوجنے گئے۔ ان کی مشترکہ کاوش میں بے شمار باتیں طشت از بام ہوئیں جن کے مکمل ثبوت بھی مہیا کیے جا سکتے ہیں اور یہ کہانی کا رخ یکسر بدلتے اور تصویر کا دوسرا پہلو نمایاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہانی ملالہ کے بچپن سے شروع ہوتی ہے جب وہ کان کے درد سے ایک کلینک پر گئی تو وہاں اس کا ڈی این اے بھی لیاگیاتھا۔اخبار کے مطابق ملالہ نہ پشتون ہے اور نہ ہی پاکستانی ہے بلکہ وہ پولینڈ کے ایک عیسائی مشنری خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اسے 2000ءمیں اس وقت سوات بھیجا گیا تھا جب امریکا افغانستان پر حملہ کرنے جا رہا تھا۔ملالہ واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد ملالہ کی حقیقت کو جاننے والے ڈاکٹر نے ملالہ کے باپ کو پیغام بجھوایا کہ وہ جانتا ہے کہ ملالہ اصل میں کون ہے تو ملالہ کا باپ دم بخود رہ گیا اور منت سماجت کرتے ہوئے اس معاملے کو دبانے کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر نے اس شرط پر خاموشی کا وعدہ کیا کہ اگر وہ ملالہ کے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتائے گا تو ہی وہ یہ راز، راز رکھے گا۔ ملالہ کے باپ نے اس ڈاکٹر کو بتایا کہ اس لڑکی کا اصل نام جین ہے اور وہ ہنگری میں 1997 کو پیدا ہوئی۔ اس کے اصل ماں باپ عیسائی مشنری سے وابستہ ہیں جو 2002ءمیں سوات کے سفر میں ملالہ کویہیں چھوڑ گئے تھے،جب وہ خود خفیہ طور پر عیسائی ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ وہ یہ بھی ثابت کر سکتا ہے کہ جس نوجوان نے ملالہ پر گولی چلائی تھی وہ بھی نہ تو پشتون تھا نہ ہی طالبان۔ کیونکہ اس کا ڈی این اے بھی ایک کیس کے دوران اکٹھا کرنے کا اتفاق ہوا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اٹلی کا باشندہ ہے۔ مزید براں اس ڈاکٹر نے ان اخبار نویسوں کو ڈی این اے کے وہ نمونے بھی دکھائے۔ ڈان کی رپورٹ میں ملالہ کی سہیلیوں اور حملے کے بعد ملالہ کی کچھ تصاویر اور ویڈیوز اور ان کے علاوہ بھی کئی انکشافات کیے گئے ہیں۔جن کو طوالت کی وجہ سے نہیں لکھا جارہا۔ ایسی سب تحقیقات اور روز بروزعیاں ہونے والے حقائق اپنی جگہ بہت سارے سوالات چھوڑ رہے ہیں کہ گولی دائیں لگی یا بائیں، دماغ کے اندرتک گھس جانے والی گولی کا آپریشن کیسے ہوا اور پھرایک میجرآپریشن کے بعد ملالہ جی جھٹ پٹ آکسفورڈ کی کتاب پکڑے انٹرویو دینے کیسے آ ٹپکیں۔

ڈان کی رپورٹ میں کس قدر صداقت ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ملالہ اب مغرب کے ہاتھوں میں جاچکی ہے۔اب وہ اسے کھل کر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو ملالہ کی منظر عام پر آنے والی کتاب ہے جس میں اس نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زبان استعمال کی ہے۔ حتی کہ پاکستان کو بھی نہیں بخشا۔ 21اکتوبر کو ملالہ کی کتاب کے حوالے سے معروف کالم نگار اور بیوروکریٹ اوریا مقبول جان لکھتے ہیں جس کو اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے: ملالہ کی کتاب 276 صفحات پر مشتمل ہے۔جس میںمسلمانوں اور پاکستان پر وہ تمام الزامات لگائے گئے ہیں جو مغرب ایک عرصے سے لگاتاآیا ہے۔مغرب کے تمام الزامات اور پھر ملالہ کی کتاب کے اقتباسات سامنے رکھیں تو آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ اس کمسن بچی کے منہ میں دین، مسلمان اور پاکستان کے لوگوں کے بارے میں ذلت آمیز الفاظ کس نے ڈالے اور کس مقصد کے لیے ڈالے گئے؟۔اس کتاب میں سب سے پہلے جس شخص کا تذکرہ ہے، وہ سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم، امہات المو ¿منین اور اہل بیت کے خلاف غلیظ الفاظ استعمال کرنے والا سلمان رشدی ہے، جو مغرب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اس کے بارے میں ملالہ لکھتی ہے: ”پاکستان میں اس کتاب کے خلاف مضامین سب سے پہلے ایک ایسے مولوی نے لکھنے شروع جو ایجنسیوں کے بہت نزدیک تھا۔“ (صفحہ 30)۔ تاریخ کا یہ بدترین جھوٹ اسے کس نے لکھنے پر مجبور کیا کہ سلمان رشدی کو ”آزادی اظہار“ کے تحت یہ پورا حق تھا؟ ۔ اس کے بعد ملالہ کی کتاب میں ضیاءالحق کا ایک مضحکہ خیز قسم کا حلیہ بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ شور جو اس ملک میں مچایا جاتا ہے کہ ”عورتوں کی زندگی ضیاءالحق کے زمانے میں بہت زیادہ محدود ہوگئی تھی۔“ (صفحہ 24)

ایسے لگتا ہے کہ ان فقروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے تمام اسکول، یونیورسٹیاں، کالج بند کردیے گئے تھے اور عورتیں پس دیوار قید ہوگئی تھی ۔حالاں کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔اس کے بعد امریکا کے صدر بش کی زبان ملالہ کے منہ میں ڈال دی گئی اور وہ صفحہ 71 پر پرویز مشرف اور پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کو ایک ساتھ لپیٹتے ہوئے لکھتی ہے ”ہر کوئی سمجھتا ہے کہ مشرف ڈبل کراس کررہے تھے، امریکا سے پیسے لیتے تھے اور جہادی لوگوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ آئی ایس ٓائی انہیں اسٹریٹیجک اثاثہ سمجھتی تھی۔“امریکا کی شہ پر ملالہ نے پاکستان کی ایجنسیوں کو محب اسلام اور محب طالبان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ وہی فوج تو طالبان کے خلاف لڑرہی تھی۔ ملالہ کی کتاب میںپاکستان اور اسلام کے ساتھ تمسخر کا وہی انداز ہے جو پوری مغربی دنیا اور اس کے سیکولر حوالی موالی اپنی گفتگو میں اپناتے ہیں۔ ملالہ نے اسلام کی ساری تعلیمات کو، جو ہماری نصابی کتب میں پڑھائی جاتی ہیں، ضیاءالحق کی اختراع قرار دیا ہے۔ صفحہ 24 پر اس نے لکھا ہے کہ یہ سارا نصاب ضیاءالحق کے دور میں ہمیں یہ بتانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے کہ پاکستان کا اسلام کا قلعہ ہے۔ ملالہ کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا دکھ بھی بہت ہے کہ اس کے نزدیک یہ کام تو پارلیمنٹ کا تھا ہی نہیں۔ اس کے نزدیک بچوں کو یہ پڑھانا بھی غلط ہے کہ ہم ایک مضبوط قوم ہیں اور بھارت سے جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملالہ نے اپنے بچپن کا ہیرو سکندر اعظم بتایا ہے (صفحہ 20)۔ اس لیے کہ اس ”معصوم“ نے سکندر کا جو چہرہ انگریزی نصابی کتب میں پڑھا، وہ ایسا ہے کہ بچے مرعوب ہوجاتے ہیں۔ پورے مغرب میں بچوں کو کوئی نہیں پڑھاتا کہ سکندر وہ ظالم تھا جس نے تھیبس شہر کے تمام شہریوں اور معصوم بچوں کو صرف اس لیے قتل کردیا تھا کہ انہوں نے دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے تھے۔ ملالہ کی کتاب میں اسی طرح بہت کچھ لکھا گیا ہے۔جو صرف مغرب کا ہاتھ ہی لکھ سکتا ہے۔ جن کی ہمیشہ کوشش یہ رہی ہے کہ اسلامی دنیا سے اسلام کو نکال دیا جائے۔ اس کے لیے مغرب ہمیشہ اپنے ایسے لوگوں کو استعمال کرتا آیا ہے جس کو ہم اپنا سمجھتے ہیں لیکن اصل میں وہ مغرب کے ہوتے ہیں۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.