زندگی اک تماشا ۔ ایک معلمہ کی خودنوشت

بچپن میں پولیو کی مار اور بقیہ زندگی میں انسانی رشتوں کی بے رخی کی مار․․․․․․․یہ ہیں شائستہ جمال اور یہ ہے ان کی چند روز قبل شائع ہونے والی خودنوشت ’’زندگی اک تماشا‘‘۔خودنوشت کا شائع ہونا تھا کہ خاندان کے وہ لوگ جو خاتون سے پہلے ہی ناراض تھے، مزید ناراض ہوگئے۔ ناراضگی دو آشتہ سے سہ آتشہ ہوگئی۔ سچ کا تڑکا چیز ہی ایسی ہے۔ زد میں آنے والا بولایا بولایا پھرتا ہے۔ سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ خودنوشت کی اشاعت کے بعد مصنفہ سے فون پر رابطہ ہوا۔ راقم کو ’سر‘ کہہ کر مخاطب کررہی تھیں۔ بے اختیار پوچھ بیٹھا ’آپ کی مدت ملازمت کتنی باقی ہے؟‘‘۔۔’’دو سال بعد سبکدوشی ہے ‘‘․․․․․․ہم نے عرض کیا ’’ پھر تو ہمیں آپ کو سر کہنا چاہیے۔ اس لیے کہ خودنوشت لکھ آپ نے مردوں والا کام کیا ہے‘‘۔

مقتدرہ قومی زبان کے سابق سرخیل ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں ’’شائستہ کی آنکھوں کی چمک ،چہرے کی معصومیت، لہجے کی کھنک اور اپنی شخصیت پراعتماد سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کبھی بچپن میں پولیو کی یلغار نے اس سے کچھ چھینا بھی ہے،یا محبت کرنے والے باپ نے آنکھیں موند کر ’لکن میچی‘ کے المناک کھیل کوایک زندگی سے بھی زیادہ طول دے دیا ہے ، اس کے ددھیال والے رشتے ایسے ٹوٹے کہ ان کی بازیابی کی تمنا اس کے دل سے اب تک نکل نہیں سکی، اس کی بیوہ ماں نے اورشادی کر کے اس کے معصوم دل کو خراش لگائی ،جو تب بالکل نہیں جانتا تھا کہ ایک خوب رو بیوہ کے لئے اپنے یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والے درد مند ہاتھ اور دستِ ہوس میں امتیاز کرنا کس قدر دشوار ہو جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر انوار احمد نے مذکورہ خودنوشت کا مقدمہ لکھا ہے۔ لیکن آخر میں ایک ایسی بات لکھ گئے ہیں جس پر ان اپنا مقدمہ کمزو رہوگیا ہے۔ فرماتے ہیں ’’ اب بھی جو احباب ایک سو روپے میں ایسی اچھی کتاب خریدنا چاہیں۔وہ لوگ ڈاکٹر روبینہ ترین(ملتان)، ڈاکٹر شاہ محمد مری(کوئٹہ)سجاد نعیم(خانیوال) ، حمیرا اشفاق(اسلام آباد)،ظفر ہرل(فیصل آباد) تک اپنے پیسے اور پتے بھجوا دیں۔مجھ سے وہ رابطہ کریں جو پورا ایک سو یک مشت ادا نہ کرسکتے ہوں۔‘‘

ڈاکٹر انوار نے تین سو روپے کی اس کتاب کی قیمت سو روپے لکھی ہے۔ شاید بقیہ دو سو روپے وہ پر نسخے پر خود اپنی جیب سے ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ نیز یہ کہ انہوں روبینہ ترین و دیگر لوگوں کے نام لکھ کر یہ تصور کرلیا ہے کہ گویا ان حضرات سے پورا ملک بخوبی واقف ہے کہ اگر کتاب کی قیمت محض ان کے ناموں کے بل بوتے پر ان کے شہروں میں بھیج دی جائے تو یہ ان تک بہ آسانی پہنچ جائے گی۔ یک مشت ادا نہ کرنے والوں کو کتاب کی فراہمی کا فراخدلانہ وعدہ کرکے ڈاکٹر صاحب نے آبیل مجھے مار والے محاورے کو آواز دی ہے۔ ہمارے ملک میں کتاب خرید کر پڑھنے کا ’فیشن‘ ختم ہوتا جارہا ہے۔ لوگ اسی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں کہ کسی طرح انہیں کتاب مفت میں مل جائے۔

کتابی شکل میں اشاعت سے قبل ’’زندگی اک تماشا‘‘ ادبی جریدہ ’سنگت ‘ کوئٹہ میں قسط وار شائع ہوئی تھی ۔ مصنفہ ،ڈاکٹر انوار کی شاگرد رہ چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہی نے انہیں اسے کتابی شکل میں شائع کرانے پر آمادہ کیا تھا۔

شائستہ جمال کی زندگی میں ان کا بچپن ہی پرکشش تھا جب ان کے دادا حامد علی منصوری انہیں گود میں اٹھائے کراچی کے علاقے آرام باغ کے ایک فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتے تھے اور وہ سوچتی تھیں کہ دو ٹوٹی سیڑھیوں والے اس زینے کو کیونکر پھلانگا جائے گا۔ ان کی دادا اور داد ی نے انہیں وہ پیار دیا جو بقیہ زندگی میں انہیں کبھی نصیب نہ ہوسکا۔ ماں نے دوسری شادی کرلی۔ طنز کے تیر برساتی بہن دشمن جاں بن گئی۔ ایک بھائی چہیتا تھا، وہ اﷲ کو پیارا ہوا۔ ایک شخص جو ان کے مزاج کو سمجھتا تھا، اس سے باوجود خواہش کے، شادی نہ ہوسکی۔ غرضیکہ زندگی میں کبھی سکھ نصیب نہ ہوا۔ یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔ تلخ لب و لہجے کی حامل اس ضرورت سے بہت زیادہ کھری خودنوشت کی اشاعت کے بعد شائستہ جمال کی زندگی مزید اجیرن ہوئی۔ چند روز قبل شائستہ جمال راقم الحروف کو ایک گفتگو میں بتا رہی تھیں کہ جو ان کے خلاف نہ تھے، وہ بھی ہوگئے ہیں۔

صاحبو! زندہ رہنے کے لیے تھوڑی بہت منافقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دل رکھنے کے لیے چھوٹی تعریفوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ یہ بات ہم سب اچھی طرح سمجھتے ہیں اور گاہے گاہے اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو زندگی جہنم بن کر رہ جائے۔

شائستہ جمال کے چچا محمد علی منصوری ، تقسیم ہند سے قبل دہلی میں قیام پذیر تھے۔ وہاں ان کی دوستی اختر الایمان سے ہوگئی۔ یہ دوستی اس وقت رشتے داری میں تبدیل ہوئی جب شائستہ جمال کی چھوٹی پھپھو سلطانہ سے ان کی شادی ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد سارے رابطے ٹوٹ گئے۔ ایک چھوٹی سی غلط فہمی کی بنا پر شائستہ جمال کے دل میں سلطانہ ایمان کی طرف سے گرہ پڑ گئی۔ یہ گرہ ڈالنے والی مصنفہ کی اپنی بہن صوفیہ تھی ۔ یہ وہی بہن ہے جس سے مصنفہ کی سرد جنگ ہمیشہ ہی سے جاری رہی۔ برف تب پگھلی جب انہوں نے ’’زندگی

اک تماشا‘‘ سپرد قلم کرنے کا آغاز کیا اور انہوں نے ایک روزہمت کرکے سلطانہ ایمان کو فون کرڈالا ۔خلاف توقع سلطانہ ایمان نے انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور شائستہ جمال ان سے یک لخت رابطے میں آگئیں۔ سلطانہ، خاندان کے لوگوں کے بارے میں معلومات کا اہم ذریعہ بن گئیں۔

اپنی خودنوشت میں شائستہ جمال نے اپنی بہن صوفیہ سے جھگڑوں سے متعلق سب ہی کچھ بیان کردیا ہے۔ ایک بہن اپنی بہن کی ایسی دشمن بھی ہوسکتی ہے ؟ لیکن ہمارے معاشرے میں سب کچھ ممکن ہے۔

شائستہ جمال اپنی والدہ کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہوئے گویا اپنی تمام زندگی کو کوزے میں سمیٹ کر قاری کے سامنے پیش کردیا ہے۔ درج ذہل سطور میں نہ صرف مصنفہ کی نفسیاتی الجھنیں اور پریشانیاں عیاں ہو کر سامنے آتی ہیں بلکہ ہمارے بے رحم معاشرے کے وہ پہلو بھی آشکار ہوتے ہیں جن پر اس نام نہادسوسائٹی کی بنیاد قائم ہے۔

’’میں اپنی امی سے بہت محبت کرتی ہوں، ان کی بیماری کی وجہ سے فکرمند بھی رہتی ہوں۔ ان سے بدتمیزی کرنا بھی میں نے اب چھوڑ دیا ہے۔ صوفیہ اور باقی بہن بھائیوں سے بھی مجھے بہت پیار ہے۔ لیکن ان لوگوں سے اور خاص کر امی سے بات کرتے ہوئے گزرے وقت کی تلخیوں کو بھلا نہیں پاتی۔ بچپن اور جوانی کے زہریلے پریشان کن لمحے میرے وجود کو آسیب زدہ بنا چکے ہیں۔ان لمحوں نے میرے وجود میں ایسا زہر بھر دیا ہے، جس کا تریاق شاید اب ممکن نہیں۔ بچپن میں ٹائیفائڈ کے باعث ہونے والی جسمانی معذوری کو تو میں نے کبھی اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا لیکن میری ذہنی حالت میرے لیے اکثر وجہ پریشانی بنی رہی۔ شاید میں مناسب جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ لگایا ہوا ایسا پودا بن گئی ہوں جو نئی جگہ کی آب و ہوا میں پنپ نہیں سکا‘‘


زندگی اک تماشا 256 پر مشتمل ہے۔ مذکورہ خودنوشت مثال پبلیکیشنز، فیصل آباد نے شائع کی ہے۔ ناشر کا رابطہ نمبر یہ ہے: 0300-6668284

Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300400 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.