شاہ نواز حسین کی مودی نوازی تو اس لئے قابلِ فہم ہے کہ
نمک خواری بھی دنیا میں کوئی چیز ہوتی ہے لیکن مولانا محمود مدنی کے ذریعہ
نریندر مودی کی حمدو ثنا نے بہت سوں کو چونکہ دیا اس لئے کہ جمیعت العلماء
کا ماضی کانگریس پارٹی کی حمایت سے عبارت ہے۔ جو لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں
کہ جمہوری سیاست میں حمایت بھی ایک تجارت ہے اس میں تالی ایک ہاتھ سے نہیں
بلکہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ان کیلئےمولانا کے بیان میں کوئی حیرت کا پہلو
نہیں ہے۔ یہ ایک ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنی تمام تر وفاداریوں کے باوجود
کانگریس نے انہیں کبھی بھی راجیہ سبھا کی کرسی سے نہیں نوازہ۔ جس وقت
مولانا نے سیاست کے دلدل میں قدم رکھا کانگریس پارٹی بابری مسجد کی شہادت
کیلئے بی جے پی کی شریکِ کار تھی اس لئےوہ سماجوادی پارٹی کی سائیکل پر
سوار ہو کر میدانِ سیاست میں اترے لیکن پھر دل بدلو قبیلے کے سردار اجیت
سنگھ کا دامن تھام لیا اور راشٹریہ لوک دل کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے رکن بنے
۔
اجیت سنگھ نے ۲۰۰۹ کے انتخاب سے قبل بی جے پی کی این ڈی اے میں شمولیت
اختیار کرلی ۔مولانا محترم کو اجیت سنگھ کی دل بدلی سے کوئی پریشانی نہیں
ہوئی اس طرح گویا وہ خود بھی این ڈی اے میں شامل ہو گئے۔۲۰۰۹ کے پارلیمانی
انتخاب میں انہوں نے آرایل ڈی کے امیدواروں کیلئے خوب جم کر کام کیا یہ
گویا بی جے پی کو اقتدار میں لانے کی ایک کوشش تھی لیکن یہ بد قسمتی سے یہ
سعی بارآور نہ ہو سکی ۔ ۲۰۱۲ کے اسمبلی انتخاب سے قبل اجیت سنگھ نے پھر
اپنی ابن الوقتی کو کام میں لاتے ہوئے پینترا بدلا اور یو پی اے میں شامل
ہو کر مرکزی وزیر بن گئے ۔ کانگریس نے اپنی مجبوری کے پیش نظر اجیت سنگھ کو
تو معاف کردیا لیکن جب مولانا محمود مدنی کی مدت کار ختم ہوئی تو انہیں
دوبارہ راجیہ سبھا کا رکن نہیں بنوایا ۔ شاید اس لئے کہ گزشتہ اسمبلی
انتخاب میں مولانا محمود مدنی اپنے حلقۂ اثر مغربی یو پی سے آر ایل ڈی کے
ایک بھی مسلمان امیدوار کو کامیاب نہ کرا سکے تھے ۔لیکن جس بیچارے کی زبان
کو اقتدار کا خون لگ چکا ہواس کے احساسِ محرومی سے تووہی واقف ہوسکتا ہے جو
اس قبر میں کم از کم ایک بار پیر پسار کر سویا ہو ورنہ باہر والوں کو اس کا
ادراک نہیں ہوسکتا۔
چودھری اجیت سنگھ اور مولانا محمود مدنی کو جو لوگ مغربی یو پی کا بڑا
رہنما سمجھتے ہیں انہیں گزشتہ اسمبلی کے انتخابی نتائج پر ایک نظر ڈال لینی
چاہئے۔ ۲۰۱۲ سے قبل یوپی اسمبلی کے اندر لوک دل کے لیڈر کوکب حمید خان ہوا
کرتے تھے ۔ ان کو اس باغپت سے شکست خوارہونا پڑا جو چودھری چرن سنگھ کا گڑھ
مانا جاتا تھا اور جہاں سے جیت کر اجیت سنگھ رکن پارلیمان بنے تھے ۔ کوکب
کے علاوہ حاجی یعقوب قریشی اور شاہنواز رانا کے ستارے بھی انتخاب سے قبل
گردش میں آگئے ۔ ان دونوں نے بالترتیب میرٹھ اور بجنور سے آرایل ڈی کے
ٹکٹ پر قسمت آزمائی کی لیکن ناکام رہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں
حضرات اس سے قبل بی ایس پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو چکے تھے لیکن عین انتخاب سے
پہلے وہ لوگ مایاکے ہاتھی سے اترکراجیت سنگھ کا ہینڈپمپ چلانے لگے ۔ان تمام
کو کامیاب کرنے کیلئے مولانا نے بھرپور زور لگایا تھا لیکن چونکہ کنواں خشک
تھا اس لئے سارے کے سارے پیاسے رہ گئے۔ اب اس خشک کنوئیں سے کون سا امرت
نکال کر بی جے پی کے کمل کو سیراب کیا جائیگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
بازارِ سیاست میں جس شہ کی بہتات ہو جائے وہ ارزاں ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ
مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ فی الحال کانگریس، سماجوادی اور
بہوجن سماج جیسی پارٹیوں میں مسلمان سیاستدانوں کی اچھی خاصی بھیڑ لگی ہوئی
ہے لیکن بی جے پی کے نزدیک شاہنواز یا عباس نقوی کے علاوہ کوئی نہیں پھٹکتا
۔ اس لئے مسلم سیاستداں کی قدروقیمت اگر کہیں ہے تو وہ بی جے پی میں ہے ۔
نریندر مودی نے اس راستے کو مزید تنگ کردیا ہے ۔ ایک عرصے تک وہ مسلمانوں
کی پرواہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ گجرات کی حدتک اسے ان کی ضرورت نہیں تھی
اور گجرات کے ہندوؤں میں اس کی اثرو رسوخ اچھاہے لیکن قومی سطح پر بہت
ساری ریاستوں میں بی جے پی کاوجود ہی نہیں ہے نیز ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد
مودی کے فسطائی چہرے سے گھن کھاتی ہے۔مودی کی توجہات کا مرکز وہی اعتدال
پسند ہندوطبقہ ہےجس کیلئے اسے کہنا پڑتا ہے اگرچہ میرا تشخص مجھے اجازت
نہیں دیتا اس کے باوجودمیں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ پہلےشوچالیہ پھر
دیوالیہ۔ یہ دراصل اپنی ترجیحات میں تبدیلی کا اعلان ہے ۔
نریندر مودی کو اپنی اس مہم میں ایسے مسلمانوں کی ضرورت ہے جو اس کے ساتھ
نظر آئیں ۔ اس لئے اس کے جلسوں میں مسلمانوں کو خاص طور پر جمع کیا جاتا
ہے ۔بھوپال میں کارکنا ن کے مہا کمبھ کے موقع پر بی جے پی اقلیتی شعبے کے
ریاستی صدر ہدایت اللہ نے مسلمانوں کو روایتی لباس ٹوپی اور برقعہ پہن
کرآنے کی ہدایت کی تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ معاشرے کے تمام طبقات
پارٹی کے ساتھ ہیں ۔ یہ چور کی داڑھی میں تنکا والی بات ہے۔ اس درمیان دس
ہزار برقعوں کا تنازعہ سامنے آیا اب ان کو کون پہننے والا تھا یہ سمجھنا
مشکل نہیں ہے اس لئے کہ ساری دنیا جانتی ہے ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی
کا قتل کرنے سے پہلے اپنے آپ کو مسلمانوں کے بہروپ میں ڈھال لیا تھا ۔
کانپور ریلی کے وقت بھی یہی کوشش کی گئی ۔ آٹھ لاکھ مسلم رائے دہندگان میں
سے کم ازکم پانچ ہزارکا ہدف مقرر کیا گیا ااور جب وہ بھی پورا نہیں ہوا تو
ایک بی جے پی رہنما نے کہا ہم مسلمانوں سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ ہمارے
ساتھ آئیں گے ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ کانگریس سے بھی نالاں ہوں ۔ اس
بیان کے پس منظر میں اگر مولانا مدنی کا بیان دانستہ یا نادانستہ طور پر
وہی ہےجو بی جے پی چاہتی ہے ۔ اس کے پسِ پشت امید کی ایک کرن یہ بھی ہو
سکتی ہے کہ شاید اس خدمت کے عوض راجیہ سبھا کی رکنیت مل جائے لیکن اگر کہیں
نریندر مودی خدا نخواستہ وزیر اعظم بن جاتا ہے تو وہ مولانا کو نہ صرف
راجیہ سبھا کا رکن بلکہ نجمہ ہیپت اللہ کی مانند صدر بنادے گا اس لئے کہ ان
سے اچھا مکھوٹااسے کہاں نصیب ہوگا؟
مولانا محمود مدنی نے ٹائمز ناؤ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سیکولر جماعتوں کو
چاہئے کہ وہ کسی فردِ واحد سے خوفزدہ کرکے منفی بنیادوں پرمسلمانوں کا ووٹ
حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ہم کسی سے نہیں ڈرتے اس لئے’’ آجائیگا
کھاجائیگا ‘‘کی سیاست گریز کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیکولر
جماعتیں یہ بتائیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کیا کیا ہے؟
اور مستقبل میں اقلیتوں کو انصاف و مساوات کیلئے ان کا کیامنصوبہ ہے؟
سیکولر جماعتوں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ انتخابی منشور کا کس قدرپاس و لحاظ
کیا گیا؟ اس کے دو دن بعد مولانا نے راجھستان کے وزیراعلیٰ گہلوت کو بجا
طور پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ’’وزیراعلیٰ نے مسلمانوں کو قتل کرانے کے
علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ قاتل ولٹیرے آزاد ہیں اور مقتولوں کے اعزہ پر مقدمات
قائم کردئیے گئے ہیں ۔ ان بیانات بی جے پی کی باچھیں کھل گئیں گویا تیر
نشانے پر بیٹھا اور مقصدحاصل ہوگیا ۔
مولانا محمود مدنی کا مودی سے عشق نیا نہیں ہے اس سال ماہِ فروری میں آج
تک ٹی وی چینل پر سیدھی بات پروگرام میں وہ کہہ چکے ہیں کہ جمیت کے کارکنا
ن نے انہیں بتایا گجرات کے اندرکئی اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں نے مودی کو
ووٹ دیا۔حالات بدل چکے ہیں اور قابل ذکر قلب کی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔
دیگر نام نہاد سیکولر حکومتیں کے مقابلے گجرات کے مسلمان معاشی اعتبار سے
زیادہ خوشحال ہیں۔ مولانا نے مزید کہا کہ مہاراشٹر میں گجرات سے زیادہ
معصوم مسلمان جیلوں میں بند ہیں ۔ انسانی حقوق کے حوالے سے سیکولر حکومتوں
کا ریکارڈ بہت خراب ہے بنگال میں مسلمانوں کی معاشی حالت سنگین ہے۔ گجرات
کے علاوہ بہار میں بھی مسلمانوں نے بی جےپی کوجنتا دل کے سبب ووٹ دیا ۔ اس
لئے کہنا قبل ازوقت ہے کہ بہار وگجرات کا تجربہ ۲۰۱۴ کے اندر قومی سطح پر
دوہرایا جائے ۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے نتیش کمار کے الگ ہوجانے سے وہ
تجربہ تو ناکام ہو گیا لیکن ایک بات ضرور ثابت ہوگئی کہ گوں نا گوں وجوہات
کے سبب نتیش کمار کو مسلمانوں کا خیال مولانا محمود مدنی سے زیادہ ہے ۔
مودی کی امیدواری پرایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا مدنی نے فروری میں
کہا تھاکہ ابھی تو بی جے پی نے ہی یہ طے نہیں کیا ہے جب فیصلہ ہو جائیگا تو
ہم اپنا ردعمل ظاہر کریں گے ۔ گویا مولانا کو مودی کے وزیراعظم کا امیدوار
بن جانے پر اپنے چچا ارشد مدنی کی طرح کوئی اعتراض نہیں تھا جو مودی کو
گودھرا کے فسادات کیلئے ذمہ دار فسطائی رہنما گردانتے ہیں اوران کے خیال
میں اگر مودی وزیراعظم بن جائے تو ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوں گے
نیز مساجد شہید کی جائیں گی ۔
ایسا لگتا ہے کہ مولانا محمود مدنی گجرات کی خوشحالی کے حوالے سے
نریندرمودی کے سبز باغ سے مسحور ہیں لیکن نہیں جانتے کہ اس کی ہوا سی اے جی
کی رپورٹ نے نکال دی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات اور ان کے اندر غذائیت کی
کمی کے چونکا دینے والے اعدادوشمار منظر عام پر آچکےہیں۔ اسی کے ساتھ
۲۰۰۱ سے ۲۰۱۱کے درمیان بیروزگاری میں اضافے کا بھی اعتراف کیا گیاہے۔
جہاں تک غیر ملکی سرمایہ کاری کا شورہے تو اس بابت ریزرو بنک کے مطابق اس
دہائی میں گجرات کے اندر صرف ۷۲۰ کروڈڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جب کہ
مہاراشٹر میں ۴۵۸۰ کروڈاور دہلی میں ۲۶۰۰ کروڈ ڈالر کی۔ کرناٹک اور تمل
ناڈو بھی اس معاملے میں گجرات سے آگے ہیں۔ مولانا محترم اپنے گجرات دورے
کے دوران جن مریدین سے ملاقات کرتے ہیں وہ ممکن ہے خوشحال ہوئے ہوں گے لیکن
سرکاری اعدادو شمار گواہ ہیں کہ عام مسلمانوں کی حالتِ زار اس سے مختلف ہے۔
گجرات کے شہری علاقوں میں غربت کا تناسب ۱۸ فیصد ہے جبکہ قومی سطح پر یہ ۲۱
فیصد ہےلیکن پلاننگ کمیشن کے مطابق مسلمانوں کے اندر یہ تناسب ہندوؤں کی
بنسبت دوگنا سے بھی زیادہ یعنی۴ء۴۲ فیصد ہے جبکہ قومی سطح پر یہ اعداد ۹ء۳۳
فیصد ہے گویا گجرات کے شہری علاقوں میں مسلمان ہندوستان بھر کی بنسبت ۵ء۹
فیصد زیادہ غریب ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجوہات بھی مولانا کو معلوم کرنے
کی کوشش کرنی چاہئے۔ ۲۰۰۷ میں قومی منصوبے کے تحت ۱۵ فیصد رقوم کو
مسلمانوں کی ترقی کیلئے مختص کرنے کی تجویز کی مودی نے مخالفت کرتے ہوئے یہ
دلیل پیش کی تھی کہ اس سے سماجی تانہ بانہ بگڑ جائیگا۔ اس کے علاوہ
۵۳۰۰۰مسلمان طلباء کو اسکالرشپ دینے کے منصوبے کی بھی مودی نے مخالفت کی۔
اس مسلم دشمنی کا اثر یہ ہوا کہ گجرات جہاں عمومی طور پر۷۹ فیصد بچے اسکول
میں داخلہ لیتے ۴۱ فیصد اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ
ان کے ۷۵ فیصد بچے اسکول میں داخل ہوتے ہیں مگر صرف ۲۶ فیصد اپنی تعلیم
مکمل کرپاتے ہیں بقیہ ۷۴ فیصد کو درمیان ہی سے تعلیم منقطع کرنے پر مجبور
ہونا پڑتا ہے ۔
نریندر مودی کے اپنے حلقہ انتخاب منی نگر میں ایک ملت نگر ہے جہاں ۲۰ہزار
مسلمان یعنی۸ فیصد ووٹر بستےہیں۔یہاں ۲۰۰۰سے لے ۲۰۰۷ تک کسی بی جےپی کے
رہنما نےبشمول مودی کے جھانکنے کی زحمت نہیں کی۔ اس محلے میں پانی اور بجلی
کی سہولیات کابرسوں سے فقدان ہے۔گزشتہ مرتبہ جو کانگریسی میونسپل کاؤنسلر
وہاں سے منتخب ہوئے انہوں نے کچھ کام شروع کیا ہے مودی کے پے درپے تین
کامیابیوں کے چرچے تو بہت ہیں لیکن اسے ان دس سالوں دس فیصد آبادی پر
مشتمل مسلمانوں میں ایک ایسا شخص میسر نہ آسکا جسے۱۸۲ حلقۂ انتخاب میں سے
کسی ایک مقام پر کم ازکم امیدوار بنایا جاسکے ۔ ابوصالح شریف جو قومی
کاؤنسل برائے معاشی تحقیق کے ۱۵ سالوں تک سربراہ رہے ہیں کہتے ہیں کہ
گجرات کے مسلمان غربت ،فاقہ، تعلیم اور تحفظ کے معاملات میں دگرگوں صورتحال
کا شکار ہیں۔ ان کو سرکاری سطح پر ترقی پر پیٹے جانے والے ڈھنڈورے کا کوئی
فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ ایسے میں ملت کے سامنے یہ سوال ہے کہ وہ ایک بے غرض
محقق کی بات مانے یا ابن الوقت سیاستدان کی ؟
مولانا محمود مدنی اور نریندر مودی میں ایک اور شہ مشترک ہے کہ ان کے
مخالفین کو جس جرم کی سزا ملتی ہیں انہیں اس پر انعام مل جاتا ہے ۔ مثلاً
کانگریس کے جئے رام رمیش نے جب کہا کہ شوچالیہ مندر سے زیادہ پوتر ہے تو
اسے پارٹی کےاندر اور باہر تنقید کا نشانہ بننا پڑا لیکن مودی نے پہلے
شوچالیہ اور پھردیوالیہ کہہ کر اپنے آپ کو تعریف وتوصیف کا حقدار بنا لیا۔
اسی طرح دیوبند کے سابق مہتمم غلام محمد وستانوی نے مودی کی تعریف کرکے
اپنی کرسی گنوائی تو مولانا مدنی نے مودی کی تعریف کرکے نیک نامی کمائی۔
مولانا وستانوی کامہتمم کی ذمہ داری پر آنا اور سبکدوش کیا جانا دارالعلوم
کی سیاست کا غماز ہے ۔ اس کہانی کے تین اہم کردار مولانا ارشد مدنی ،
مولانا محمود مدنی اورجناب بدرالدین اجمل ہیں ۔ وستانوی تو ایک معمولی سا
مہرہ تھا جو بلاوجہ پٹ گیا ۔
مولانا اسد مدنی کے بعد ان کے بھائی ارشد اور بیٹے محمود کے درمیان علمی و
تنظیمی وراثت پر تنازعہ ہوگیا ۔ اس دوران بدرالدین اجمل جمیت کی سب سے
مضبوط شاخ آسام کے صدر تھے۔ انہوں نے وہاں یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بنا کر
اے جی پی کے ساتھ مفاہمت کرلی ۔ اس کے نتیجے میں کانگریس والے پریشان ہوگئے
اور مولانا ارشد مدنی سے اپنے حق میں خط لے آئےاس طرح مولانا ارشد مدنی
اور اجمل بدرالدین میں اختلافات ہوگئے اور اجمل کو جمیت سے نکال باہر کیا
گیا۔ اجمل نے چچا بھتیجے کے اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وستانوی کو مہتمم
منتخب کروادیا۔ اس کے بعد پاکستان سے آکر مولانا فضل الرحمٰن نے ان کے
درمیان مفاہمت کروائی اور دارالعلوم چچا تو جمیت بھتیجے کے سونپ گئے ۔ اس
بیچ وستانوی نے گجرات کے فساد کو بھلا دینے کا بیان دیا اور مودی کی
بلاواسطہ تعریف کردی جس کا فائدہ اٹھا کر وستانوی کی چھٹی کردی گئی ۔ اب
پھر صورتحال یہ ہے کہ چچا اور بھتیجاایک دوسرے کے خلاف مختلف پالوں میں ہیں
دیکھنا یہ ہے کہ اس بار اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟ اور ایوان بالا کی رکنیت
کا فال کس کے حق میں کھلتا ہے؟ مولانا محمود مدنی اور مودی رام باپو کا یہ
میم مربع کیا گل کھلائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ |