اﷲ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
گزشتہ روز ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میانوالی میں سہولیات
کا فقدان، ضلع بھر سے آنے والے غریب مریض طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے
باعث پرائیویٹ کلینکس پر علاج کرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔یہ ضلع میانوالی
کے ہیلتھ ڈیپارنمنٹ سے منسلک اعلیٰ افسران و عملہ کیلئے کوئی حیرت یا نئی
بات نہیں ہو گی کیونکہ ان کے کاغذی کاروائی کے مطابق سب اچھا ہے۔ اس کی بڑی
وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تقریباً ہر کام کاغذات میں ہی مکمل ہو چکا ہوتا
ہے۔لیکن اگر مزید سوال کیے جائیں تویہ افسران و عملہ نااہلی کو چھپانے کے
لئے سارا ملبہ حکومت پر ڈال دیتے یا حکومت سے ہی پوچھنے کا کہ کر بات گول
کرجاتے ہیں۔ کیوں ضلع میانوالی اچھے ڈاکٹرز، علاج معالجہ، مشینری، تربیت
یافتہ عملہ اور جدیدٹیکنیکل سہولیات سے محروم ہے۔کچھ عرصہ یعنی 10سے20سال
پیچھے چلے جائیں توضلع میانوالی میں ماہرلیڈی ڈاکٹرز بچوں کی پیدائش کے
حوالہ سے اپنی ذہنی صلاحیتوں و علم کو بروکار لاتے ہوئے آپریشن سے اجتناب
کرتی تھیں اور ان کی پوری کوشش ہوتی کہ نارمل ڈیلیوری ہو۔جس سے ماں اور بچہ
کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہ ہو۔اس عمل سے مریض بلاوجہ آپریشن ، غیر ضروری
ٹیسٹوں اور الٹراساونڈ کے اخراجات سے بھی بچ جایا کرتا تھا۔ماں، بچہ کوکچھ
وقت ہسپتال میں رکھنے کے بعد فارغ کر دیا جاتا تھا۔ڈاکٹرز کی طرف سے دی گئی
مناسب ادویات ، اور شفقت بھرا رویہ مریض کے مرض کی جلد صحت یابی میں اہم
کردار اداکرتا تھا۔لیکن آج ضلع میانوالی کی لیڈی ڈاکٹرز نے کمائی کا بازار
گرم کر رکھا ہے۔آج کل کی لیڈی ڈاکٹرز نارمل ڈیلیوری کی بجائے آپریشن کو ہی
ترجیح دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مریض اور اس کے گھر والوں کو مالی اور ذہنی
طور پر کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن ان کومجبوراً ڈاکٹرز کی
بات ماننا پڑتی ہے۔ آئے روزآپریشنوں کے ریٹ سرعام ٹی وی اسکرین کے علاوہ
اخبارات میں پڑھنے کو ملتے کہ فلاں چیز کا آپریشن کرانے کے اتنے چارچز بمعہ
ادویات وغیرہ وغیرہ جس سے میرے ضلع کے شہری بخوبی واقف ہیں۔ضلع میانوالی
میں ڈاکٹروں کی ناقص تشخیص اور بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے مریض ایک
بیماری سے چھٹکارا پانے کی بجائے کئی اور پیچیددہ امراض میں مبتلا ہو جاتے
ہیں جس کے لیے وہ مزیدنئے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں۔غریب آدمی ادھار مانگ
کر کہیں نہ کہیں سے علاج و معالجہ کے پیسے تو جمع کر لیتا ہے لیکن اس کو یہ
یقین نہیں ہوتا کہ وہ جس ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہے وہ مرض پر قابو پانے میں
کامیاب بھی ہو جائے گا؟جس سے مریض اور اس کے ساتھ موجود لوگ ڈپریشن کا شکار
نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ ضلع میانوالی کے ڈاکٹرو ں کا مریضوں سے اچھوت رویہ
بھی صحت یابی کے حصول میں ایک بڑی وجہ بنا ہو ا ہے۔ ڈاکٹروں کی طرف سے
بلاوجہ آپریشنزاور میڈیکل ٹیسٹوں کی بھرمار اور اِنکی بھاری بھرکم فیس بھی
آمدن کا ذریعہ ہے۔ یہ سب کچھ غریب عوام کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف
ہے۔ ڈاکٹروں کو اس بات کا بخوبی علم ہوتاہے کہ کون سی دوائی معیاری ، غیر
معیاری ، کون سی مریض کیلئے ٹھیک اور کون سی مضر ہے لیکن وہ مختلف میڈیسن
کمپنیوں کی طرف سے دیئے گئے مراعات کے عوض ہر مریض کوغیر معیاری ادویات لکھ
لکھ کر دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کے لیباٹریوں اور میڈیکل
اسٹوز سے کمیشن کا مک مکا ہوتا ہے ۔ میں بذات خود ایک ڈاکٹر کے پاس گیا جس
نے چیک اپ کرنے کے بعد نسخہ میرے ہاتھ میں دیا اور ساتھ کہا کہ فلاں میڈیکل
اسٹور سے یہ دوائی ملے گی یا لینا۔ ڈاکٹرز میں خداخوفی بالکل ختم ہو چکی
ہے۔ میڈیکل اسٹورز پر غیر معیاری ادویات کے بارے میں جانچ پڑتال کے لئے ڈرگ
انسپکٹر کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن ضلع میانوالی میں ڈرگ
انسپکٹر کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہسپتالوں کی صورت حال، صفائی
ستھرائی ، غیر تربیت یافتہ میڈیکل عملہ،پرائیویٹ ہسپتالوں میں موجود میڈیکل
اسٹورز اور لیبارٹریز کا ضلعی حکومت کے پاس کیا کوئی چیک اینڈ بیلنس کا
طریقہ موجود ہے؟؟؟سرکاری ہسپتالوں ، دیہی ہیلتھ سنٹرزاور پرائیویٹ کلینکس
پر موجود مشینری نہ ہونے کے برابر ہے اگر خدانخواستہ وہ موجودبھی ہے تو اس
کو ماہر آدمی چلانے والا نہیں یا وہ ناکارہ ہوچکی ہے ۔ضلع میانوالی میں
اسکولز کم اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے ۔سرکاری ہسپتالوں
میں مناسب دیکھ بھال اور علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے مریض پرائیویٹ
ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جہاں کی بھاری فیس عام آدمی کے بس سے باہر ہونے کے
باوجود ادا کرنے پر مجبور ہیں۔سرکاری وپرائیویٹ ہسپتالوں میں غیر تربیت
یافتہ میڈیکل اسٹاف کی بھر مار ہے جو کہ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ ہر فن مولا
ہیں۔ہر لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹ دوسری لیبارٹری ٹیسٹ سے مختلف ہوتی ہیں۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہم پر بھی
لازم ہے مگر ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے مریضوں سے ہزاروں روپے لے کر بھی
ہسپتالوں میں صفائی و ستھرائی نظر نہیں آتی ۔ضلع میانوالی میں اکثریت ہر فن
مولا ڈاکٹرز ہر قسم کا علاج ، آپریشن، ہر مرض کی ادویات دینے کو بھی تیار
ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ضلع میانوالی کی عوام میں کم علمی پائی جاتی ہے کہ
وہ ایک ہی ڈاکٹر سے ہر قسم کا علاج و معالجہ کیلئے رجو ع کر تے اور اس کی
وجہ معاشی حالات کا کمزور ہونا ہے۔غریب آدمی کی کوشش ہوتی ہے کہ عارضی طور
پر ان ہر فن مولا ڈاکٹرو ں کے پاس جائیں تاکہ کچھ افاقہ ممکن ہو ۔جبکہ غریب
پیسے دے کر موت کو گلے لگا رہا ہوتاہے۔سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں
مریضوں کی استعمال شدہ اشیاء اکثر کباڑیوں کے پاس بکنے کو آئی پڑی ہوتی ہیں
اور اس لین دین میں انہیں ہسپتالوں کا عملہ ملوث پایا جاتا ہے۔ کبھی ان
ڈاکٹرز نے اس طرف توجہ دی کہ جو پلاسٹک کے بیگ، سرنج وغیرہ جن کو احتیاط کے
ساتھ ایک جگہ گھڑاکھود کر کے دفن کیا جانا چاہیے وہ کباڑیوں کی دوکانوں پر
ڈھیر کے ڈھیرکیسے چلے جاتے ؟انہوں نے کبھی اپنے ماتحت عملہ کا چیک اینڈ
بیلنس رکھا؟اس کے علاوہ ضلع میانوالی کے ڈاکٹرز حضرات اپنی تعلیمی صلاحیتوں
اور ذاتی کوششوں کو بروکار لانے کی بجائے مریض کو دوسرے ہسپتال یا شہروں کو
ریفر کرنے میں جلد ی کرتے ہیں جو کہ ان کی صلاحیتوں و کارکردگی پر سوالیہ
نشان ہے ۔ حال ہی میں ہمارے نئے منتخب ممبرقومی اسمبلی نے سرکاری ہسپتال کا
دورہ کیا جہاں علاج و معالجہ اور صفائی ستھرائی کے حوالہ سے اپنے تحفظات کا
اظہار کیا۔ضلع میانوالی میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کی ایک اور وجہ ڈاکٹرز،
لیبارٹریز اور میڈیکل اسٹوزمالکان کے آپس میں کمیشن ہونے کی وجہ سے بھی
مریض جلد صحت یاب نہیں ہوسکتا کیونکہ کاروبار بند ہوجانے کا خطرہ لاحق رہتا
چاہے کوئی مریض مر جائے یا اس کے لواحقین چوری، ڈکیتی پر مجبور ہو
جائیں۔ضلع میانوالی کو یہ بھی اعزاز کہ یہاں پر نئے آنے والے ڈاکٹروں نے
خوب کمائی کی، اپنی پرائیویٹ کلینکس بنا ڈالیں اور جو بھی ڈاکٹر آتا وہ ضلع
میانوالی میں کم سے کم 20سے50سال تک جانے کا نام ہی نہیں لیتا کیونکہ یہاں
پر کم علم لوگ رہتے جو صحت کے حصول کیلئے ہزاروں روپے گنوانے کو تیار ہو
جاتے ہیں۔اوراگر یہی ریفر شدہ مریض پاکستان کے کسی دوسرے بڑے ہسپتال اور
ماہر ڈاکٹر کے پاس غلطی سے چلا بھی جائے تو وہاں کے ڈاکٹرز کا پہلا سوال
یہی ہوتا کہ کس ڈاکٹر نے تمھارا علاج کیا اور باقی وہ ڈاکٹر جو کچھ کہتا
میں یہاں لکھنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ اس کے علاوہ پورے ضلع میانوالی میں
عطائی اور حکیموں کی بھر مار ہے جو تقریباًہر گلی ،محلہ میں اپنے اڈے بنا
کر بیٹھے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں جو دن رات دولت کے عوض غریب،
نادار اور لاچار لوگوں میں موت کی تقسیم کر رہے ہیں۔کیا یہی انسانیت کی
خدمت ہے؟؟ بے شک بیماری اور شفاف دینے والی اﷲ پاک کی ذات لیکن ڈاکٹرصاحب
آپ بھی تو اپنی صلاحیتوں کو بروکار لائیں،غیر ضروری آپریشنوں، ٹیسٹوں سے
اجتناب کریں اور علاج و معالجہ کو بہتر بنائیں۔ ہرمریض اﷲ پاک کی ذات سے یہ
دعا کرتا کہ بیماریوں سے نجات دے مگرساتھ ڈاکٹرز کو اپنا مسیحا بھی مانتا
ہے۔ذرا سوچیے۔ |