66 واں یوم تاسیس
24اکتوبر یوم تاسیس آزا جموں و کشمیر : غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ 24اکتوبر کو ایک منفرد اور یاد گار دن کی
حیثیت اور اہمیت حاصل ہے ۔آج 24اکتوبر آزاد جموں و کشمیر کے قیام کی 65 ویں
سالگرہ اور 65واں یوم تاسیس ہے۔آج ہی کے دن 1947 ء میں آزا دجموں و کشمیر
حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔جس کے بانی صدر ہونے کا اعزازبیرسٹرسر
دار محمد ابراہیم خان کو حاصل ہے ۔آپ کو اپنے سنہری کارناموں کی وجہ سے
غازی ملت کا خطاب ملااور عوام الناس میں وہ اسی نام سے جانے پہچانے جاتے
ہیں ۔1947ء میں آپ ہی کی ولولہ انگیز قیادت اور مد برانہ راہنمائی میں
کشمیر کے مسلم مجاہد ین آزادی نے ہندو ڈوگرہ ظالمانہ راج کے خلاف مسلح جدو
جہد کا آغاز کیا تھا ۔جس کے نتیجہ کے طورپر ریاست کے جو علاقے آزا د ہوئے
انہیں آزاد جموں و کشمیر کے نا م سے بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہے اور
انہی علاقوں پر مشتمل آزاد جموں و کشمیر حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا
تھا۔کشمیری مسلمان مجاہدین کی یلغار اور فاتحانہ پیش قدمی کے نتیجہ کے طور
پر ریاست کے ظالم ڈوگرہ آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے اقتدار کا سورج
غروب ہونا شروع ہوا اور وہ اپنے دار الحکومت سرینگر سے رات کی تاریکی میں
بے سروسامانی اور افرا تفری کی حالت میں راہ اختیار کر کے جموں میں بھارتی
افواج کے زیر سایہ پناہ گزین ہوا۔آزادجموں و کشمیر حکومت کا قیام اور
مہاراجہ کافرار در حقیقت ایک سو ایک سالہ ڈوگرہ غاضبانہ اقتدار کے مکمل
خاتمہ کا نقطہ آغاز تھا۔ریاست کے آزاد علاقوں میں قائم کی جانے والی
انقلابی عبوری حکومت کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے اپنے
24اکتوبر 1947ء کے اعلان میں ارشاد فرمایا تھا کہ :
’’عوام کی متحدہ قوت اور اجتماعی منشاء ڈوگرہ ظالم حکمران کی افواج کی منظم
دہشت گردی اور تشدد پر غالب آگئی ہے اور وہ اور اسکا وزیراعظم کشمیر سے
بھاگ گئے ہیں اور شاہد جلد ہی جموں سے بھی بھاگ جائیں گے۔‘‘
’’ریاست کی دونوں ہمسایہ مملکتوں یعنی پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے
ساتھ اس کے الحاق کا فیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزانہ منشاء اور ووٹ سے رائے
شماری کے ذریعے کریں گے اور عبوری حکومت اس مقصد کے لیے جلد ہی انتظامات
کرے گی اور وہ غیر جانبدار مبصرین کو بھی مد عو کریگی تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں
کہ عوام نے اپنی آزاد نہ منشاء سے الحاق کا فیصلہ کیا ہے ‘‘(ملا خطہ ہوسول
اینڈملٹری گزٹ ،لاہور ،25اکتوبر 1947ء)۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان
،بانی صدر آزاد جموں وکشمیر نے اپنے 24اکتوبر 1947ء کے اعلان میں مزید
ارشاد فرمایا:
’’عبوری آزاد حکومت جو چند ہفتے قبل عوام نے اس مقصد کے لیے قائم کی تھی کہ
ڈوگرہ راج کے ناقابل ،برداشت مظالم اور اس کی زیادتیوں کا خاتمہ کیا جائے
اور ریاست کے عوام بشمول مسلمان ،ہندوؤں اور سکھوں کو حکومت خود اختیاری کا
حق حاصل ہوسکے نے ریاست کے بیشتر علاقوں پر اپنا اقتدار مستحکم بنیادوں پر
قائم کر دیاہے اور اسے توقع ہے کہ ڈوگرہ راج کے زیر تسلط ریاست کے بقیہ
علاقوں کو بھی جلد آزاد کر ا لیا جائیگا ۔
عبوری آزاد جموں و کشمیر حکومت جو عوام کی متحدہ اور اجتماعی منشاء کی مظہر
تھی نے پوری قوت سے اس بات کا اعلان کیاکہ یہ ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں
ہے ۔چونکہ اس حکومت کا بنیادی مقصد ریاست کو ڈوگرہ راج کے ظالمانہ چنگل سے
آزاد کر ا کر عوام کی آزادانہ منشاء سے اس کے الحاق کا فیصلہ کرنا تھا
۔لہذا 24اکتوبر 1947ء کے اعلان میں یہ قرار دیا گیا کہ :
’’عبوری حکومت اپنی دونوں ہمسایہ مملکتوں پاکستان اور بھارت کے بارے میں
انتہائی دوستانہ اور اچھے جذبات رکھتی ہے اور یہ توقع رکھتی ہے کہ دونوں
مملکتیں جموں و کشمیر کے عوام کی ان کوششوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں گی
جو وہ اپنی سیاسی آزادی کے حصول کے حق کے استعمال کے لیے کر رہی ہیں ۔‘‘
یہ امر افسوسناک ہی نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے ایک المیہ
سے کم نہیں تھا کہ اس گہری سازش کے تحت جو گانگرس ماؤنٹ بٹن مہاراجہ کے
درمیان طے ہوئی تھی اور جس کا مقصد کشمیریوں کو اپنی جدوجہد آزادی سے محروم
کرنا،مسلم اکثریت ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان سے جدا کرنا، پاکستان کو
دفاعی لحاظ سے کمزور اور معاشی لحاظ سے مفلوج کرنا تھا، کے تحت بھارت نے
27اکتوبر 1947ء کو ریاست میں اپنی پوری فوجی قوت اور سازو سامان کے ساتھ
ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا۔ بھارت نے اپنی جارحیت کا ارتکاب اس دلیل اور
بہانے پر کیا کہ ریاست کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کے بھارت کے
ساتھ الحاق کسی دستاویز پر دستخط کر کے مدد کی درخواست کی تھی۔ بھارت کا یہ
موقف درحقیقت دھوکہ دہی اور فراڈ پر مبنی ہے کیونکہ مہاراجہ کا اقتدار
ریاست سے عملاً ختم ہو چکا تھا اور وہ ایک بگھوڑے حکمران کی حیثیت اختیار
کر چکا تھا اس نے بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کی جس دستاویز دستخط کیے وہ
اقدام غیر اخلاقی،غیر قانونی اور غیر آئینی تھا اور اس سے ریاست کے سیاسی
مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال امر واقع یہ ہے کہ بھارت نے
اسی دستاویز کی آڑ میں پہلے سے طے شدہ منصوبہ اور سازش کے تحت ریاست میں
جارحیت کا ارتکاب کیا تھا لیکن اس کی غاصب افواج کو مسلم مجاہدین آزادی کی
سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے غداری کے ساتھ جو جارحانہ اقدامات
کیے تھے اس کے نتیجہ کے طور پر وہ اپنے اہم بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں
کامیاب ہوا اور اس کے بعد دنیا کی رائے عامہ کو دھوکہ دینے اور ان کی
آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دروازے پر
دستک دی اور اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 35کے تحت اس نے یکم جنوری
1948ء کو پاکستان کے خلاف ایک بے بنیاد اور من گھڑت شکایت دائر کی۔ پاکستان
جو ایک نوازائیدہ ملک کی حیثیت سے بے پناہ مشکلات اور مسائل میں گھرا ہوا
تھا اور جس کا جموں و کشمیر کے عوام کی مسلح جدوجہد آزادی میں کوئی ہاتھ
نہیں تھا بھارتی الزامات کا جواب دینے پر مجبور ہوا اور اس نے بھی اقوام
متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 35کے تحت 15جنوری 1948ء کو بھارت کے خلاف جوابی
شکایت دائر کی ۔ جس میں بھارت کی جارحیت اور ان سازشوں کو بے نقاب کیا جو
ریاست کے عوام پر جارحیت کی شکل میں کی گئی تھیں۔ پاکستان کا وہ وفد جو
اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی وکالت اور ترجمانی کیلئے گیا
اس میں عبوری آزاد کشمیر حکومت کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم
خان بھی شامل تھے۔ انہوں نے وہاں پر کشمیر کاز کی بہترین وکالت کی اور اس
کے علاوہ انہوں نے سلامتی کونسل کے صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو
متعدد خطوط بھی تحریر کیے۔ مختصر اً یہ کہ بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان
ریاستی مسلمانوں کی مسلح جدوجہد آزادی کے ہیرو اور ہند وڈوگرہ ظالمانہ راج
کے خاتمہ کے خلاف حقیقی قوت متحرکہ تھے۔ آپ بین الاقوامی سطح پر اقوام
متحدہ کے اندر اور باہر مسئلہ کشمیر کے ساتھ ابتداء ہی سے منسلک تھے۔ اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد جس میں غازی ملت سردار محمد
ابراہیم خان بھی شامل تھے کی اعلیٰ وکالت اور ترجمانی کے نتیجے کے طور پر
بھارت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے
مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک کمیشن قائم کیا جسے اقوام متحدہ کا کمیشن
برائے پاک و ہند کہا جاتا ہے۔ کمیشن نے برصغیر اور ریاست کے دونوں اطراف کا
دورہ کیا لیکن کمیشن کی برصغیر میں آمد سے قبل صدر سردار محمد ابراہیم خان
نے اس کے چیئرمین کو 8جولائی 1948ء کو ایک تفصیلی خط تحریر کیا۔ اس خط میں
غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی
تاریخ اور جدوجہد آزادی پر تفصیلی روشنی ڈالی بلکہ آپ نے کمیشن کی توجہ
1947ء کے قانون آزادی ہند کی طرف بھی مبذول کرائی جس کا تعلق ریاست کے
پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق سے تھا۔ سردار محمد ابراہیم خان نے اپنے خط
میں کمیشن کی توجہ بھارت کی غاصب افواج کے ظلم و بربریت،کشمیریوں کے قتل
عام اور ہلاکتوں اور جائیداد کی آتش زنی اور تباہی و بربادی کی طرف بھی
مبذول کرائی، آپ نے ان حالات کا بھی تفصیلی خاکہ پیش کیا جن کے اندر اقوام
متحدہ کی زیرنگرانی ریاست جموں و کشمیر میں الحاق کے مسئلہ پر استصواب رائے
کرایا جا سکتا ہے۔ سردار محمد ابراہیم خان نے کمیشن کے نام اپنے خط میں
علاوہ اور باتوں کے یہ بھی تحریر فرمایا کہ:
’’آزاد کشمیر حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ یہ وہ کم ازکم شرائط ہیں جن کو
پورا کیا جانا اور اسے فوری پیش کرنا ضروری ہے۔ پیشتر اس سے کہ وہ (حکومت
آزاد جموں و کشمیر )سلامتی کونسل کے تجویز کردہ حل پر اپنے آپ کو پابند کر
سکے۔ ہماری رائے میں تجویز کردہ شرائط وہی ہیں جو سلامتی کونسل میں ابتدائی
مرحلے پر مسئلہ کشمیر پر بحث کے دوران اراکین کونسل نے پیش کیں تھیں۔ میں
زوردے کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آزاد کشمیر حکومت کسی ایسے تصفیہ کو قبول
نہیں کریگی جس میں وہ فریق نہ ہو اور یہ کہ پاکستان جو جموں و کشمیر کے
سیاسی مستقبل کے بارے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے آزاد کشمیر حکومت کو کسی
ایسے طریقہ کار کا پابند نہیں کر سکتا جو اس کی پیشگی منظوری کے بغیر
اٹھایا گیا ہو‘‘ (ملاحظہ ہو ضمیمہ20پیرا گراف 41)ایس/اے سی
۔12/انفو،3،22جولائی 1948ء اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند کی پہلی
عبوری رپورٹ مورخہ 22ستمبر 1948ء)
یہاں پر اس بات کا تذکرہ کرنا بے جانہ ہو گا کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے
پاک و ہند نے اپنی 13اگست 1948ء کی قرار داد میں جو تجاویز پاکستان اور
بھارت کی حکومتوں کو پیش کی تھیں انہیں بھارت کی حکومت نے 20اگست 1948ء کو
بلاتامل قبول کر لیا تھا کیونکہ یہ تجاویز اس کے حق میں ساز گار تھیں جبکہ
ان میں سے بیشتر پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث ہو سکتی تھیں۔ لہذا حکومت
پاکستان نے 13اگست 1948ء کی قرار داد میں پیش کردہ تجاویز کے بارے میں
کمیشن سے تشریحات اور بعض ضمانتیں طلب کیں تاکہ ریاست جموں و کشمیر میں
رائے شماری کے عمل کو صحیح معنوں میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بنایا جا
سکے۔ کمیشن نے اپنے دورہ کے دوران میں غیر رسمی طور پر آزاد کشمیر حکومت کی
قیادت سے بھی ملاقات کی جس میں اس حکومت کے نگران اعلیٰ چودھری غلام عباس
اور صدر سردار محمد ابراہیم خان بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ کمیشن کی پہلی
عبوری رپورٹ کے پیراگراف 96کے مطابق ’’چودھری غلام عباس نے کمیشن
کی13اگست1948ء کی قرار داد کے مندرجات پر کوئی اعتراض نہیں کیا ماسوائے اس
بات کے کہ اس قرارداد کے حصہ سوئم کو حصہ اول کے طور پر رکھا جائے۔’’جبکہ
سردار محمد ابراہیم خان نے اس بات پر زور دیا کہ قرار داد اس بات کی ضامن
نہیں ہے کہ بھارت ریاست میں منصفانہ، آزادانہ اور غیر جابندار انہ رائے
شماری کی شرائط پوری کرنے کیلئے تیار ہے اور یہ کہ آزاد حکومت غیر مشروط
جنگ بندی قبول نہیں کر سکتی۔‘‘ بہرحال جب حکومت پاکستان نے کمیشن کی 13اگست
1948ء کی قرار داد کے بارے میں کمیشن کے چیئرمین کو اپنے 6ستمبر 1948ء کے
مکتوب کے ذریعے اپنی رضا مندی سے آگاہ کیا تو پاکستان کے وزیر خارجہ نے اس
میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا کہ ـ:
’’حکومت پاکستان ابتداء میں یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ اس کے خیالات حکومت
پاکستان کے ہیں اور کسی صورت میں بھی ان کو آزاد کشمیر حکومت پر مسلط نہیں
کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی بھی طرح یہ خیالات آزاد کشمیر حکومت کے ہیں۔
حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ کمیشن آزاد کشمیر حکومت کے نمائندوں کے ساتھ
ان کی انفرادی حیثیت میں بات چیت کرنا چاہتا ہے اور اسے اس امر میں کوئی
شبہ نہیں ہے کہ یہ نمائندے اپنی انفرادی حیثیت میں کمیشن کو اس کی قرار داد
کی تجاویز کے بارے میں اپنے موقف سے آگا ہ کریں گے۔ حکومت پاکستان ہر موقع
پر کوشش کریگی کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کو مائل کر سکے کہ کمیشن کی تجاویز
کو قبول کر لے یہ اس کے بارے میں وہی نقط نظر اختیار کرے جو حکومت پاکستان
کا ہے لیکن انکو قبول کرنے کا حتمی اختیار آزاد کشمیر حکومت کو ہی حاصل ہے۔
جیسا کہ کمیشن کو تفصیلی طور پر بتایا جا چکا ہے کہ آزاد کشمیر فورسز کا
سیاسی اختیار آزاد کشمیر حکومت کے ہاتھ میں ہے اور وہی حکومت اس بات کا
اختیار رکھتی ہے کہ وہ اپنی افواج کو جنگ بندی کا حکم جاری کر سکے اور جنگ
بندی کے معاہدے اور شرائط پر عمل کرے جوان افواج پر لازمی ہوں گی‘‘۔
ّملاحظہ ہو کمیشن کی پہلی عبوری رپورٹ کا پیرا گراف 97(2)۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے 6ستمبر 1948ء کے محولہ بالا مکتوب میں مزید
تحریر کیاکہ:
’’ہم اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کی جنگ آزادکشمیر نے
ہی شروع کی تھی جس کی نمائندگی اب آزاد کشمیر حکومت کرتی ہے اور یہ کہ یہ
حکومت مسئلہ کشمیر کے کسی بھی تصفیہ کی ایک بنیادی فریق ہے۔بلاشبہ یہ نقطہ
نظر کمیشن کی قرار داد کی تجاویز میں موجود ہے جس کا تعلق کمیشن اور لوکل
اتھارٹیز کے درمیان تعاون کی شکل میں ظاہر کیا گیا ہے ‘‘۔ (ایضاً ،
پیراگراف 97(3)۔
اس تاریخی پس منظر کے بعد جواوپر بیان کیا گیا ہے اور ان مظالم کے پیش نظر
جو بھارت نے 1947ء سے لے کر آج تک ، بالخصوص 1989ء سے بھارتی مقبوضہ کشمیر
کے عوام پر روار رکھے ہوئے ہیں اور کشمیری عوام تاریخ کی بے مثال جانی،
مالی اور عزت وآبرو کی قربانیاں پیش کر کے تحریک حریت میں لازوال داستانیں
رقم کر رہے ہیں آج وادی کشمیر کے مظلوم اور محکموم عوام نے ایک لاکھ سے
زائد کشمیری شہداء نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرکے مسئلہ کشمیر کو
زندہ کررکھاہے -
ٓآج 24اکتوبر آزاد جموں و کشمیر کا 65واں یوم تاسیس ہے کشمیر ی مسلمانوں کی
جدوجہد آزادی کے اس فیصلہ کن اور نازک موڑ پر جبکہ کشمیریوں کی منزل الحاق
پاکستان ہے 19جولائی 1947ء کو سرینگر کے مقام پر غازی ملت سردار محمد
ابراہیم خان مرحوم کی رہائش گاہ پر مسلمانان ریاست جموں و کشمیر نے الحاق
پاکستان کی تاریخی اور تاریخ ساز قرار داد الحاق پاکستان منظور کی تھی۔
اہلیان وطن 24اکتوبر کا دن آزاد کشمیر کے عوام اور حکومت کو یہ یاد دلاتا
ہے کہ انہیں اپنی وہ ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں جو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے
اندر محکوم بھائیوں، بہنوں اور بزرگوں اور ہم وطنوں کی طرف سے ان پر عائد
ہوتی ہیں اور یہ اس لیے بھی ان پر لازم ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام
بھارت کے غاصب حکمرانوں اور اس کی قابض افواج کے خلاف زندگی اور موف کی اس
جدوجہد میں مصروف ہیں جا کا مدعا بھارت کے نوآبادیاتی نظام کی غلامی کے
چنگل سے آزادی اور الحاق پاکستان ہے۔
(مضمون نگار پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے سینئر رہنما جموں کشمیر ہیومن
رائٹس کمیشن کے چیئرمین ہیں )
|