وادی سرن کے سیاحتی مقامات

(پاکستان کے انٹر لاکن اور زرمت ٹاؤن)

جبوڑی جنت نظیر وادی سرن کا مرکزی مقام اور چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھرا ہواایک چھوٹاسا شہر ہے ۔اس کے مشرق میں وادی سرن کا مشہور سیاحتی اور پر فضا مقام کنڈ بنگلہ ہے جس کی سطح سمندر سے بلندی 10ہزار سے 12ہزار فٹ ہے ۔ جبکہ جبوڑی کے مغر ب میں کوہ موصیٰ کا مصلیٰ بلند و بالا پہاڑ سال کے بارہ ماہ برف کی سفید چادر اوڑے عجیب و شان سے کھڑا نظر آتا ہے۔ کوہ موسیٰ کا مصلیٰ کی سطح سمندر سے بلندی بارہ ہزار فٹ ہے ۔ جبکہ جبوڑی کے جنوب میں ایک پر فضا سیاحتی مقام شہید پانی واقع ہے جسکی سطح سمندر سے بلندی ساڑے نو ہزار فٹ ہے۔ جبوڑی شہر کے شمال میں ٹھاٹیں مارتا اور کسی نوخیز حسینہ کی طرح نہر اوربل کھاکے گزرتا دریائے سرن عجیب دعوت نظارہ پیش کرتا ہے۔ مانسہرہ سے شاہراہ ریشم پر بذریعہ گاڑی آئیں تو 19کلو میٹر آگے شنکیاری واقع ہے جسے بلا شبہ جنت نظیر وادی سرن کا داخلی دروازہ بھی کہا جاتا ہے شنکیاری سے نصف کلو میٹر آگے خانپور دوراہا کے مقام سے سڑک جدا ہو جاتی ہے اور جنت نظیر وادی سرن کا آغاز شنکیاری سے وادی سرن کے مرکزی مقام جبوڑی کا فاصلہ 17کلو میٹر اور اس راستے پر سفر کرتے ہوئے سیاح شاہ زیب جھیل،ڈاڈر ،بھوگڑ منگ کی حسین اور دلفریب چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور خوبصورت قصبوں سے گزر کر جنت نظیر وادی سرن کے مرکزی مقام جبوڑی پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں آنیوالے سیاحوں کو جبوڑی بازار سے اشیائے خوردنوش بشمول من فش انتہائی مناسب نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں کامن فش مشہور زمانہ ٹراؤٹ فش کے اہم پلہ اور دریاے سرن میں پائی جاتی ہے۔ لیکن غیر قانونی اور بے دریغ شکار نے کامن فش کو معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے باہر سے وادی سرن کا رخ کرنے والے شکاری حضرات ڈائناسائیٹ جنریٹرز ، بلیچ پاؤڈر سے کامن فش کا شکار کرکے اس انتہائی قیمتی اثاثہ سے آنیوالی نسلوں کو محروم کرنے کی مہم دن رات مصروف عمل جبکہ محکمہ فشری کے پاس انہتائی کم عملہ اور ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث کامن فش مکمل طور پر غیر قانونی شکاریوحں کے رحم و کرم پر ہے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ محکمہ فشری کو مطلوبہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے اور کامن فش کے غیر قانونی شکار پر سختی سے عمل درآمد کروائے تاکہ معدوی کے خطرے سے دوچار کامن فش جیسے انتہائی قیمتی اور قدرتی اثاثہ کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ جبوڑی شہر میں باہر سے آنے والے سیاحوں کی رہاش کے لیے ہوٹل موجود ہیں۔ وادی کے لوگ انتہائی ملنسار جبکہ یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے جنت نظیر وادی سرن مین شاہراہ کی تعمیر و توسیع سے ملک سے آنیوالے سیاحت کے دلدارہ سیاحوں کے لیے جنت نظیر وادی سرن اولین چوائس ہے ۔ شنکیاری سے باہر سے آنے والے سیاح صرف 30منٹ کے انہتائی آسان سفر کے بعد جبوڑی تک رسائی جبکہ پورے دن میں براستہ سڑک وادی سرن کے آخری مقام منڈی ریسٹ ہاؤس تک بآسانی اور واپس جا سکتے ہیں جبوڑی شہر سے مشہور پر فضا سیاحتی مقام کنڈ بنگلہ کا پیدل سفر دو سے اڑھائی گھنٹے کا ہے۔ کنڈ بنگلہ تک بذریعہ جیب براستہ شنکیاری بھی آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ کنڈ بنگلہ کے مقام پر محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس بھی موجود تھا۔ جہاں محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران اور ان کی فیملیوں کے علاوہ سیاح بھی خصوصی اجازت نامہ کے ذریعہ رات کو ٹھہرتے تھے۔لیکن چھ سال قبل ہونے والے ہولناک زلزلہ سے اس خوبصورت ریسٹ ہاؤس کی عمارت تباہ ہو گئی تھی جوکہ صوبائی حکومت محکمہ جنگلات کے اعلیٰ حکام کی غفلت اور بے حسی کے باعث آج تک تعمیر نو کی منتظر ہے کنڈ بنگلہ سے سیاح ایک طرف وادی کاغان دوسری طرف وادی پکھل اور سرن ویلی کا نظارہ کر سکتے ہیں کنڈ بنگلہ سے ان حسین وادیوں کا نظارہ مرتے دم تک انسان کے ذہن سے چمٹ کر رہ جاتا ہے اور انسان ساری عمر ان حسین وادیوں کے دلفریب نظارہ کے سحر میں جکڑ کر رہ جاتا ہے کنڈ بنگلہ کے حسین سیاحتی مقام سے سراں،شہید پانی،شدل گلی، ندی بنگلہ ، کوہ موسیٰ کا مصلہٰ تک بذریعہ جیب صرف تین گھنٹوں میں پہنچا جا سکتا تھا لیکن مرکزی و صوبائی حکومتوں اور محکمہ سیاحت کی غفلت اور عدم توجہی کے باعث یہ جیب روڈ متعدد مقامات سے لینڈ سلائیڈنگ کے باعث اب یہ سڑک ختم ہو چکی ہے۔ اب سیرو و سیاحت اور مہم جوئی کے دلدارہ سیاح اسی راستے سے پیل آٹھ گھنٹوں میں سراں، ندی بنگلہ کوہ مصلیٰ تک جاتے ہیں۔ جبکہ جبوڑی سے براستہ سنڈی جیپ اور پھر وہاں ح سے پیدل پگڈنڈیوں کے ذریعہ ایک اور حسین سیاحتی مقام شہید پانی تک تین گھنٹوں میں پہنچا جا سکتا ہے ۔ شہید پانی کے حسین مقام پر بھی محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس موجود تھا۔ لیکن اس ریسٹ ہاؤس کی خوبصورت عمارات بھی تباہ کن زلزلہ کی نظر ہو گئی جو تاحال تعمیر نو کی منتظر ہے۔ اور یہاں کا رخ کرنے والے سیاح اب ساتھے لائے گئے خیموں میں رات کو قیام کرتے ہیں۔ شہید پانی سے آگے شدل گلی، سونہڑیں داسر ، ندی بنگلہ ، کوہ مصلیٰ جیسے حسین اور دلفریب حسن سے مالا مال سیاحتی مقامات سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب وادی سرن کے مرکزی مقام جبوڑی شہر سے بذریعہ سڑک سچاں ، نواز آباد ۔ میل بٹ۔جبڑ منڈی ریسٹ ہاؤس تک رسائی انتہائی آسان ہے منڈی ریسٹ ہاؤس میں رات کو قیام کے بعد سیاح صبح تازہ دم ہو کر پیدل آرام گلی ،کھنڈا گلی سے کوہ مصلیٰ ,مالی، ڈھور، کوہ پلیجہ، کھوڑی جسیے حسین اور پر فضا مقامات تک رسائی حاصل کر حاصل کر کے اپنے سیاحتی زوق کی تسکین کر سکتے ہیں ان مقامات پر آپ کو رنگ برنگ جنگلی پھول، آسمان سے باتیں کرتے دیار ، بیار کے بلند و بالا درخت ۔ سر سبز میدانوں میں چرتے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کہیں کہیں چرواہوں کی جانب سے اپنی رہاش کے لیے لکڑی سے بنائی گئی عارضی رہاش گاہیں بٹیہاڑ کھٹہ کی سفید دودھیا آبشار ، جھرنے اور مرغ زریں ،تیتر و بن ککڑ کوئل کی خوبصورت بولیاں انسان پر سحر سا طاری کر دیتی ہیں وادی سرن کے ان سیاحتی مقامات کی دلفریبی اور خوبصورتی کا احاطہ قلم کے ذریعے ممکن ہی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں اور محکمہ سیاحت اگر ان مقامات تک سیاحوں کی رسائی آسان اور بنیادی سہولیات پر توجہ دیں تو بلا شبہ صر ف سیاحت کی مد میں اربوں روپے سالانہ حکومتی خزانہ میں جمع ہو سکتی ہیں وادی سرن کے ان پر فضا سیاحتی مقامات کی دلکشی کو زیادہ نقصان جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جنگلات کی اندھا دھندکٹائی نے جہاں اس جنت اارضی سے یہاں پر پائے جانے والے چرندوں و پرند کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر رکھا ہے وہاں کٹاؤ اور لینڈ سلائینڈنگ کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ کے ساتھ ساتھ دریائے سرن میں اس کٹاؤ کے عمل سے بہہ کر آنے والی مٹی نے ہزارہ میں بنائے گئے ملک کے سب سے بڑے ڈیم تربیلا ڈیم کی عمر بھی گھٹا دی ہے اور اس ڈیم میں مٹی بھرنے کے عمل نے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد کم اور بجلی کی پیدوار کا عمل بھی متاثر ہوا ہے ۔ مرکزی و صوبائی حکومتوں اور محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ وہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر پلان وضع کرے اور ان پلان پر عمل سختی سے عمل درآمد کروائے بصورت دیگر آنیوالی نسلیں اس قیمتی قدرتی اثاثے سے محرومی پر ہمیں معاف نہیں کریں گی وادی سرن کے ان حسین سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے ماہ مئی سے ماہ ستمبر تک پانچ ماہ انتہائی موزوں ہیں جبکہ براستہ سڑک گھومنے پھرنے والے سیاح اپنی فیملیوں کے ساتھ سال کے بارہ مہینے جھیل شاہ زیب، ڈاڈر ،بھوگڑ منگ، جبوڑی ، سچاں ، دومیل، نواز آباد ، منڈھ گچھہ، میل بٹ۔، جبڑ دیولی، منڈی ریسٹ ہاؤس تک باآسانی رسائی حاصل کر سکتے ہیں جبکہ پر فضا پہاڑی سیاحتی مقامات کنڈ بنگلہ ، سران ، شہید پانی ، شدل گلی، سونہڑیں داسر، ندی بنگلہ ، کوہ مصلیٰ ، کوہ
پلیچہ، کھوڑی میدان ، ڈھور۔، مالی، آرام گلی، کھنڈھ گلی، بڈھیار کھٹہ، پنچ ندی، کی سیروسیاحت کے لیے آنے والے سیاح پگڈنڈی نما راستوں پر گروپس کی صورت میں رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور سوئزر لینڈ اور یورپ کے دیگر سیاحتی مقامات کی خوبصورتی اور دلکشی پل بھر میں بھلا دیتے ہیں ۔ باوجود اس کے ان ممالک میں سیاحوں کو ہر قسم سہولیات میسر ہوتی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں سیاحت کی وزارت بھی موجود ہے ،سوئزر لینڈ سے کہیں زیادہ دلکش اور خوبصورت سیاحتی مقامات بھی موجود ہیں اور سیاح سہولیات کے عدم فراہمی کے باوجود علاقوں کی سیاحت بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری مرکزی و صوبائی حکومتوں وزارت ، سیاحت اور منتخب سیاسی نمائندوں کی سیروسیاحت کے فروغ کے سلسلہ میں کارکردگی صفر ہے۔ آپ سوئزر لینڈ کے پہاڑی قصبہ انٹر لاکن کی مثال لے لیجئے تمام د نیا میں سوئزرلینڈ کا جو تصور موجود ہے اور ہم دنیا بھر کی فلموں میں سوئزر لینڈ کے جو انتہائی دلکش مناظر دیکھتے ہیں یہ ملک یورپ کے مخلتف ممالک میں گھرا ہو اہے اور اس کے سمندر تک رسائی نہ ہوے کے باوجود اس کے خوبصورت پہاڑی قصبہ انٹر لاکن کا اس دلکشی اور خوبصورت مناظر میں حصہ 80فیصد ہے انٹر لاکن قدرت اور انسان کے ضاعی کا انتہائی خوبصورت اور دلچسپ امتزاج ہے۔ قدرت نے انٹر لاکن کو جھلیں ،آبشاریں م جنگل، اور گلیشئر، دہیے ہیں اور انسان نے ان میں انفراسٹر کچر اور سہولتوں کا جال بچھا کر قدرت کو صنائی کو بیان کیا ہے چنانچہ جو بھی سیاح انٹر لاکن پہنچا ہے اس کے لیے یہ اخیتار مشکل ہو جاتاہے کہ وہ قدرت کی ضاعی کی تعریف کرے یا پھر انسانی کمالات پر تالیاں بجائے۔ سوئس حکومت نے وہاں کے کوہ مصلیٰ تک نہ صرف سڑکیں بچھا دیں بلکہ اسے یورپ کے ریلوے نظام سے بھی منسلک کر دیاہے اور ایک ہم ہیں کہ شنکیاری سے کنڈ بنگلہ سراں، شہید پانی، شدل گلی، ندی بنگلہ ، کوہ مصلیٰ تک انگریزوں کے دور میں بنائی جانی والی جیب روڈ ہم سے سنبھالی نہیں جا سکی اور متروک ہو کر حکومت اور محکمہ سیاحت کے بے حسی پر نوحہ کناں ہے ۔ جبکہ ان پر فضا سیاحتی مقامات پر انگریزوں کے دورمیں بنائے جانے والے خوبصورت ریسٹ ہاؤسز کی عمارات تباہ کن زلزلہ کی نظر ہونے کے چھ سال بعد بھی مرکزی و صوبائی حکومتوں ، محکمہ سیاحت، محکمہ جنگلات ایرا اور منتخب نمائندوں کی توجہ کی منتظر ہیں ، انٹر لاکن میں ہر سال پچاس لاکھ سیاح آتے ہیں جبکہ یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بیرون ممالک کو تو چھوڑیے۔ ہمارے ملک کے سیاحوں کو بھی یہ تک نہیں پتہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویثرن کے ضلع مانسہرہ میں جنت نظر وادی سرن کے پر فضا سیاحتی مقامات سوئزر لینڈ کے خوبصورت پہاڑی قصبہ سے کہیں زیادہ دلفریب اور خوبصورت ہیں لیکن ہمارا محکمہ سیاحت پھر بھی ملک میں سیاحت کے فروغ کا دعویدار ہے۔ بقول ممتاز کالم نگار اور انکیر محترم جاوید چوہدری ہم آج بھی ان لوگوں سے بہت پیچھے ہیں ہمارے بدقسمت ملک میں بجلی کی کوئی ٹرین نہیں چلتی ہزارہ سے تعلق رکھنے والے فیلڈر مارشل ایوب خان کے دور میں ریلوے کے نظام کو بجلی پر منتقل کرنے کا کام شروع ہوا تھا اور اس دور میں لاہور سے خانیوال تک بجلی کی ٹرین چلی بھی لیکن آج اس کا نام و نشان تک نہیں پوری دنیا کا ریلوے سسٹم بجلی پرمنقتل ہو چکا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں اور وزیروں کی اعلیٰ کارکردگی کے باعث انگریزوں کے دور کا یہ ریلوے نظام آفری ہچکیوں پر ہے تو پھر سیاح اسیے ملک میں کہاں سے آئجین میں بیرون ممالک کے سیاحیوں کا ذکر کر رہا ہے میں برادرم جاوید چوہدری کی اس بات کی بھی بھر پور تائید کرتا ہوں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ ہم پاکستانی سوئزر لینڈ جیسے لینڈ ملک سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں بالخصوص ہمارے حکمران اور وزارت سیاحت اس ملک کے پاس کچھ نہیں تھا یہ ملک آسڑیا ، جرمنی، اٹلی اور فرانس کے ان چند پہاڑیوں سے ملکر بنا جسے ان ملکوں نے فالتوں اور فضول سمجھ کر الگ کر دیا تھا سوئزر لینڈ نے ان فضول اور فالتوں پہاڑیوں نے جنم لیا تھا، لیکن پھر اس ملک کے لوگوں نے ان فالتوں اور فضول پہاڑیوں کو سونے کی کا ن بنا دیا آج سوئزر لینڈ ہر سال صرف سیاحت کی مد 30ارب فرانک کماتا ہے لیکن ہمارے ملک کی بد قسمی دیکھیے کہ ہمارے نااہل حکمرانوں کی خود غرضی اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں نے قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال اور سہولیات کی عدم فراہمی سے ہمارے ملک کا سوئزر لینڈ سوات لہو رنگ جبکہ انٹر لاکن سے کہیں دلفریب اور قدرتی حسن سے مالا مال جنت نظیر وادی سرن کے پر فضا سیاحتی مقامات کنڈ بنگلہ ، سراں، شہید پانی، شدل گلی، سونہڑیں داسر، ندی بنگلہ کوہ مصلیٰ ، کوہ پلیچہ، کھنڈہ گلی، آرام گلی، کھوڑی کے میدان ، چراہ گاہ مالی ، ڈور کھٹہ، بڈھیاڑ کھٹہ، سرے سے ہی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل اور حکومتی محکمہ سیاحت کی بے حسی پر ماتم کناں ہیں۔
sherafzal gujjar
About the Author: sherafzal gujjar Read More Articles by sherafzal gujjar: 6 Articles with 10012 views my name is sherafzal gujjar i am a journalist i write articles on diffirennt issues... View More