فرقہ وارانہ فسادات پربریک لگانا ملک کی ضرورت

ڈاکٹر ایم اعجاز علی

ہماراملک مہنگائی،بے روزگاری،بدعنوانی اور اس کے چلتے پیدا شدہ نکسلی تحریک کے بھنور میں بری طرح پھنس گیا ہے۔کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سارے مسائل کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں اور ہو بھی کیسے نہیں،ان مسائل پر حکومتیں طویل عرصہ تک سنجیدہ ہی نہیں رہی تبھی تو مخالفت ہونے کے باوجود بھی دھیرے دھیرے یہ تل سے تاڑ ہوتے چلے گئے۔مہنگائی،غریبی،بدعنوانی جیسے مسائل تو آزادی کے وقت بھی تھے اور انہیں سب وجوہات کی بنیاد پرآزادی کی جنگ لڑی گئی تھی۔آزادی تو ضرور ملی لیکن ہندوستانیوں کو ان مسائل سے چھٹکارا ملنا تو دور کی بات ہے یہ اور جکڑتی چلی گئی اور نتیجتاًآج کنٹرول سے باہر ہے۔جو حالات اس وقت ہیں یہ خود بخود پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ پردے کے پیچھے بیٹھی یہاں کی بنیاد پرست طاقتوں کے ذریعہ ہندوستان کو منوادی نظام کے راستے پر لے جانے کی مہم میں ایسا ہو گیا ہے۔یہ طاقتیں ہندی،ہندواورہندوستان کے فلسفے پر شروع سے کام کر رہی ہیں ۔جس میں کامیابی کے لیے جمہوری نظام میں ہندوتوادی ذہنیت کے لوگوں کا پارلیامینٹ پر قبضہ کراناان کے لئے پہلے ضروری ہے۔اس کام کے لئے فرقہ وارانہ فسادات کو حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ ہندوستانی سماج کے ووٹوں کا مذہب کی بنیاد پر دھیرے دھیرے قطب بندی ہو جائے ۔جب آپ اس چشمے سے غور کریں گے تو آزادی کے بعد سے اب تک کی جمہوری نظام میں ہوئی سیاست کا سارا نقشہ آسانی سے سامنے آجائے گا۔آخر کیا وجہ رہی ہو گی کہ جس مہنگائی،غریبی،بدعنوانی یا سماج کی بدحالی پر عام لوگوں کو بیدار کر کے گاندھی جی نے آزادی کے لئے بِگُل پھونکا تھا ،آزاد بھارت میں ان مدعوں کو قومی ایشوبنانے کے بجائے دبا دیا گیا اور مندر۔ مسجد، ہندو۔ مسلمان،ہندوستان۔پاکستان جیسے مدعوں کو ہی حکمراں جماعت ہمیشہ کاندھوں پر کیوں اٹھاتے رہے اور اس کے آڑ میں فرقہ وارانہ فساد تشدد کو لگاتار ہوا دیتے رہے؟ہمارے ذہن میں یہ بات ہمیشہ گونجتی رہتی ہے کہ اتنے وسیع آئین میں جس میں 800سے بھی زائدقانونی آرٹیکل ہیں،صرف دفعہ 341ہی کیوں وہ آرٹیکل ہے جس پر جبراًمذہبی قید لگا کر مسلمانوں کو شیڈول کاسٹ ریزرویشن سے باہر کیا گیااور ان پر دوبارہ ریزرویشن حاصل کرنے کے لئے تبدیلی مذہب کی شرط لگائی گئی۔دراصل اس مذہبی قیدکے چلتے جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی تعلیمی اقتصادی ،سماجی بدحالی کی شکار ہوئی وہیںSC/STایکٹ یعنی ہریجن ایکٹ کے’’حفاظتی کوچ‘‘سے بھیی باہر ہوگئی۔اس کوچ سے باہر ہونے کا یہی نتیجہ ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں اس سماج کے تحفظ کے لئے براہ راست کوئی قانون نہیں رہا۔جب تک ہریجن ایکٹ نہیں تھا تب تک دلتوں پر ہماری ہی طرح ظلم ہوا کرتا تھا۔مارپیٹ کے ساتھ زمین پر قبضہ ،بیٹی بہو کی عزت وآبرو اجاڑنے کا سلسلہ ان کے ساتھ ہماری ہی طرح ہوا کرتا تھا لیکن آج تو یہ حالت ہے کہ کوئی ان کے ساتھ بد کلامی کر ے یا ان پر انگلی اٹھا کر دیکھ لے ،پھرتو وہ غیر ضمانتی وارنٹ کا مستحق ہو جائے۔اس کے برعکس بعد آزادی مسلم سماج کے ساتھ ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی تو گنتی بھی مشکل ہے۔جب چاہو،جہاں چاہو،اور جیسے چاہو ،محض چھوتی سی بات کو لیکرفسادات تو آسانی سے کروادئے جاتے ہیں اور زیادہ تر جگہوں پر مسلمانوں کو ہی جانی،مالی،خسارہ ہوتا رہا ہے لیکن فرقہ پرست طاقتوں کو ان فسادات کے چلتے جو فائدہ ہوتا ہے وہ لوگوں کو نظر نہیں آتا ہے۔غورکے دیکھئے کہ ان طاقتوں کو اس ریاست اور خاص کر ان اضلاع میں ووٹ کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے جہاں ایک بار دنگا ہو جاتا ہے ۔لہذا 62سالوں سے جاری یہی مہم آج ووٹوں کے فرقہ وارانہ خطوط پر قطب بندی میں بہت کامیاب ہو چکا ہے۔وی پی سنگھ کے دور عہد میں سماجی انصاف کی لہر نے پردے کے پیچھے بیٹھے بنیاد پرست طاقتوں کی اس مہم پر بریک لگا دیا تھا لیکن افسوسناک پہلو تو یہ رہا کہ محض پندرہ بیس سالوں کے چھوٹے سے عرصہ میں ہی یہ لہر دم توڑتی نظر آرہی ہے۔اور بنیاد پرست طاقتیں پھر سے اپنہم میں لگ گئی ہیں جس کا تازہ مثال اترپردیش ہے جہاں مظفر نگرمیں حال میں بڑا فساد ہوا ہے۔نریندرمودی کے چہرے کو پیش کرنا اور اس کے ساتھ چوراسی پریکرما،ایودھیاسنکلپ وغالباًآگے6دسمبرکو نشانہ بناتے ہوئے چلنا یہ سب کیا ہے؟ان سب کے پیچھے صرف ایک ہی مقصدہے کہ کسی طرح پورے ملک کو فساد کے مہم میں جھونک دیا جائے جیسے ایک بار1992میں جھونکا گیا تھا۔سماجی انصاف کے زیر ہوتے لہر اور فرقہ وارانہ فسادات کے تیار ہوتے ماحول کو اگر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو پھر بنیادپرست طاقتوں کا پارلیامینٹ پر قبضہ آسان ہوتا چلا جائے گا۔ویسے تو جب بھی کہیں فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے،پارلیامینٹ میں سالوں سے التوا میں پڑی فساد مخالف بل کو پاس کرنے کی مختلف ملی تنظیمیں مانگ کرنے لگتی ہیں۔لیکن کیا وہ بل کبھی پاس ہو سکتا ہے؟مجھے تو نہیں لگتا ہے کیونکہ پردے کے پیچھے بیٹھی وہ بنیاد پرست طاقتیں جو ہندو راشٹر قائم کرنے کی مہم چلا رہی ہیں وہ کبھی اسے پاس نہیں کرنے دیں گی۔ظاہراًحکومت کسی کی ہو۔کیونکہ ایسا ہونے پر تو ان کی اپنی مہم پر ہی بریک لگ جائے گا۔لہذا ہمیں حکمت عملی کے تحت دوسرے راستے پر بریک لگانے کی ترکیب ڈھونڈھنی چاہئے۔فی الوقت اس مہم پر بریک لگانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ دفعہ341پر سے کسی طرح مذہبی قید کو ختم کرایا جائے۔ایساہوتے ہی مسلمان بھی ہریجن ایکٹ کے تحت خود بخود آجائیں گے۔جو ایک آزمودہ ایکٹ ہے۔اس ایکٹ کا’’حفاظتی کوچ‘‘کا ملنا ہی ،دلتوں کی طرح،مسلمانوں کے خلاف آسانی سے انجام دئے جانے والے فرقہ وارانہ فسادات پر بھی آخر کار مضبوط بریک لگائے گا،اس بریک کے لگنے کا مطلب ہے ہندو راشٹر قائم کرنے کی مہم پر بریک لگنا ہے۔جو پچھڑے دلت واقلیت تینوں سماج کے مفاد میں سب سے اہم ثابت تو ہوگاہی،ساتھ میں ملک کے لئے بھی سودمندہے۔کیونکہ جب فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی مہم دم توڑ دے گی پھر یہاں سے کمونل سیاست ختم ہو جائے گی۔سیاسی پنڈتوں کے سامنے تب ووٹ لینے کے لئے سوائے بنیادی مسائل کے اور کچھ نہیں بچے گا۔ورنہ ابھی تک تو ان کے لئے ’’رائٹ کراؤ اور ووٹ لو‘‘کا ہی فارمولہ سب سے اہم وآسان رہا ہے۔
Azam nayyar
About the Author: Azam nayyar Read More Articles by Azam nayyar: 12 Articles with 7567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.