وہ مسئلہ جس کی وجہ سے
دوہمسایوں کے درمیان تین جنگیں ہوئیں، متعدد مرتبہ وہ جنگ کے دہانے پر
پہنچے اور جسے لے کر دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کو بھوکا ننگا چھوڑ کے
اسلحے کے انبار لگانے کے علاوہ ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے
سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مسئلے نے ان دوممالک تو کیا، پورے
خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔اس مسئلے کا ایک اور فریق بھی ہے جس
نے تونہتا ہونے کے باوجود ہزاروں لاکھوں جانیں دی ہیں اور وہ اب بھی اپنا
تن من دھن اس کے لئے نچھاور کررہے ہیں۔ اس کو عالمی برادری دنیا کا خطرناک
ترین ایشو قراردے چکی ہے اور اقوام متحدہ نے بھی اسے متنازعہ تسلیم کرتے
ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر یہ حل نہ ہوا تو دنیا میں ایٹمی رسہ کشی شروع
ہوسکتی ہے جس سے بہت بڑے پیمانی پرتباہی کا اندیشہ ہے۔ یہ مسئلہ جموں و
کشمیر پر بھارتی تسلط اور قبضے کا ہے۔ بھارت کے اس ناجائز قبضے کو پاکستان
تسلیم کرتا ہے نہ کشمیری عوام۔ مگر بھارت کی جانب سے زمینی حقائق کو
نظرانداز کرنے کی روش جاری ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار
شنڈے نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دیا ۔اس سے قبل بھارت
کے وزیر خارجہ سلمان خورشید کا بھی ایک بیان اس ایشو کے حوالے سے نظروں سے
گزرا جس سے یقینا دنیا بھر میں یہ تاثر لیا گیا کہ وہ ہندوستان کے نہیں
بلکہ احمقوں کی جنت کے وزیر خارجہ ہیں۔ انہوں نے جون میں سرینگر میں آل
انڈیا کانگریس کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر بھارت کا
اندرونی معاملہ ہے، کسی کو اس میں دخل اندازی کی اجازت نہیں۔ان کا مزید
کہنا تھا کہ بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ جامع اور بامقصد مذاکرات
شروع کئے جائیں تاہم مذاکرات کے لئے کھوئی ہوئی اعتماد سازی کے لئے اقدامات
کرنا انتہائی ضروری ہیں۔
بھارتی وزراء کو مسئلہ کشمیر کی تاریخ کو پھر سے بغور مطالعہ کرنا چاہئے کہ
کس طرح بدنیتی سے تقسیم فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقے
کو بھارت کے ساتھ نتھی کردیا گیا۔ چلیں سیشل کمار شینڈے تو چانکیہ کے
پیروکار ہونے کے ناطے بغل میں چھری منہ میں رام رام کی فطرت رکھتے ہیں مگر
خورشید شاہ تو مسلمان ہیں۔ مگر بدقسمتی سے جو بھی مسلمان بھارت کی سرکاری
وردی پہنتا ہے، اس پر بھی چانکیہ اور بنیا کا پانی چڑھ جاتا ہے۔ اس کا ذہن
بھی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے مکاری اور فریب سے اٹ جاتا ہے۔ سلمان خورشید
کا بھی یہی حال ہے۔ بہرحال ان کی طرف سے حقائق سے نظریں چرائے جانے سے
حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ جس طرح آنکھیں بند کرلینے سے گردن کی طرف لپکتے
ہاتھوں کو روکا نہیں جاسکتا، اسی طرح بھارتی حکومت کے مکارانہ موقف سے یہ
حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی ہے کہ جموں و کشمیر کے مسئلے سے پاکستان اور
کشمیریوں کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کشمیریوں
اور بھارت کایا پھر بھارت اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئی الجھی گتھی
نہیں ہے۔ صاف اور واضح ہے کہ بھارت، پاکستان اور کشمیری اس کے فریقین
ہیں۔تینوں کو مختلف اور کلیدی حیثیت ہے۔
بھارت نے متعدد مرتبہ کوشش کی کہ اس مسئلے کو پاک بھارت مسئلہ قراردے کر
کشمیریوں کو الگ کرکے ان کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بوئے
جائیں مگر پاکستان کبھی بھی اس کے جال میں نہیں آیا اور اس نے ہمیشہ یہ
تسلیم کیا ہے کہ کشمیرکے مسئلے کے حل میں کشمیری عوام بھی کلیدی فریق ہیں
اور ان کی شرکت اور حمایت کے بغیر کسی قسم کے مذاکرات کی کوئی اہمیت
نہیں۔حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے جو انہیں ملنا چاہئے۔دوسری طرف بھارت
کو اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ سات لاکھ بھارتی مسلح
افواج جسے ائر فورس کے لڑاکا طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے اور جنہیں بے رحمی
اور ظلم و جبر ڈھانے کا کھلا لائسنس ملا ہوا ہے، کئی دہائیوں سے کشمیریوں
کی جدوجہد آزادی کو نہیں دبا سکے اور نہ دباسکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارتی
وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کشمیر کا دورہ کیا تو کشمیریوں کی طرف سے زبردست
مظاہرہ کیا گیا۔ ان کے دورے سے ایک دن قبل بھارتی افواج کی طرف سے سیکورٹی
انتظامات کی پاداش میں کشمیریوں سے نارواسلوک روا رکھنے کی انتہاکردی گئی۔
جس پر کشمیریوں کی طرف سے بھی فوری جواب دیا گیا۔ اسی روز بھارتی فوج کو
اپنے آٹھ فوجیوں کی لاشیں اٹھانا پڑیں۔ مجاہدین کی فائرنگ کے سامنے بھارتی
فوج بے بس نظر آئی اورمسلح ہونے کے باوجود انہوں نے وہاں سے بھاگنے میں ہی
عافیت جانی۔بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید اور وزیر داخلہ شینڈے کو یہ
معلوم ہونا چاہئے کہ پاک بھارت کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور
پاکستان چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا
پرامن حل ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان کارگل سمیت تین جنگیں بھی اسی مسئلے پر
لڑی گئیں۔ بھارت پاکستان تعلقات بھی اسی مسئلے کو لے کر پٹری سے اترتے رہے۔
بھارت نے پاکستان کے اندر جو اپنی خفیہ سرگرمیوں کا آغاز کررکھا ہے اور
بلوچستان، کراچی ، فاٹا اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے متعدد دہشت گردی
کے واقعات کے ڈانڈے اس سے جاملتے ہیں۔ ان کا بڑا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ
پاکستان کو کشمیر کے مسئلے سے دستبردار ہونے کے لئے دباؤ ڈال سکے۔ علاوہ
ازیں بھارتی فوج کی جانب سے ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل
فائرنگ بھی جاری ہے جس کا مقصد پاکستان پر دراندازی کے الزامات کے علاوہ
مشرقی سرحدوں پر دباؤ بڑھانا ہے۔ بہرحال سلمان خورشیداور شینڈے حقائق سے
نظریں چرانے کی بجائے ہوش کے ناخن لیں اور بھارتی حکومت کویہ صائب مشورہ
دیں کہ وہ جتنی جلد ممکن ہو کشمیرپرسے جبرواستبداد کے پنجے ہٹا لے بصورت
دیگر یہ مسئلہ وہاں کی حکومت اور فوج کے اعصاب پر سوار رہنے کے علاوہ اس کی
معیشت، ترقی میں چھید کرتا رہے گا اور اس کے گلے کا کانٹا بن کر اسے مسلسل
اذیت میں مبتلا کئے رکھے گا۔ |