پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی شخص یا پارٹی اقتدار میں
آئے تو ان کو مختلف ممالک کے دورے کرنا پڑتے ہیں لیکن جب بھی کوئی پاکستانی
حکمران امریکہ کا دورکرتے ہیں تو وہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
امریکی دورے سے قبل عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور بہت سی امیدیں
دلائی جاتی ہیں مگر تاریخ گواہ ہے امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کو فائدہ
نہیں پہنچایا۔ امریکہ ہمیشہ پاکستان کے مخالف ممالک کا ساتھ دیتا رہا
ہے۔پاکستان میں اس وقت جو دہشت گردی کی آگ بھڑک رہی ہے وہ بھی امریکہ اور
اسلام مخالف قوتوں کا کیا دھرا ہے۔
تیسری بار وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف بدھ کے روز امریکہ کے دورے پر
روانہ ہوئے۔ پاکستانی میڈیا نے حسب روایت و حسب عادت اس دورے کو بڑی اہمیت
دی۔ الیکٹرانک میڈیا اس دورے کو اہمیت کیوں نہ دیتا ایک تو وزیراعظم
پاکستان کادورہ اور دورہ بھی اس ملک کا جو دنیا کاڈان بنا ہوا ہے ۔
الیکٹرانک میڈیا نے اس دورے پر خصوصی ٹاک شو کرکے عوام کے ذہنوں میں اور
زیادہ ہل چل مچادی۔ میڈیا نے عوام کے سامنے اس دورے کی منظر کشی کچھ اس
انداز میں کی جیسے میاں صاحب امریکہ کو کوئی حکم آخر سنانے جارہے ہیں لیکن
میاں صاحب نے اپنے سابقون الاولون کی سنت کو پورا کیا اور انہوں نے بھی وہی
کچھ کیا جو ان سے پہلے ادوار میں ہمارے ملک کے حکمران کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنی روانگی سے قبل اور پھر امریکہ میں بھی مختلف
وفود اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں باور کرایا کہ وہ
ڈرون حملوں کا معاملہ امریکی صدر اوبامہ کے آگے اٹھائیں گے۔ مسئلہ کشمیر پر
بھی پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ کریں گے اور کہا کہ وہ صدر اوبامہ پر
مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے زور ڈالیں گے ۔ اس کے
ساتھ ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بھی دوٹوک موقف اپنانے کا
وعدہ کیا ۔ اسی تناظر میں قوم کو یہی توقع تھی کہ میاں نوازشریف اور اوبامہ
کی ملاقات میں میاں صاحب ان ایشوز پر ملکی مفادات اور قومی توقعات و امنگوں
کے مطابق بھرپور اور دوٹوک انداز میں با ت چیت کریں گے ۔نوازشریف کی دورہ
امریکہ میں پہلی ملاقات جان کیری سے ہوئی اوراس ملاقات کے حوالے سے
پاکستانی سفارت خانہ کا انداز اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ اس ملاقات کے
دوران ڈرون حملے روکنے کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ بعض ذرائع کے مطابق وزیراعظم
پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ سے ڈرون حملے روکنے کیلئے کہا مگر جان کیری
کی جانب سے اس کاکوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا اور انہوں نے صرف اتنا کہا
کہ اس کا دارومدار حالات کی بہتری پر ہے۔جان کیری نے کشمیر ایشو پربھی یہ
کہہ دیا کہ یہ مسئلہ دونوں ممالک کو باہمی مذاکرات کے ذریعے خود ہی حل کرنا
چاہیے۔
امریکہ کے متعلق پاکستانی عوام کے خیالات پہلے ہی اچھے نہیں ہیں۔ عوام کو
تو پہلے ہی توقع تھی کہ یہ دورہ پاکستانی عوام کے حق بہتر نہیں ہے ۔آخر کار
وہ بھی دن آگیا جب دونوں ممالک کے سربراہ آمنے سامنے تھے۔ پاکستانی عوام
سوچ رہی تھی کہ جیسے ایٹمی دھماکہ کرتے ہوئے میاں صاحب نے اٹل فیصلہ کیا
اسی طرح آج بھی وہ ڈرون حملوں اور بالخصوص ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کو فائنل
کرکے اٹھیں گے ۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب نے جس طرح اپنی الیکشن
مہم کے دوران ہر جلسے میں عافیہ کی رہائی اور ڈرون حملوں کی بندش پر زور
دیا تھا شاید آج وہ اوبامہ سے ڈرون حملے بندکرنے کا اعلان کرائیں گے اور
اگر اوبامہ نہ مانا تو پھراس پر واضح کر یں گے کہ اگر اب ڈرون حملہ ہوا
توہماری پاک فوج ڈرون گرائے گی ۔ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں عوام سوچ رہی تھی
کہ جس طرح امریکہ ریمنڈ ڈیوس کوپاکستان سے لیکر گیا اسی طرح میاں صاحب
ڈاکٹر عافیہ کو بھی اپنے ساتھ لیکر آئیں گے مگر افسوس امریکی صدر نے ہماری
ایک نہ سنی اور الٹاپاکستان کے قومی مجرم ڈاکٹر شکیل کی رہائی پر زور دیا۔
ڈرون حملے روکنے سے انکا ر کردیااور لشکر طیبہ پر پابندی لگانے کا موقف
واضح کردیا۔بات یہی نہیں ختم ہوئی بلکہ حکم صادر فرمادیا کہ بھارت کے ساتھ
تعلقات کو بہتر کرو۔جبکہ بھارت ہر روز سرحد کی خلاف ورزی کرکے ہمارے لوگوں
ناحق خون کررہا ہے۔
یہ تواﷲ بہترجانتا ہے کہ ہمارا ہر حکمران امریکہ کو اتنی اہمیت کیوں دیتا
ہے ؟ امریکہ نے 1948سے آج تک 68ارب ڈالر کی امداد مختلف مدات میں پاکستان
کو دی ہیں جبکہ اس سے زیادہ تو چین نے ہر گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا۔مالی
اورصنعتی میدان میں پاکستان کی خوب مدد کی۔ کیا امریکہ امداد نہیں دے گا تو
پاکستان بھوکا مرجائے گا؟ ایران کی مثال ساری دنیا کے سامنے ہے وہ آج تک
امریکہ کے سامنے نہ بکا اور نہ ہی جھکا ہے بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
بات کرتا ہے۔میڈیا کے مطابق ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کو اپنا ناخدا سمجھا
ہوا ہے ۔امریکہ کی امداد تودورکی بات مگرجوامریکہ نے پاکستان میں دہشت گردی
کی آگ بھڑکا رکھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو2000 سے آج تک 100ارب سے زائد
کا جھٹکا لگ چکا ہے۔ امریکہ کی لگائی ہوئی آگ میں آج پورا پاکستان جل رہا
ہے۔معاشی طور پر پاکستان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
دوسری طرف امریکہ پاکستان کی نسبت بھارت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ جس وقت
میاں نواز شریف کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی اسی دن سے ہمارے دشمن
بھارت نے امریکہ سے خفگی اور ناراضگی کا اظہار کیا ۔ ہو سکتا ہے بھارتی
لابی کے دبا ؤمیں آکرامریکہ نے یہ پالیسی اختیار کی ہو۔ بھارتی وزیراعظم
منموہن سنگھ نے امریکہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے ماسکو کا دورہ کیا اور روس کے
صدر پیوٹن سے ملاقات کرکے امریکی صدر مسٹر اوبامہ پر پریشر ڈال دیا۔جس کی
وجہ سے اوبامہ بھارتی پریشر میں آگئے اورانہوں نے پاکستان کے کسی موقف کی
کھل کر حمایت کی اور نہ ہی مخالفت کی۔اگر اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے
جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے مفادات کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کا
دورہ امریکہ اتنا کامیاب نہیں رہااور قومی خزانے سے اٹھنے والے بھاری
اخراجات بھی ضائع ہوگئے۔
وزیراعظم نوازشریف کو خود ہی اس بات کا احساس ہوگا کہ وہ اپنے اس دورہ
امریکہ سے ملک اور قوم کیلئے کیا لے کر آئے اور کیا گنوا کر آئے ہیں؟
اپوزیشن والے توپہلے ہی واویلا کر رہے ہیں کہ وزیراعظم نے اپنے دورہ امریکہ
کے حوالے سے اسے اعتماد میں نہیں لیا۔ابھی وزیراعظم نواز شریف کی صدر
اوباما سے ملاقات کوزیادہ وقت نہیں گزرا کہ ساتھ ہی امریکہ نے ڈرون حملے
روکنے سے صاف انکارکر دیا ہے ۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں
پر امریکہ کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی اور وزیر اعظم نواز شریف سے تمام
معاملات پر کھل کر بات ہوئی ہے۔
اب یہ تو میاں صاحب ہی اچھے انداز میں بتا سکتے ہیں کہ ان کایہ دورہ کتنے
فیصد کامیاب رہا؟اور وہ کونسے ایشوز پرپاکستانی عوام کی ترجمانی کرکے آئے
ہیں؟اس دورے کے دور رس نتائج برآمد ہونگے یا نہیں ؟بحرحال امریکہ سے نہیں
ہمیں تو میاں صاحب سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں وہ اپنے
ملک کے مفاد میں کریں۔امریکی حکمرانوں کے نہیں بلکہ اپنی عوام کے خواہشات
کے مطابق فیصلے کریں۔ |