نہ تو میں قصیدہ لکھ سکتا ہوں ...نہ جھوٹ بول سکتا ہوں
...نہ میرا ضمیر اجازت دیتا ہے کہ کالے کوے کو سفید لکھ سکوں ...نہ مجھے
نواز شریف سے دشمنی ہے ....نواز شریف کا کچھ نہں بگڑا .....اگر نقصان ہوا
ہے تو قوم کا ....اگر بےعزتی کی گئی ہے تو پاکستانی قوم کی ...اگر مذاق کیا
گیا ہے تو پاکستانی قوم کے ساتھ کیا گیا ہے ....اگر اس دورے کی ناکامی کی
وجوہات پر غور کیا جاۓ ..تو یا تو بیوروکریسی شامل ہے یا وہ لوگ جنہوں نے
یہ دورہ آرگنائیز کیا تھا ...انہوں نے ملکر نواز شریف اور پاکستان کی مٹی
پلید کی ہے ....اگر کامیابی ہوئی ہے تو صرف اتنی کہ جی حضوری اور چاپلوسی
اگر اسی طرح جاری رہی تو نواز شریف کی نوکری پکی اور عوام کے لئے چکی
......امریکا کامیاب ہو گیا تھا جب میرے حکمران کے منہ سے یہ الفاظ پردیس
میں نکلے ..کہ ہم کو اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا اور اگر مذاکرات کامیاب نہ
ہو سکے تو کاروائی کرنا ہو گی ...یہی تو امریکا چاہتا ہے کہ ہم وزیرستان
میں کاروائی کریں اور دنیا مزید ہماری بربادی کا تماشا دیکھے ..اور ہو سکتا
ہے کہ ١٩٧١ والے حالات پیدا کر دئے جایں ...کیونکہ کشمیر ..عافیہ صدیقی اور
ڈرون کے معاملہ پر امریکا نے ہمارے منہ پر پھر انڈیا کی طرح تماچہ رسید کر
دیا ہے ...اور ہم صرف ہاتھ سینے پر رکھ کر باادب ہونے کا مظاھرہ کر کے واپس
آ گہے ....نواز شریف کی توہین کی مرتکب بیوروکریسی نے اس طرح کی ہے ..جیسے
کوئی پرانا بدلہ لیا گیا ہے ....یا میں نواز شریف کی ناہلی کہوں ..کہ اس کو
جلدی میں امریکا کا دورہ نہیں کرنا چاہئے تھا ..ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد
یہ دورہ کرتے تو اچھا ہوتا ..اور کچھ نہ کرتے مگر یہ ڈکٹیشن نہ لیتے کہ
مذاکرات کامیاب نہ ہووے تو ہم چڑھائی کر دیں گے ..کیونکہ یہی تو ہمارا دشمن
چاہتا ہے ... دورے سے پہلے عافیہ صدیقی کا معاملہ طے کر لیا جاتا ..تو اچھا
ہوتا ..کم از کم عزت تو رہ جاتی .......اب نہ صنم نہ وصال صنم والی بات نہ
ہوتی ............کیا کہوں کشکول والے حکمرانوں اور نا اہل بزدل حکمرانوں
کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہئے .......کاش قصیدہ لکھنے
والوں کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی ....اور وہ ضمیر کی آواز سے حکمران
کو بتا سکتے کہ اپنے قبلے اور مقصد اور نیت کو ٹھیک کرو اور اپنی ترجیحات
کو قوم کے سامنے رکھو ...اور قوم کے ساتھ ظالمانہ سلوک مت کرو ...کشکول کو
توڑ دو ..نظام کو بدل دو ..تاکہ مشورے دینے والے خود بخود بدل جایں ....تاکہ
گھر کی بات گھر میں کہ دو ..یہ بات امریکا میں کہنے والی نہ تھی ...ڈکٹیشن
کے بعد .......باقی آخر میں ایک عرض اگر جان کی آمان پاؤں ......تو یہ ہے
کہ گھر خود بخود ٹھیک ہو جاۓ گا اگر میرا حکمران ٹھیک ہو جاۓ تو
.............کاش ...کاش ....کاش کہ تیرے دل میں اتر جاۓ میری یہ بات
..............تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تیرا نہ من ............ |