ستمبر کا مہینہ شروع ہوا تو ایبٹ آباد کے رہائشی ایک قصاب
محمد یوسف کو اچانک بخار ہوگیا۔ اُس کا 21سالہ بیٹا شہزاد پہلے ہی سے بیمار
تھا۔ اگلے چند دنوں میں اُس کا 25سالہ بیٹا شیراز بھی بیمار ہوگیا اور ساتھ
ہی تیسرا 28سالہ بیٹا عارف بھی۔ یکے بعد دیگر وہ اور اُس کے تین جوان بیٹے
بیمار ہوگئے۔ بخار تھا کہ اترنے کا نام نہ لے رہا تھا، سب کی حالت دن بدن
خراب ہوتی گئی۔ کچھ کو ناک کے راستے اور قے کے ساتھ خون آنے لگا۔ چنانچہ
چاروں کو سی ایم ایچ ایبٹ آباد منتقل کردیا گیا۔ وہاں اُن کی حالت مزید بگڑ
گئی تو ان کو پہلے ملٹری ہسپتال راوالپنڈی اور پھر 11ستمبر کو پمز ہسپتال
اسلام آباد شفٹ کردیا۔ چاروں کانگو بخار میں مبتلا تھے۔ 11اور 12ستمبر کی
شب شہزاد کانگو بخار سے فوت ہوگیا۔ اس کو آبائی شہر میں دفن کیا گیا۔
لواحقین کفن دفن سے فارغ ہوئے تو 13ستمبر کو 60سالہ محمد یوسف زندگی کی
بازی ہار گیا۔ اُس کی تدفین بھی اُسی شہر میں کی گئی۔ 14ستمبر کا سورج طلوع
ہوا تو شیراز کی زندگی کاچراغ گل ہوگیا۔ اُسے بھی والد اور بھائی کے پہلو
میں سپرد خاک کیا گیا۔ 15ستمبر کو عارف بھی ملک عدم کو روانہ ہوا اور اُسی
قبرستان میں دفن ہوا۔ ماہ ستمبر ستم گر ثابت ہواایسے کہ چار دنوں میں چار
اموات، چار صدمات اور چار دفعہ تدفین کا تکلیف دہ عمل۔ اہل خانہ، رشتہ دار،
دوست غم و الم میں ڈوبے اپنے پیاروں کو ایک ایک کرکے دفن کرتے رہے۔ ایک کو
دفنا کے لوٹتے تو دوسرے کی میت تیار ہوتی۔ جہاں جہاں اس سانحہ کی خبر پہنچی
ہر آنکھ اشکبار ہوئی، ہر دل نے غوطے کھائے۔ کانگو بخار کی اس یلغار نے نہ
صرف شہر بلکہ پورے ملک کو سوگوار کردیا۔ کانگو بخار کی تلوار نے خیبر سے
کراچی ہر پاکستانی کو زخمی کردیا۔ آج ہر زخم لب کشائی کر رہا ہے کہ آنکھیں
کھولو، ہوش کے ناخن ہو، وگرنہ یوسف جیسے کتنے اور خاندان اجڑ جائیں گے۔
سیاست ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے مگر کچھ توجہ کانگو بخار کی طرف بھی دینی
چاہیئے۔ اس سے نپٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے کانگو بخار کے متعلق مکمل
جانکاری حاصل کریں۔
کانگو بخار ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جسے چمچچڑ (Tick)پالتو جانوروں سے
انسانوں تک منتقل کرتے ہیں۔ یہ بیماری جانوروں کی نسبت انسانوں میں زیادہ
پائی جاتی ہے۔ اس بیماری کی شرح اموات 30فیصد ہے۔ چمچچڑ وائرس کو بیمار
جانوروں کے خون سے لیتے ہیں اور انسانوں کو کاٹ کر اُن کے اجسام میں منتقل
کر دیتے ہیں۔ جس سے اوسطاً 6دن کے بعد بیماری کے اثرات نمودار ہونا شروع
کردیتے ہیں۔ اگر یہ بیماری متاثرہ جانور یا بیمار انسان کے الودہ خون سے
متنقل ہو تو ااوسطاً 9دن کے بعد بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی
ہیں۔
اس کی علامات میں زکام کی کیفیت، پٹھوں کا درد، چکر، گردن میں اکڑن اور
درد، کمر میں درد، سر درد، آنکھوں کی جلن اور روشنی کی چبھن شامل ہیں۔ کچھ
کیسز میں متلی، قے، اسہال، پیٹ کا درد، گلے کی سوزش اور ذہنی انتشار کی
کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگلے 4دنوں کے بعد نیند کی یلغار، ڈپریشن، تھکاوٹ
اور جگر بڑھنے کی وجہ سے پیٹ کے بلائی داہنے حصہ میں درد محسوس ہوتا ہے۔ دل
کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور جلد پر سرخ دانے یا دھبے بننا شروع ہوجاتے ہیں۔
اُس کے بعد ناک اور پیشاب کے راستے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے، گردے خراب
ہوجاتے ہیں، جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور نظام تنفس بیٹھ جاتا ہے، مریض
کو بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں۔ 15دنوں میں 30فیصد مریض اس حالت میں پہنچ کر
دم توڑ دیتے ہیں۔ 70فیصد افراد میں بحالی صحت کا عمل دسویں روز شروع ہوجاتا
ہے۔
کانگو بخار بنیاوریڈی (Bunyaviridae)خاندان کے وائرس سے ہوتا ہے جس کی سات
اقسام (genotype)ہیں۔ افریقہ اول، افریقہ دوئم، افریقہ سوئم، یورپ اول،
یورپ دوئم، ایشیا اول اور ایشیا دوئم۔ پاکستان میں ایشیا اول اور ایشیا
دوئم پایا جاتا ہے۔ یہ وائرس دنیا میں 3500سال سے موجود ہے اور چمچچڑ کی
31مختلف اقسام میں پایا جاتا ہے اور بھیڑ، بکری، گائے، بھینس ، اونٹ اور
خرگوش وغیرہ میں بیماری پیدا کرتا ہے۔ پرندوں میں یہ وائرس نہیں پایا جاتا
ماسوائے شتر مرغ کے۔
چمچچڑ کی 31اقسام کانگو وائرس پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ جن میں ہایا لوما
(hyalamma)سر فہرست ہے۔ چمچچڑ ایک آٹھ ٹانگوں والا بیضوی کیڑا ہے۔ جو مختلف
رنگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کا عام سائز 1-2ملی میٹر ہے۔ یہ افریقہ، ایشیا
اور یورپ کے ممالک میں پایا جاتا ہے۔ گرم موسم میں یہ زیادہ مستعد اور
خطرناک ہوتا ہے جس جگہ درختوں، جھاڑیوں، گھاس اور گرے ہوئے پتوں کے ڈھیر
ہوں وہاں ان کی کثیر تعداد ہوتی ہے۔ جب خون کی ضرورت ہو تو پالتو جانوروں
اور انسانوں کو کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ اکثر جانوروں کی جلد پر چمٹ جاتے ہیں۔
اسی لئے کانگو بیماری جانوروں کے قریب رہنے والے قصائیوں، گڈریوں، کسانوں،
فارم ہاؤس کے ملازموں، اور ویٹنری ڈاکٹروں کو زیادہ لاحق ہوتی ہے۔
کانگو کا پہلا مریض 12صدی میں تاجکستان میں سامنے آیا۔ جبکہ 1944ء میں روس
نے سب سے پہلے اس بیماری کی شناخت کر کے اس کا نام کریمین ہیمرج بخار
(Crimean Haemarrhagic Fever)رکھا اور یہ بھی معلوم کر لیا کہ یہ بیماری
وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جسے چمچچڑ جانوروں سے انسانوں تک منتقل کرتے ہیں۔
پاکستان میں کانگو بخار پہلی دفعہ 1976میں ظاہر ہوا۔ جب ڈاکٹر متین بے نظیر
بھٹو ہسپتال اسلام آباد میں ایک کانگو کے مریض کا علاج کرتے کرتے خود اس کا
شکار بن گئے۔ پاکستان میں اس نے وبائی شکل 2000سے 2003میں اختیار کی جب
191افراد اس کا شکار ہوئے۔ جن میں 59کی اموات ہوئیں۔ 2003 سے 2006تک
328مریض سامنے آئے جن میں سے 42لقمہ اجل بنے۔ 2010ء میں29افراد متاثر ہوئے
اور 3کے لئے یہ بیماری جان لیوا ثابہت ہوئی۔ 2012ء میں 61کیسز سامنے آئے جن
میں 17افرادموت کی آغوش میں چلے گئے۔ جون 2013تک 16افراد کو کانگو بخار ہوا
جن میں سے 6افراد کی وفات ہوئی۔ اس طرح اس سال جون تک پاکستان میں اس کی
شرح اموات 37.5فیصد ہے۔ جو گزشتہ سالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے ہمیں اس
کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
1970کی دہائی میں کانگو بخار کی کئی ویکسین منظر عام پر آئیں مگر ان کے
ضمنی مضر اثرات اور زہریلے پن کی وجہ سے ان کا استعمال ترک کر دیا گیا۔
2011ء میں ترکی کی ایر سائیز (Erciyes) یونیورسٹی نے پہلی غیر زہریلی
ویکسین بنائی۔ جو آجکل لیبارٹری ٹرائل میں سے گزر رہی ہے۔ ابتدائی نتائج کے
مطابق اس ویکسین سے 90فیصد مریض شفایاب ہوئے۔ ایک اور دوائی رباویرن
(Ribavirin)عام طوپر وائرس مارنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ امریکہ اپنے
فوجیوں کو رباویرین کا سٹاک دے کرعراق اور افغانستان بھیجتا ہے۔ مگر اس
دوائی کے نتائج غیر تسلی بخش ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ صحت کے مطابق کانگو
بخار کے لئے کوئی بھی مؤثر ویکسین موجود نہ ہے۔
عید الضحیٰ کے موقع پر عام آدمیوں کا بھی جانوروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ گلی
محلے میں قربانی کے جانور بکتے ہیں۔ اور شہری جانوروں کو خرید کر اپنے
گھروں میں لے جاتے ہیں۔ اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ محکمہ صحت نے پیشگی
وارننگ جاری کر رکھی ہے۔ اور اپنے عملہ کو مناسب احتیاطی تدابیر اپنانے کی
ہدایت کی ہے۔ مویشی منڈیوں، مذبح خانوں اور دیگر مقامات جہاں جانوروں کی
خرید و فروخت ہوتی ہے، چمچچڑ مار سپرے کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔
کیونکہ اس بیماری کے لئے مناسب علاج موجود نہیں ہے۔ اس لئے اس سے بچنے کے
لئے احتیاط ہی واحد ذریعہ ہے۔ جانوروں سے چمچچڑ علیحدہ کرکے منڈیوں میں
لایا جائے۔ جانوروں کو قرنطیہ میں رکھنے کے بعد مذبح خانوں میں لایا جائے،
لمبی آستین والی قمیص اور مکمل پاجامہ پہنا جائے، چمچچڑکی شناخت کا پتہ ہو،
ہلکے رنگ کے کپڑے پہنے جائیں تاکہ اگر چمچچڑ بیٹھے تو اسے دیکھنے میں آسانی
ہو، اگر کپڑوں یا جسم پر چمچچڑ نظر آئے تو اُسے موچنے سے علیحدہ کیا جائے،
ہاتوں پر دستانے اور پاؤں میں جرابیں پہنی جائیں، مریض کو ہاتھ لگانے کے
بعد صابن سے ہاتھ دھولئے جائیں، چمچچڑ دور کرنے کا لوشن جسم کے ننگے حصوں
پر لگایا جائے، متاثر مریض یا جانور کو علیحدہ رکھا جائے۔ غرض ہر وہ عمل
کیا جائے جس سے چمچچڑ آپ سے دور رہیں۔ ان ہدایات پر عمل کرنے سے کانگو بخار
سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں پینی کی احتیاط، پاؤنڈ کے علاج سے
بہتر ہے۔ |