مہنگائی کی ماری عوام کو آنے
والی اس نئی حکومت سے بہت سی توقعات تھیں کہ آتے ہی شاید عوام کو کچھ ریلف
دے سکے مگر یہ تو پہلے والوں سے بھی آگے نکل رہے ہیں جس کی وجہ عوام کا روز
مرہ کا بجٹ اس بری طرح تتربتر ہوا ہے کہ انھیں اپنے جینے رہنے کے لئے درکار
ضروری اشیاء کی قلت کا ناصرف سامنا ہے بلکہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے
لئے وہ اپنا تمام وقت بھی صرف کر رہے ہیں مگر مہنگائی ہے کہ ان کو سیدھا
ہونے ہی نہیں دے رہی عوامی حکومت نے اپنے اخراجات کو کم کرنے کے بجائے اسے
عوام سے ہی وسول کرنے کی پالیسی بناتے ہوئے نام نہاد دی جانے والی سبسڈی
جسے یہی حکومت پچھے دور میں بہت کم سمجھتی تھی اب بلکل ختم کرنے کے چکر میں
ہے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات پر لگائے جانے والے ٹیکس کو سابقہ دور حکومت
میں یہ لوگ جگا ٹیکس اور غنڈا ٹیکس کے نام سے پکارتے تھے اور غنڈا ٹیکس
نامنظور نے نعرے نیشنل اسمبلی میں سننے کو ملتے تھے اب وہی غنڈا اور جگا
ٹیکس خود وصول کر رہی ہے اور بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس دیں گے
تو نظام حکومت چلے گا بجلی اور پیٹرل پر ٹیکس لگا کر اس کو عوام کی پہنچ سے
دور کر دیا گیا اور اس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا گیا بجلی اور
پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو عوام نے مسترد کر دیا ہے کیونکہ کہ اس سے
مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گادوسری طرف اس مہنگی بجلی اور پیٹرول کو جواز
بنا کر ہمارے تاجر بھی میدان میں آ گے ہیں جنھوں نے گردن عوام کی ہی کاٹنی
ہے اس مہنگائی سے وہ خوب مزے اڑا رہے ہیں اور اضافے کو جواز بنا کر ضرورت
صر ف کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر کے اپنا منافع ڈبل کر رہے ہیں
اگرحکومت چاہیے تو ان ضروریات زندگی کی قیمت میں اضافہ کو جواز بنا کر
ناجائز منافع خوری کو روک لیا جائے تو مہنگائی میں اضافہ کی شرح پر کافی حد
تک قابو پایا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کیوں چاہیے گی ؟سب جانتے
ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں کاروباری اور تاجر طبقہ میں موجود ایسے افراد
خاصی تعداد میں ہیں جو ناجائز منافع خوری کرنے کے عادی ہیں اور ایسے اسباب
کی تلاش میں رہتے ہیں جن کو جواز بنا کر قیمتیں بڑھا دیتے ہیں جن کی اشیاء
کی قیمت میں کئی گنااضافہ ہو جاتا ہے ہمارے تاجر اور سرمایہ کار اپنے
مسلمان بھا ئیوں کو ماہ مقد س میں نہیں بخشتے تو عام دنوں میں ان کا کیا
حال کریں گے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں ۔ایک ایسے ملک میں جہاں
پرائس کمیٹیاں صرف کاغذات میں بنتی اور ٹوٹتی ہوں جہاں کہ پرائس کنٹرول
کرنے والے نمائندے اپنا منہ بند رکھنے کی قیمت وصول کر کے عوام کے گلے پر
چھری چلانے کی کھلی چھٹی دیتے ہو جہاں صارف کو اپنے حقوق کی کوئی آگاہی نہ
ہو جہاں عوام کے مفادات کے تحفظ کرنے والے محکموں میں بھاری تنخواہوں میں
لوگ تو بیٹھے ہوں مگر وہاں تحفظ عوام کا نہیں بلکہ اپنے پیٹ کا ہو رہا ہو
جہاں غریب کا بیٹا آٹا چوری کرنے میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور چند دن
کے میڈیا کے وویلے کے بعد کیس داخل دفتر کر دیا جائے جہاں تاجروں کو ذخیرہ
اندوزی اور لوٹ مار کی باقاعدہ منتھلی لے کر اجازت دی جائے ،جہاں غریب روٹی
کے لئے بھاگتا نظر اائے اور امیر اسی روٹی کو ہضم کرنے کے لئے بھاگتا نظر
آئے وہ معاشرہ کیا ترقی کرئے گا یقینا ایسے معاشرے میں اگر کوئی غریب زندہ
ہے تو اسے خدائی معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے لتکن کسی حکومت کی خیر خواہی ہر
گز نہیں کہی جا سکتی حکومتی عہدیدار عوام میں بھیک تو بانٹ سکتے ہیں مگر ان
کی زندگی کو سہل نہیں بنا سکتے کیونکہ وہ اقتدار میں آتے ہی اس لئے ہیں
تاکہ اپنے اثاثوں میں اتنا آضافہ کر سکیں کہ زندہ رہنے تک انھیں کسی چیز کی
کمی نہ لگے مگر ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر اقتدار خدا تعالیٰ کی امانت
ہے تو وہ اس کو واپس بھی لے لیتا ہے تب ان کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے
جب وہ بے بسی کے عالم میں اپنے کیے پر پشیمان کھبی کسی کے در تو کھبی کسی
کے در اپنے پیاروں کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں مگر یہی لوگ جب اقتدار میں
ہوتے ہیں تو انھیں اپنے سے نیچے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ناجائز منافع
خوری کو روکنے کے لئے اور اس کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ اشیاء کے ہول
سیل نرخ بھی مقرر کیے جائیں اور انہی نرخوں کے مطابق پرچون سطح پر نرخ مقرر
کیے جائیں نرخ مقرر کرتے وقت متعلقہ مارکیٹ کی انجمن تاجران کے نمائندوں
اور تھوک مارکیٹ میں اشیاء فروخت یا فراہم کرنے والے کے نمائندوں سے بھی
مشاورت کی جائے تا کہ ناجائز منافع خوری کا رجحان اور عادت ختم کی جا سکے
تھوک میں نرخ مقرر ہونے کے بعد پرچون کے نرخ بھی متعلقہ بازار کی تاجروں کی
تنظیم کے نمائندوں سے مشورہ بعد مقرر کیے جائیں ان تمام امور کے طے ہونے کے
بعد اصل کام ان نرخ ناموں کا دکانوں پر آویزاں اور پھر ان نرخوں پر عمل
کرانا بھی ہے اس معاملہ میں بھی انتظامیہ اور مجسٹریٹوں کی ذمہ داری بنتی
ہے کہ وہ اس پر سو فیصد عمل درآمد کرائیں اس سلسلہ میں ہر بازار میں مرکز
شکایت بھی ہو جہاں ہر گاہک نرخنامے کے مطابق اشیاء فروخت نہ ہونے کی صورت
میں شکایت کر سکے اس شکایت پر فوری کارروائی اور سزا کا عمل ہو سکے اسی طرح
فون ہیلپ لائن قائم کی جائے جہاں کوئی بھی شخص نرخناموں میں ہیرا پھیری کی
شکایت کر سے اس سلسلہ میں حکومتی ذمہ داری بہت اہم ہے عوام بجلی گیس پٹرول
قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں لیکن ناجائز منافع خوری اور لوٹ مار کو
روکنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے حکومت کو اس ضمن میں متعلقہ افسروں اور
اداروں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند کرنا ہو گا تا کہ مظلوم عوام
کوناجائز منافع خوروں سے بچایا جا سکے۔ |