میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم واقعی
آزاد ہیں ؟یا پھر ہماری سوچ اور تخیلاتی پرواز ہی آزادانہ پروازکر سکتی ہے
پھر اپنی ہی سوچ کی نفی کرتا ہوں کہ ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں اور نہ ہی
ہماری سوچ کی لہریں اور تخیلاتی پرواز کی اڑان لامحدود ہے بلکہ ہم خود بھی
آزاد نہیں اور ہماری سوچ کی لہریں بھی ایک حصار میں قید ہیں وہ حصار غلامی
کا ہے ۔بظاہر تو ہم نے بیسیوں سال پہلے آزادی حاصل کر لی تھی لیکن ہماری
غلامانہ سوچ اس بات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے کہ ہمارے آباؤاجداد نے جس
آزادی کے لئے لازوال قربانیاں دی تھیں یہ وہ آزاد مملکت نہیں بلکہ اس مملکت
کو چلانے کے لئے اغیار کے پاس امداد کے لئے کشکول لئے پھرتے ہیں اورانہی کی
ڈکٹیشن پر چلتے نظر آتے ہیں اور موجودہ حالات کو دیکھ کر اس قوم کی حالت
نہایت قابل رحم نظر آتی ہے ،یہ قوم دوسروں پر تکیہ کئے بیٹھی ہے ،پاکستانی
قوم کے حکمران بھی اس قوم کوسہانے سپنے دکھا کر خوب بے وقوف بناتے نظر آتے
ہیں ۔
اس قوم کے افراد ہمہ وقت ہر اس کام کے لئے تیار رہتے ہیں جس سے انہیں
انگریز آقاؤں کی خوشنودی اور ملاقات کا موقع میسر آسکے ،اس قوم کے افراد
اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی ہی قوم سے بیوفائی کرکے انگریز آقاؤں
سے ایوارڈ وصول کرنا باعث عزت سمجھتے ہیں ،ایوارڈ سے یاد آیا کہ ایک نوبل
ایوارڈ کے لئے اسی قوم کی ایک بیٹی ملالہ بھی نامزد ہو چکی ہے مجھے اس کی
نامزدگی پر پہلے تو حیرانی ہوئی کہ اس نے ایسا کونسا کارنامہ انجام دیا ہے
،تفصیلات دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس نے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق
میں آواز اٹھائی ہے جس کی پاداش میں اس بہادر لڑکی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس
میں وہ معجزانہ طور پربچ گئی ،اس کی اس بہادری پر اسے نوبل پرائز کے لئے
نامزد کیا گیا جس سے راقم حیران ہوا کہ میری سوچ غلط تھی اور نوبیل پرائز
کے بارے شکوک و شبہات تھے کہ اس میں کریڈیبیلٹی نہیں دیکھی جاتی ،لیکن
ملالہ کی نامزدگی پر خوشی ہوئی اور میرا سر فخر سے بلند ہو گیا لیکن پھر جو
ہوا وہ تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک معصوم سی لڑکی بھی ایسی کتاب
لکھ سکتی ہے جو الجھن آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ متنازعہ سی ہے جس میں کئی
جگہوں پر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اسلام کا چہرہ بھی مسخ کرتے
ہوئے قادیانیوں کی طرفداری کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ یقیناایک معصوم بچی
سوچ بھی نہیں سکتی ۔
بات نکلی تو نکلتی ہی چلی گئی اور ہم دوبارہ موضوع کی طرف آتے ہیں تو بات
ہو رہی تھی اس قوم کی ۔
اس قوم کا منتخب وزیراعظم جب امریکہ کا دورہ کرتا ہے تو نگاہیں جھکی ہوتی
ہیں اور جناب اوباما صاحب سے نظریں جھکائے معاملات طے کرتا ہے (یا پھر
طالبان سے مذاکرات یا نئے آرمی چیف کے بارے ڈکٹیشن لیتا ہے )دوسری طرف
امریکی صدر اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو منتخب نمائندہ کو وہ عزت اور توقیر
نہیں دیتا جو کہ اس کا حق ہے جبکہ ملالہ سے ملاقات میں وہ انتہائی سنجیدہ
دکھائی دیتا ہے ۔
دوسروں پہ انحصار کرنا اور اغیار کے تلوے چاٹنا ہماری عادت بن چکی ہے
حالانکہ اس قوم میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ،مگر بدقسمتی سے اس ٹیلنٹ کو نکھارنے
کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جاتے ،جس سے ٹیلنٹ کا ضیاع ہو رہا ہے ،رشوت
و سفارشی کلچر پاکستانی رگوں میں بری طرح سرایت کر چکا ہے ،اس قوم کے افراد
دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ایک طرف ان گوروں اور ان کے ممالک کو برا
بھلا کہتے دکھائے دیتے ہیں تو دل میں یہ خواہش بھی لئے پھرتے ہیں کہ کاش
انہیں امریکہ یا برطانیہ کا ویزہ مل جائے ،اس قوم کے افراد کی دوغلی سوچ پہ
ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو صرف حسین خواب بنتے ہیں اور ان خوابوں کی
تعبیر کے لئے کوئی تگ ودو کرتے نظر نہیں آتے ،وہ یہ بھول چکے ہیں کہ محنت
کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور کامیابی ان کے قدم چومتی ہے جو مسلسل
محنت اور تگ و دو کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے خود آپ اپنی حالت بدلنے کا
اگر کامیابی کی راہ پر ہمکنار ہونا چاہتے ہو تو خوابوں سے سراب ہونے کی
بجائے حقائق سے نظریں ملانا سیکھواور دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے لئے
اغیار پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے قوت بازو پر انحصار کرو یقینا کامیابی
تمہارے قدم چومے گی اور اس قوم کے ہر فرد کو اپنی سوچ کو مثبت راہ کی طرف
گامزن کرنا چاہئے تاکہ یہ قوم اپنے اسلاف کی طرح ترقی یافتہ ہو سکے کیونکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا |