خون چوسنے والے بہت سے کیڑے

بے نظیر نے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا تھا۔ پتہ نہیں بے نظیر اس کا کیا مطلب لیتی تھیں مگر مجھے تو یہی بات سمجھ آئی ہے کہ اگر آپ جمہوریت کے لیے کسی کو ووٹ دیں تو وہ آپ سے انتقام لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے جمہوریت کی چاہت میں شیر کو ووٹ دیا اور شیر ان سے پوری طرح انتقام لے رہا ہے۔ مہنگائی حد سے بڑھ چکی ہے بے روز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے، دہشت گردی کم ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتی جارہی ہے غیر محفوظ ہونے کا احساس بڑھتا جا رہا ہے ۔لوڈ شیڈنگ قائم اور دائم ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کے ریٹ ہر ہفتے بڑھ رہے ہیں۔ یوں قوم مسلسل انتقام کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔

سیاست (Politics) یونانی زبان کا لفظ ہے۔ افلاطون نے (The Republic) کتاب لکھی جس میں اپنے استاد سقراط کے نظر یات کا ذکر کیا۔ افلاطون نے اُس کتاب میں کہا کہ سیاست کا مقصد منظم اور پُر امن معاشرے کا قیام ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں لوگ اپنے مسائل، باہمی جھگڑے اور اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ افلاطون کے شاگرد ارسطو نے جمہوریت کو بہترین طرز حکومت اور اسے ایک ایسا طرز حکومت قرار دیا جو عوام کے لیے ہو عوام سے ہو اور عوام ہی کا ہو۔ مگر ہمارے ملک میں عوام کا حکومت میں کسی قسم کا لین دین نظر نہیں آتا۔ اُن فلاسفروں کے مطابق سیاست ایک پریکیٹکل سائنس ہے جس کا مقصد شہروں اور شہریوں کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے مگر ہماری سیاست مسائل میں اضافے کا باعث ہی رہی ہے اور مسائل میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔(YALE)ییل یونیورسٹی کے پروفیسر ہیرولڈلاسول (Harold Lasswel) کے مطابق سیاست وہ ہے جس میں کوئی کب کیا اور کہاں حاصل کرتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے تو یہ بات عوام کے حوالے سے کی تھی مگر ہمارے معاشرے میں یہ بات فقط پیشہ ور سیاستدانوں کے بارے ہی میں کی جاسکتی ہے کہ سیاستدان کب کہاں اور کیا حاصل کرتا ہے۔اس لیے کہ ہمارا معاشرہ ایک منافق معاشرہ ہے یہاں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جسے آپ ٹھیک یا صحیح قرار دے سکیں۔ ہمارا انداز ،ہمارا طرزِ عمل اور ہماری قدریں پوری دنیا سے الگ اور مختلف ہیں۔ ہم غلط کام خود کرتے ہیں اور نتائج کا ذمہ دار رب العزت کو قرار دیتے ہیں یا کوئی کام کرتے ہی نہیں پھر بھی اُمید کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ معاملات کو سنبھال لے گا۔

کسی بستی میں سیلاب آگیا۔ گاؤں کے لوگ پانی کی آمد کے ساتھ گاؤں چھوڑ کر کسی اونچی جگہ پر چلے گئے۔ مگر ایک بزرگ ضد کرکے وہیں ٹھہر گئے کہ اُنھیں اﷲ پر بھروسہ ہے اسلئے پانی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ گاؤں ہی میں رہیں گے اور اﷲ انہیں بچائے گا۔ گاؤں والوں نے بہت سمجھایا مگر وہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ گاؤں والوں سے اُلٹا لڑنے لگے کہ مجھے اﷲ پر بھروسہ ہے میں اُس کی رحمت کا طلب گار ہوں۔ تم روکنے والے کون، پانی بڑھ رہا تھا اور لوگوں کی منت سماجت کا اُن پر کوئی اثر نہ ہو رہا تھا۔ پانی کی صورتحال مزید بگڑی تو لوگ مجبوراً اُنہیں چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے گئے۔ دوپہر تک پانی بزرگ کی کمر تک پہنچ گیا۔ اتنے میں ایک کشتی مدد کے لیے آگئی۔ کشتی والوں نے صورتحال کی نزاکت سے آگاہ کیا مگر اُنھوں نے صاف انکار کردیا۔ کشتی چلی گئی اور وہ اﷲ کے بھرو سے پرکھڑے رہے۔ تھوڑی دیر میں پانی گردن کو چھونے لگا اتنے میں ایک اور کشتی پہنچ گئی ۔کشتی والے اُنہیں اُٹھا کر کشتی میں ڈالنا چاہتے تھے مگر انہوں نے کشتی والوں کو بری طرح جھڑک دیا اور کہا کہ اپنا کام کرو۔ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ اﷲ میری مدد کرے گا۔ پانی مزید چڑھا اور اُن کا چہرہ ڈوبنے لگا اچانک ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا۔ ہیلی کاپٹر کا عملہ اُن کی مدد کرنے اور انہیں کسی محفوظ مقام پر پہنچانے کا کہتا رہا۔ مگر وہ انکار کرتے رہے کہ اﷲ پر چھوڑ دو اور تم جاؤ۔ تنگ آکر ہیلی کاپٹرو الے بھی چلے گئے ۔

سیلاب میں تیزی آتی گئی۔ پانی مزید چڑھتا گیا اور تھوڑی ہی دیر میں بزرگ پانی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ فرشتے اُن سے حساب کرنے آئے تو بزرگ اُن سے گلا کرنے لگے کہ دیکھو مجھے تو اﷲ تعالیٰ پر بے پناہ بھروسہ تھا مگر میں پھر بھی ڈوب گیا۔ اﷲ نے میری کوئی مدد نہیں کی۔ فرشتے ہنسے کہ اﷲ نے مدد نہیں کی کہ تم نے عقل استعمال نہیں کی۔ اس قدر سیلاب میں جہاں لوگ مدد کو ترستے ہیں اﷲ تعالیٰ نے تمھارے پاس دو دفعہ کشتی بھیجی اور ایک دفعہ ہیلی کاپٹر اور تم انکار کرتے رہے۔ رب العزت تو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور جو لوگ غور نہیں کرتے اُن کا وہی انجام ہوتا جو تمھارا ہوا۔ شاید ہم من حیث القوم بھی ایسی ہی مشکل کا شکار ہیں۔ ہم نے ووٹ دیتے وقت کبھی غور کیا کہ غلط ووٹ دینے کا انجام کیا ہوگا۔ شاید اسی لیے بھگت رہے ہیں۔

ہم سیاست یا Politicsکے معنوں کی جب بھی بات کرتے ہیں تو یونانی زبان کے حوالے سے ہی بات کرتے ہیں مگر اگر اسی لفظ کے معنی لا طینی زبان میں دیکھیں تو شاید ہمارے ملک کی صورتحال سے وہ معنی بہت قریب ہیں۔ لاطینی زبان میں Poliکے معنی ہیں بہت سارے اورTicکا مطلب ہے خون چوسنے والے کیڑے واقعی ہماری سیاست تو بہت سارے خون چوسنے والے کیڑوں کے ہاتھوں پر غمال ہے اور شاید غمال رہے گی۔ اُس وقت کہ جب تک ہم ووٹ دیتے وقت پوری سوچ اور سمجھ کے ساتھ ووٹ نہیں دیں گے۔ یہ غلط اور بغیر سوچ کے ووٹ دینے کا انجام ہے کہ لوگوں کی آہ و فغاں کا کوئی اثر نہیں۔ جن کے جو مفادات ہیں وہ اُنہیں پورا کر رہے ہیں عوام سے کسی کو کوئی سردکار نہیںَ عوام کا خون پچھلے پانچ سال بھی چوسا گیا ہے اور جو کچھ بوندیں بچی ہیں وہ موجودہ دور کی نذر ہوجائیں گی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 448875 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More