مصروفیت کی وجہ سے میری حالت
قدرے غیر ہے، اور کچھ تھکا دینے والے کاموں نے کچھ کرنے سے روک دیا ہے،
تھکن نے سکون غارت کر رکھا ہے تو آج کل کے حالات بھی کم تڑپا دینے والے
نہیں ہیں۔ ایسے میں سوچا کہ ٹی وی ہی دیکھ لیا جائے مگر وہاں بھی حالات کی
خرابی کا چرچا اور کچھ چٹکلوں کے سوا کچھ نہ ملا۔پھر خیال آیا کہ اخبارات
سے ہی دل بہلائیں شاید کوئی اچھی خبر پڑھنے کو مل جائے مگر وہاں بھی مایوسی
ہوئی۔ خیر ایک خبر ہاتھ لگی اُسے پڑھ کر کالم نویسی کا غلبہ ہوا اور چونکہ
فطرتاً کالم نگاری راقم میں رچی بسی ہوئی ہے اس لئے فوراً ہی قلم نے لکھنے
پر اُکسایا۔ یہ ہمارے ملک کا المیہ ہی ہے کہ جس طرح بُرے داغدار سیاست داں
اپنی پارٹی یا دوسری پارٹی میں پہنچ کر اچھی جگہ پاتے ہیں اسی طرح بُری
خبریں بھی اخبار میں اچھی جگہ پاتی ہیں۔ آج بھی ہر طرف اندھیرا اور اندھیرا
ہی ہے، ہر طرف نفرتوں کا ڈیرہ نظر آتا ہے، مگر ہم اﷲ کی ذات سے نا اُمید
نہیں ہیں اس لئے جہاں پریشانی، تھکاوٹ اگر جینے نہیں دے رہی ہے تو ہمارا
ایمان ، ایقان اور حوصلہ ہمیں مرنے بھی نہیں دے رہا ہے اور یہی حوصلہ ہم سے
پھر کچھ سچا لکھوا رہا ہے۔مصروفیت اور نقاہت کے سبب قلم ذہن کا ساتھ نہیں
دیتا اب کچھ لکھنے کو جی نہیں کر رہا مگر کچھ سچا لکھنے کو دل مچلتا ضرور
ہے اس لئے قلم اور قلب کے پُر زور فرمائش پر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ ’’ دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ اسی جنون میں ہم
نے پھر سے دل بہلانے کی ٹھان لی اور اخبار میں غرقاب ہوئے، مگر ہر روز دل
بہلنے کے بجائے دل دہل ہی رہا ہے بالخصوص فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی،
نشانہ وار قتل، بھتہ خوری، بے امن و امانی، بے روزگاری جیسی بے شمار خبریں
دل کو دہلا ہی سکتے ہیں۔ مسلم ملکوں کی زبوں حالی، بے شعوری اور بے حسی اور
ان کی بربادیوں کے چرچے بھی زوروں پر ہیں تو دوسری طرف مہنگائی نے اپنے
پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ اب تو ہر بنیادی چیز ہی غریب اور متوسط طبقوں سے دور
ہوتی جا رہی ہے۔ملک میں مہنگائی کا ایک ایسا سیلاب آ گیا ہے کہ ملک کے غریب
اب تین وقت کا کھانا بھی ٹھیک طرح سے تناول نہیں کر سکتے۔
ہاں! چند روز سے کچھ اچھی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں ۔ ان کا تعلق عدلیہ کی
فعالیت سے ہے اور ان میں ایک خبر کراچی بے امنی کیس کا بھی شامل ہے۔ دراصل
ایسی خبریں کالم نگاروں کا خصوصی محور ہوتی ہیں ، انہی محرکات سے ہم معاشرے
میں رونما ہونے والے حالات و واقعات، ناانصافیاں، بے ایمانیاں اور دیگر
بُرے افعالوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں حالات ایسے ہیں کہ اب تو
ووٹنگ کے وقت ( چاہے وہ کوئی بلدیاتی ووٹنگ ہی کیوں نہ ہو) رائے دہندگان کو
تمام امیدواروں کو مسترد (ریجکٹ) کرنے کا بھی حق ملنا چاہیئے۔ یہ شاید اس
ملک کے عوام کا دیرینہ حق بھی ہے یعنی ووٹر کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اگر
کسی بھی امید وار کو ووٹ دینا نہیں چاہے تو ’’ ان میں سے کوئی بھی نہیں‘‘
والے خانے پر مہر ثبت کر سکتا ہے۔چونکہ ملکی سیاست سے اب عوام بیزار آچکی
ہے۔ جس پریہ عوام بھروسہ کرتی ہے وہی عوام کو دھوکہ دے جاتے ہیں۔ اگر
مستقبل قریب میں ایسا کوئی فیصلہ عدلیہ یا پھر کسی اور ذرائع سے ہو جاتا ہے
تو یہ انتخابی ضابطے میں سدھار کی سمت میں ایک اہم قدم ثابت ہوگابشرطیکہ
انصاف کے محلوں میں بیٹھی سیاسی جماعتیں اسے قبول کر لیں۔ عوام تو غالباً
یہ بھی چاہتی ہے کہ جس طرح عوام کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے، اسی طرح
انہیں یہ بھی حق ملنا چاہیئے کہ اگر کوئی منتخب شدہ امیدوار ان کی امیدوں
اور امنگوں پر کھرا نہیں اُترتا اور ان سے وعدہ خلافی کرتا ہے تو وہ اسے
واپس لے لیں یعنی right to rejectکا حق۔ ہمارے ماضی کے قانون دانوں اور
قانوں سازوں نے اگر عوام کو یہ حق دیا ہوتا تو آج ملک میں بد عنوانی کی یہ
تکلیف دہ صورتحال نہیں ہوتی جو آج ہے اور ملک کی دولت کا اس طرح ناجائز
استعمال نہ ہوتا جیسا کہ اب تک ہوا ہے۔ اور صوفی، سنتوں کا یہ اعلیٰ اخلاقی
اقدار والا ملک اس طرح گھپلے بازی، کالے کرتوتوں کی وجہ سے سارے جہاں میں
اس طرح بدنام نہ ہوتا جیسا کہ آج ہو رہا ہے۔آج ملک میں ہر طرف بے راہ روی،
بے ایمانی، دغا بازی اور جعلسازی کا راج ہے، غریب اور شریف آدمی کے لئے
کوئی جگہ نہیں؟ عوام ٹھیک ہی سوچتے ہیں کہ ووٹ دینے کا حق قانونی ہے تو ووٹ
نہ دینے کا حق بھی قانونی ہو جانا چاہیئے۔ جرائم سے پاک معاشرے کی تشکیل کے
لئے، ملک کی عزت آبرو بچانے اور عظمتِ رفتہ بحال کرنے کے لئے انتخابی
اصلاحات بہت ضروری ہو گئے ہیں۔ اگر ایسا کوئی قانون بن گیا تو ملک کے محنت
کشوں، شریف اور ایماندار لوگوں کی کمائی پر گل چھرّے اُڑانے والوں کی دال
نہیں گلے گی، وہ اپنی من مانی نہیں کر سکیں گے اس لئے کہ ہماری عدالتیں
فعال ہیں، ایماندار اور ذمہ دار ہیں۔
دنیا کے بہترین اسلامی ملک میں جمہوریت ایک مذاق بن گیا ہے۔ مظلوموں کو ان
کی زندگی میں انصاف نہ ملے، مجبور و بے بس لوگ لٹتے پٹتے رہتے رہیں، اور وہ
انصاف کا سپنا آنکھوں میں سجائے دنیا سے رخصت ہو جائیں، یا ناانصافیوں اور
زیادتیوں سے تنگ آکر موت کو گلے لگا لیں یا موت خود ان پر ترس کھا کر انہیں
گلے لگا لے۔ انصاف میں تاخیر ہوتی رہے اور انصاف دلانے والے آرام سے سوتے
رہیں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہوتے رہیں اور وہ سڑکوں پر دندناتے پھریں
اور پہلے سے بھی بڑی وارداتیں کرتے رہیں ، یہ ایک جمہوری ملک کے لئے بڑے
شرم کی بات ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیئے ، انصاف میں تاخیر سے انصاف کا خون
ہوتا ہے۔
آہ! آج ہمارے پاک وطن میں جمہوریت ایک فراڈ کی مانند ہو گئی ہے۔ ملک کے
سیاسی شعبدہ بازوں اور مجمع سازوں نے ایسے کھیل تماشے دکھائے کہ ملک کی عزت
مٹی میں ملنے کو ہے۔ جس ملک نے اخلاقی اقدار میں نام کمایا تھا اب کرپشن
میں کما رہا ہے۔ آج جمہوریت لہو لہان ہے۔ اس پر پے در پے وار ہو رہے ہیں۔
ذرا سوچیں اور غور کریں ! کہ حکومتوں میں شامل لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے
والے ایک وزیر، مشیر یا سفیر کے اندرون ملک اور بیرونِ ملک علاج معالجہ کے
لئے تو سرکاری خزانے کے منہ کھلے ہوئے ہیں لیکن ایک غریب، نادار ، بیمار
اور لاچار آدمی کے پاس علاج کے لئے پیسے ہی نہیں ہے۔ اور وہ ایسے میں
ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں
مہنگائی دو سو فیصد اور تنخواہیں مہنگائی کے مقابلے میں صرف بیس فیصد ملتی
ہیں۔یہ کیسا انصاف ہے کہ حکومتوں میں بیٹھے ہوئے ارباب ، چاہے وہ حزبِ
اختلاف میں ہوں یا حزبِ اقتدار میں، سبھی لوگ ایک رائے ہوکر بِنا کسی
اختلاف اور شور شرابے کے اتفاقِ رائے سے بقلم خود اپنی اپنی تنخواہیں اور
الاؤنسزز بڑھا لیں اور غریب مزدوروں، ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے لئے
خزانہ خالی کا بہانہ کر لیا جائے۔یا پھر بہ آسانی یہ کہہ دیا جائے کہ یہ
کڑوی گولی نگلنا پڑے گا؟یہ کتنا بڑا دھوکہ ہے ملک کے عوام کے ساتھ؟یہ کیسا
سنگین مذاق ہے ملک کے عوام کے ساتھ؟چونکہ یہ موزوں ایسا ہے کہ اس پر لکھتے
جایئے ، صفحات دراز ہوتے چلے جائیں گے مگر موضوع کا اختتام کرنا مشکل ہوگا
اس لئے میں اس شعر پر اختتامِ کلام کروں گا ، ویسے بھی دن بھر کی محنت
مزدوری کے بعد تھکاوٹ کے آثار بڑھ چکے ہیں اس لئے آرام کی اشد ضرورت بھی
درپیش ہے۔
بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے |