اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن
عزیز کوآئے دن دھماکوں کی ایک عادت سی ہوگئی ہے اور اسے اسی ماحول میں جینے
کی عادت بھی پڑ گئی ہے ۔یہاں کے لوگوں کو اب ان دھماکوں سے ڈر نہیں لگتا ،
یہ دھماکے اب شاید کسی کھیل کی صورت اختیار کر چکے ہیں ،ہر روز کہیں نہ
کہیں دھماکے ہو ہی جاتے ہیں ،کبھی دل والوں کا شہر دہلی اس کا نشانہ ہوتا
ہے تو کبھی ہندوستان کی صنعتی راجدھانی ممبئی ،کبھی گلابی شہر کو نشانہ
بنایا جاتا ہے ،تو کبھی شان دکن کو،کبھی مذہبی اور ثقافتی شہر ان کا نشانہ
ہوتے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا کسے الزام دیں ،خود کو ،اپنے شہر والوں کو
حکومت کو یا پھر ان لیڈران کو جو صرف اورصرف بیان بازیوں سے کام کرتے ہیں
۔حالیہ دنوں میں پٹنہ کے گاندھی میدان میں جو دھماکے ہوئے اور ان دھماکوں
میں پانچ لوگوں کی موت ہوگئی اور سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے ۔آخرکسے فرق
پڑ ا،کسی کو نہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے نریندر
مودی اپنی تقریر کررہے تھے کیا انہیں اطلاع نہیں ملی ہوگی کہ پٹنہ میں خاص
کر اسی گاندھی میدان میں جہاں ان کی ریلی تھی دھماکے ہوئے اتنے لوگ زخمی
ہوگئے ،لیکن کیا مودی کو اس بات کا احساس تھا؟ ،نہیں، انہیں تو بس اپنی راہ
بنانی تھی ،اپنے ووٹ اکٹھا کرنے تھے ،اپنے لئے ووٹ کی فصلیں تیار کرنی تھی
۔یہ لوگ ایسے ہی ہیں انہیں ہم سے کوئی دلچسپی نہیں،انہیں ہماری تکلیفوں کا
احساس نہیں ،انہیں تو بس اپنی کرسی سلامت رکھنے کے لئے ہماری ضرورت ہوتی ہے
،تبھی تو راہل گاندھی نے مظفر نگر کے رستے زخموں پر نمک پاشی کی ،درد کوکم
کرناتو دور، زخموں پر مرحم لگانا تو دور، رستے زخموں کواور کریدنے کی کوشش
کی ۔ان سے امید کی جارہی تھی کہ وہ مظفر نگر فسادات میں اپنا سب کچھ گنواں
چکے لوگوں سے کچھ تو ہمدردی رکھینگیں، لیکن انہوں نے اپنی سیاسی بساط کچھ
یوبچھائی کہ مظلوم کو مجرم قرار دے دیا ۔انہوں نے مظفر نگر کے معصوم
نوجوانوں کو آئی ایس آئی کے ساتھ منسلک کردیا ، انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ
ان کے اس بیان سے کسی پر کیا گزرے گی ،انھیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ
ان کے اس بیان کے بعداس ملک کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان نوجوانوں کے
ساتھ کیسا رویہ رکھے گی ،کیا سلوک کریں گی ۔وہ لوگ جو صرف موقع کی تلاش میں
رہتے ہیں انہیں راہل گاندھی نے اتنا بڑا موقع فراہم کردیا،اس سے بڑی زیادتی
مسٹر گاندھی کر بھی کیا سکتے ہیں ۔آخر کس انٹلجینس آفیسر نے انہیں یہ اطلاع
دی اور کس بنا پر، ملک کی خفیہ تنظیم نے راہل کو اس کی اطلاع فراہم کی ۔بات
اگر پٹنہ میں ہوئے بم دھماکوں کی کی جائے تو ملک کا کوئی بھی ہوش مند شخص
اس بات کا اندازہ سیدھے سیدھے کرسکتا ہے کہ آخر یہ دھماکے کس نے کروائے
؟کیوں کروائے ؟اور اسی دن کیوں ہوئے جس دن نریندر مودی کی ریلی پٹنہ میں
تھی ۔خفیہ ایجنسیوں کو ملک کے ہر گوشے سے مسلم دہشت گرد بآسانی مل جارہے
ہیں لیکن ان کی توجہ اس جانب قطعی نہیں ہے کہ گاندھی میدان میں ہوئے
دھماکوں کہ ٹائمرس بودھ گیا مندر میں دھماکے کے ٹائمرس کی طرح گجرات ماڈل
پر ہی منحصر ہیں ۔
مجھے یاد نہیں کہ جب جے ڈی یو اور بی جے پی کی متحدہ حکومت بہار میں تھی اس
وقت بہار کے کسی شہر میں بم دھماکہ ہوئے ،یا اگر ہوا بھی ہوگا تو کوئی
چھوٹا موٹا دھماکہ ۔لیکن جب سے بی جے پی اور جے ڈی یو الگ ہوئے ہیں اس کے
بعد بہار میں بھی دھماکوں کی گونج سنائی دینے لگی ہے ۔بہار میں تعلیم کا
فقدان بھلے ہی ہو ،50 فیصد لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں، بھلے
ہی ایک پسماندہ ریاست ہونے کا لیبل لگاہو لیکن ان بم دھماکوں سے تو محفوظ
تھے ۔ اب کیا ہواکہ بی جے پی سے الگ ہوتے ہی دھماکوں کا دور شروع ہوگیا۔
بودھوں کے لئے مقدس مقام ،اور امن کے پیامبر مہاتما بودھ کی سرزمین گیا میں
ہوئے دھماکوں کی گونج پوری طرح ختم بھی نہیں ہوئی کہ راجدھانی پٹنہ دہشت
گردوں کے نشانہ پر آگیا اور ان دھماکوں کا مقصدیہ بتایا گیا کہ یہ دھماکے
مودی کو مارنے کے لئے کئے گئے ۔وہی مودی جنھیں مارنے کی سازش میں آج تک
مسلمانوں کے انکاؤنٹرکئے جارہے ہیں ،ایک اور موقع مل گیا مسلمانوں کو بلی
کا بکرا بنانے کا ۔ اگر حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کو اس بات کی خبر تھی کہ
پٹنہ میں دھماکے ہوسکتے ہیں ،اگر انٹلی جینس بیورو کے پاس اس کی انفارمیشن
تھی کہ پٹنہ دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے ،تو پھر وہاں ریلی کی اجازت ہی کیوں
دی گئی ،اگر یہ اطلاع تھی کہ دھماکے ہوسکتے ہیں تو پھر وقت سے پہلے
انتظامات کیوں نہیں کئے گئے؟ ،کیا ہمارے حکمراں اور تمام تر انٹلجنس
ایجنسیاں اس بات کے انتظار میں تھیں کہ دھماکے ہوجائیں پھر ہم اپنا کام
کرینگے ،کیونکہ یہ لوگ مسلم نوجوانوں کو الزام میں ملوث کرنے کا کوئی موقع
نہیں چھوڑنا چاہتے ۔اگر مودی کو یہ خبر تھی کہ وہاں انھیں مارنے کی سازش
رچی جارہی ہے تو پھر انہوں نے اپنی ریلی رد کیوں نہیں کی ۔کیوں کہ انہیں اس
بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی وجہ سے کتنے لوگوں کی جان جاتی ہے
۔انہیں اس بات کی بھی ضرور خبر ہوگی کہ اس ریلی میں دھماکے تو ہونگے لیکن
ان کا بال بھی بانکا نہیں ہوگا ،کیوں کہ وہ نریندر مودی ہیں جنہیں لاشوں پر
سیاست کرنے کی پرانی عادت ہے ۔ جہاں تک ان دھماکوں کے پیچھے کسی کے ہاتھ
ہونے کا سوال ہے تو یہ صرف اور صرف وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اس ملک میں اتحاد
پسند نہیں کرتے ۔خاص کر وہ لوگ جن سے حالیہ کچھ سالوں میں ہوئی بہار کی
ترقی نہیں دیکھی جارہی ہے ۔بہار کا پچھلے کچھ سالوں کا سفر امیدوں کا سفر
رہا ہے ۔لیکن ابھی بھی بہار اور وہاں کے لوگوں کو لمبی دوری طے کرنی ہے
۔بہار میں کئی شعبوں میں ترقی ہوئی ہے لیکن ملک کی ترقی یافتہ ریاستوں میں
شامل ہونے کے لئے بہار کو ابھی مزید وقت درکار ہے اور وہ لوگ جو بہار کی
ترقی سے خائف ہیں وہ اپنی سازشوں کو کامیاب کرنے کی ہر ممکن کوشش پر آمادہ
ہیں ۔اور اس کے لئے وہ کسی بھی نام یا کسی بھی تنظیم کا سہارا لے سکتے ہیں
۔اگر نیشنل انٹلیجنس بیورو(این آئی اے)کی مان بھی لیں کہ یہ دھماکے انڈین
مجاہدین نے کروائے ہیں تو ان کا بھی سیدھا مقصد ہمارے ملک کو تنزلی کی جانب
لے جانا ہے ۔یہ وہ نام نہادی تنظیم ہے جس کے لئے آج تک کوئی حتمی ثبوت
فراہم نہیں کیا جاسکا اور جب بھی ملک میں کہیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے
کی کوشش میں دھماکے ہوتے ہیں تو انڈین مجاہدین کے نام سے کسی مسلم نوجوان
کو ٹیگ کردیا جاتا ہے ۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے مسلمانوں کو بدنام اور
برباد کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑا ہے ۔یہاں تک کہ جب اسیمانند نے اپنا
گناہ قبول کرنا چاہا تو اطلاع کے مطابق انھیں اس سے باز رہنے کی تلقین کی
گئی تھی۔ اس لئے کبھی کبھی تو یہ بھی شک ہوتا ہے کہ یہ تنظیم بھی ان فرقہ
پرستوں کی رہنمائی میں انہی کے رہنما اصول پر ہندستانی مسلمانوں کو بدنام
کرنے کے لئے چلائی جارہی ہے ۔اور اس کا نام لیکر نہ جانے کتنے بے قصور
مسلمان نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاچکاہے ۔گاندھی میدان میں
مودی کے پہنچنے سے چند ہی گھنٹے قبل دھماکے ہوئے۔دیکھا جائے تووہاں سیکورٹی
کا کوئی بندوبست بھی نہیں تھا۔ایسے میں دھماکہ کرنے والا کیا مودی کے اسٹیج
پر پہنچنے کا انتظار نہیں کرسکتا تھا؟چلو مان بھی لیں کہ متوقع صورت حال کی
سنگینی سے خوف زدہ ہوکر دہشت گرد نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا اور دھماکے
کر ڈالے ۔اس وقت لائیو ٹی وی چینلس پر واضح طور پر دیکھا گیا کہ مجمع گاہ
میں بم پھٹ رہے ہیں اور بی جے پی لیڈران پٹاخے مت پھوڑنے جیسی ہدایات دے
رہے ہیں۔ظاہر ہے انھیں پٹاخوں اور بم دھماکوں کی صورتوں سے واقفیت تھی لیکن
انھیں اپنے مشن کا اندازہ تھا،اس لئے وہ ان دھماکوں سے بے خبراپنے پروگرام
پر عمل پیرا رہے ۔انہوں نے قطعی اس بات کی سدھ نہیں لی کہ ان دھماکوں کے
ساتھ افراتفری پیدا ہورہی ہے ،لوگ مارے جارہے ہیں اور میدان میں دھوئیں کے
بادل اٹھ رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نکات پر کون توجہ دے ۔خفیہ
ایجنسیوں کو تو صرف گرفتاری کی پڑی ہے اور سیاسی پارٹیوں کو اپنی سر زمین
بنانے کی فکر ہے ۔ اس لئے اب تو ہندوستان اور یہاں کے عوام کو سوچنا چاہئے
کہ وہ کیا کریں،کس طرح ان مسائل کا حل نکالیں ۔انھیں اس مسئلے کا حل خود
ڈھونڈناہوگا کیونکہ ان لیڈران کے اندر اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ یہ کچھ کر
سکیں ،ان سے امید رکھنا ہی بیکار ہے ۔ |