ہفتہ 2 مئی کو اس شہر کا ہر باسی
سوچوں میں گم اور اس کے چہرے پر فکر و تردو نظر آیا وہ غیر یقینی مستقبل کے
حوالے سے پریشان لگ رہا تھا اسے اپنی فکر تھی تو اپنے خاندان' دوست عزیز
کیلئے بھی وہ فکر مند تھا اور دور خلائوں میں کچھ تلاش کرنے کی تگ و دو میں
لگا ہوا تھا اسے کچھ نظر آرہا تھا یا نہیں تاہم اس نے محسوس کرلیا تھا کہ
اسے اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں دیا جارہا اور وہ کون ہے جو اس سے یہ حق
چھین رہا ہے ؟ وہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا ایک زمانہ تھا کہ اس شہر
کو پھولوں کا شہر قرار دیا گیا تھا اس کے باسی خوشحال اور بے فکری کی زندگی
گزار رہے تھے یہاں نہرو چین کی بانسری بجا رہا تھا لیکن پھر اس شہر کو کسی
کی نظر لگ گئی اور اس پر سکون خطے کی بدقسمتی کا دور شروع ہوگیا 1979ء سے
بدقسمتی کا شروع ہونے والا یہ دور تاحال جاری ہے اس کے باسی روز مرتے ہیں
اور روز جیتے ہیں وہ جب گھر سے نکلتے ہیں تو انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ
بخریت گھر واپس پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں 1979ء سے اس خطے کے قدرتی ذخائر
پر نظریں جمانے والوں نے یہاں اپنا کھیل شروع کیا اور اس کھیل کا پہلا
نشانہ یہی شہر بنا آگ اور خون کے اس کھیل میں یہاں مقامی لوگوں کو اس کی
بھینٹ چڑھایا گیا روز شعلے بلند ہوتے رہے اور اس شہر کے باسیوں کے جسم فضا
میں اڑتے نظر آئے ہزاروں مائوں کے جگر گوشے' بہنوں کے لاڈلے' باپ کے سہارے
اور سرخ جوڑا پہنے والوں کے خواب بکھرتے رہے یہ سب کچھ ''بڑے'' دیکھتے رہے
لیکن اس سے لاتعلق رہے اس شہر کے باسی خون کے آنسو روتے رہے لیکن کسی نے ان
کے آنسو پونچھنے کی کوشش نہیں کی اس شہر کے باسی اپنے پیاروں کے لاشے
اٹھاتے رہے اور خون کے گھونٹ پیتے رہے اور یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے پھر
حالات نے کچھ پلٹہ کھایا اور ریچھ کے جانے کے بعد اس شہر کے باسیوں نے کچھ
سکون کا سانس لیا لیکن ابھی وہ پوری طرح سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ گدھے
نے اس خطے کو اپنا مسکن بنالیا اور ایک بار پھر اس شہر اور اس کے باسیوں کی
بدقسمتی کا دور شروع ہوگیا گدھے کی دو لتیوں سے ان کے جسم کے انگ انگ سے
خون رسنے لگا لیکن گدھا تو پھر گدھا ہی رہتا ہے اس کی فصلت نہیں بدلتی اس
کا تو کام ہی دو لتیاں جھاڑنا ہے وہ اپنی عقل سے کم اور لاتوں سے زیادہ کام
لیتا ہے طاقت کا گھمنڈ جو ہوا 'اور گدھے کی انہی دو لتیوں سے آج کل بھی اس
شہر کے باسی پھر متاثر ہو رہے ہیں چند دن قبل اس شہر کے باسیوں کے چہرے کھل
اٹھے تھے اور ایک امید بندھ گئی تھی کہ گدھے کے دو لتیوں سے انہیں نجات مل
جائے گی ایک امید تھی ایک آس تھی کہ شائد وہ آگ و خون کے اس دریا سے پار
اتر جائیں گے اپنوں کی طرف سے اس شہر کے باسیوں کے جسم سے رسنے والے خون پر
مرہم کی پٹی بندھ جائے گی اور پھولوں کے شہر کے نام سے کسی زمانے میں یاد
کیا جانے والا یہ شہر جواب کانٹوں بھرا شہر بن گیا ہے پھر سے ہرا بھرا
ہوجائے گا اس کے باشندے اگر خوشحال نہیں تو بے فکری اور سکون کا سانس تولے
سکیں گے لیکن گدھے نے ایک ہی دولتی جھاڑ کر ان کی وہ ساری امیدیں' خواب و
سپنے بکھر دیئے یہ شہر اور اس کے باسی ایک بار پھر امیداور نا امیدی کے
دلدل میں پھنس گئے ایک انجانا سا خوف وہ پھر سے محسوس کرنے لگے اور اس فکر
میں غلطاں و پریشان رہنے لگے کہ اس گدھے سے چھٹکارا کیسے ممکن ہو گا یہ اس
شہر اور اس کے باسیوں کا نوحہ ہے کیونکہ سب سے زیادہ یہی شہر ہر دور میں
متاثر ہوتا رہا ہے اور اس کے باسی نشانہ بنتے رہے ہیں۔ |