اونٹ کے منہ میں زیرہ

مشہور کہاوت ہے کہ ’’ اونٹ کے منہ میں زیرہ ‘‘ یہ کہاوت اس وقت بولی ،کہی جاتی ہے جب کسی کو کھانے میں بہت کم خوارک دی جائے۔لیکن آج اس کہاوت کو عوامی حکومت کے وعدوں،دعوؤں اور ان کی رنگبازی جو پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی پر ظاہر ہوئی بالکل انہی پر صادر ہوتی ہے۔اور یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہ آ جائے اپنے سے اونچا کسی کو نہیں جانتا۔ اس دوسری کہاوت کامطلب ہے کہ اب جب تک عوام پورے کے پورے پہاڑ کے تلے نہیں آئیں گے تب تک عوام کو اپنی طاقت کا اندزہ بھی نہیں ہو سکتا۔

حکومت نے اوگرا کی عوام دوست سمری کے مطابق ۱۳ سے ۸۴ پیسوں تک پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا اعلان کرکے پہلا بڑا عوامی ریلیف پہنچایا ہے۔رنگبازوں کی ہوشیاری دیکھئے کہ قیمتوں میں اضافہ تو روپوں میں کیا جاتا لیکن کمی پیسوں کی شکل میں ہوتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہوئے ، ایک اندازے کے مطابق اب پیٹرول ۹۳ روپے لیٹر جبکہ ڈیزل ۹۵ روپے تک ہونا چائیے،مگر رنگباز وں کا کمال دیکھیں کہ انہوں نے حکومت کو ایسا یرغمال بنا رکھا ہے کہ حکمران لکیر کے فقیر بنے نظر آتے ہیں۔

یہی کافی نہیں ایل پی جی کے نرخوں کا تعین ۷ روپے لیٹر کے اضافے کے ساتھ کیا گیا۔بتایا جاتا ہے کہ عالمی نرخوں کے مطابق ۹ روپے لیٹر کم ہونا چاہئے مگر بادشاہ گروں نے اوگرا کے چار سو ارب روپے کی نیاز مندی پر پردہ داری بھی رکھنی ہے۔

مہنگائی کے اس سونامی نے عوام کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں۔مارکیٹس کی صورت حال یہ ہے کہ اب ہر آئٹم پر بیس سے چالیس فی صد از خود اضافہ ہو چکا ہے ۔تازہ ترین نرخوں کے مطابق سبزیات جن میں مٹر ۱۰۰ روپے سے ۱۸۰ روپے کلو گرام،ٹماٹر ۱۲۰ سے ۱۵۰ روپے،ادرک ۲۰۰ سے ۲۵۰ ،آلو ۶۰ سے ۹۰ جبکہ دالیں دو سے پانچ روپے فی کلو بڑھ چکی ہیں۔یہی نہیں بلکہ دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی آسمانوں پر پہنچ چکی ہیں ۔مارکیٹس ریٹس پر کوئی کنٹرول نہیں،پرائس کنٹرول کمیٹیاں مکمل ناکام ہو گئی ہیں۔انتظامیہ بھی روٹین ورک پر چل رہی ہے ۔ایسی گمبھیرصورتحال میں حکمرانوں کے پاؤں مین مہندی لگی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ بہانوں،عذر لنگ کے سہاروں پہ دن دن ٹپا کر ذلت و رسوائی کے خوفناک منظر سے چشم پوشی کر رہی ہے۔

عوام پہلے ہی شدید اضطرابی کیفیت سے دوچار،مہنگائی کا جن سر چڑھ کرزندگی دبوچ رہا ہے اسی پاداش میں پی پی پی کی چھٹی،وہ بھی ایسی کہ ’’یاد رکھے گا زمانہ‘‘ ۔جس آرزو اور تمناسے ’’شیر‘‘ کو قصر سلطنت پر براجماں کیا گیا وہ حسرت نا تمام لئے عوام سے ’’قصاص‘‘ مانگ رہا ہے۔

سارا زور،طاقت اور بھر پور دباؤ بے چارے عوام بھگتنے کے لئے ٹھرے،لیکن یہ کسی صاحب نظر کی ’’نظر‘‘ میں نہ آیا کہ مہنگائی کا منبع کہاں سے پھوٹتا ہے۔ہمارے وطن عزیز کے تمام ادارے جھوم رہے ہیں ،ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ایسی کارگر ثابت ہو رہی ہے کہ جدھر دیکھو ’’اندھرنگری‘‘ نے جالہ بنا رکھا ہے۔پی آئی اے کا روزانہ دس کروڑ روپے کے خسارے بارے کوئی نہیں پوچھتا،ریلوے کی حالت زار ،سٹیل ملز کی نا گفتہ بہ صورت حال،توانائی کا بحران سبھی عوام کے نا کردہ گناھوں سے جوڑنا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟؟؟

ہمارے سرکاری ادارے ہرج مرج کا شکار ہیں،کام چوری ہمارا نقطہ آغاز ،اوپر کی کمائی ہمارا مشغلہ ،فائل ورک ہمارا دھندہ رنگبازی ہمارا شیوہ اور قومی خزانے پر شب خوں مارنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے ۔جب تک تطہیری عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک کسی تبدیلی کا خواب ہڑدنگ جاری رہے گی کیونکہ ایک مخصوص گروہ یا خطرناک مافیا کا دائرہ توڑنا آساں نہیں۔مہنگائی کی پروڈکشن انہی ہی ’’بابوؤں کی مہربانیوں سے ہمیں آج کے دن دیکھنا پڑرہے ہیں۔

میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان بھاری اکثریت سے حق حکمرانی حاصل کر چکے ہیں۔عوام اب کسی لگی لپٹی سے بہلائے نہیں جا سکتے۔خطرناک بات تو یہ ہے کہ عوام کی دکھتی رگوں کا سہارا لینے والے کچھ عناصر اب سے ہی آنکھیں دکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ایسی صورت حال مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ خدشات ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو جمہوری نظام بچانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جامع،موثر اور تیز تر فیصلے کئے جائیں تاکہ بے چینی کی فضاء دور ہو اور عوام محسوس کر یں کہ واقعی ان کا راج چل رہا ہے۔اختتام اس قول سے کہ’’دنیا بد ترین ہوتی جائے گی،برے لوگوں کی وجہ سے نہیں،اچھے لوگوں کی خاموشی سے ‘‘لہذا اچھے لوگوں کو کردار ادا کرنے کی مہلت میسر ہے۔ایسا نہ ہو کہ خاموش لوگ بھی کسی آزمائش میں بہہ نہ جائیں۔
Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.