تحریک طالبان پاکستان کے
مرکزی امیر حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے کی نتیجے میں دنیا سے رخت سفر
باندھنے کے بعد دین و غیرت اور شرم و حیا سے عاری سول سوسائٹی کے ارکان اور
پاکستانی میڈیا کے بعض گنجے دانشور بہت خوش اور مسرور دکھائی دے رہے ہیں .کیونکہ
ان کو یہ خدشات لاحق ہوگئے تھے کہ ؛اگر طالبان اور حکومت پاکستان کے مابین
مذاکرات "جو کہ امریکی حملے کے بعد اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں،، کامیاب
ہوگئے تو پھر ان کے دال روٹی کا کیا بنے گا . لیکن دوسری طرف نگاہ اٹھا کے
دیکھیں تو محسود پر حملے کے بعد ملکی فضاء سوگوار ہے.اور ہر بندہ مضطرب.
کیونکہ مذاکرات کے حوالے سے انکی لگائی گئی امیدیں اب دم توڑتی دکھائی دے
رہی ہے . گوکہ امید پہ دنیا قائم ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تحریک
طالبان پاکستان کی تمام مرکزی قیادت نے جب جب بھی مذاکرات کیئں یا مذکرات
کرنے کے لیئے تیار ہوئے .امریکی ڈرونز کے حملہ کرکے ایسی تمام کوششوں کو
ناکام بنایا. وہ حملہ چاہے سنہ دو ہزار چار کو مشرف دور حکومت میں حکومت کے
ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد کمانڈر نیک محمد پر ہو ، سنہ دوہزارنو کو
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بیت اللہ محسود پر ہو .یا موجودہ نواز حکومت
میں عین مذاکرات کی تیاری کے وقت حکیم اللہ محسود پر . لیکن موجودہ حملہ اس
حوالے سے زیادہ افسوسناک ہے کہ یہ ایک ایسی جمہوری حکومت کے دور اقتدار میں
ہوا جو کہ ایک طرف بھاری مینڈیٹ لینے کا دعویدار ہے ،تو دوسری طرف طرف وہ
خود کو دائے بازو کی جماعت اور ڈرون حملوں کے سخت مخالف کے طور پر پیش کرتی
ہے . لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کا موجودہ کردار انکی انتخابی منشور سے
میل نہیں کھاتی .گوکہ حکیم محسود پر حملے کے بعد حکومت نے امریکہ سے کسی حد
تک احتجاج ضرور کیا ہے . اور علی سطحی اجلاس بھی طلب کیا ہے . لیکن صاف لگ
رہاہے کہ اس اعلی سطحی اجلاس میں بھی وہی پرانی باتیں ذرا نئی انداز
سےدہرائی جائیگی .اور امریکہ کے سامنے دو ٹوک بات کرنے سے ہمارے ارباب
اقتدار قاصر ہی نظر آئینگے. اس لیئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ حکومت کو
کسی بھی درجے میں عوام کی مفاد عزیز ہے. تو پھر ان کو موجودہ روش ترک کرکے
اس حملے سے متعلق امریکہ سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی .اور عسکریت
پسندوں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا .بصورت دیگر امن اہل وطن کے لیئے ایک خواب
بن جائیگا .ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیئے کہ امریکہ نے حکیم اللہ محسود
پر ایک ایسے وقت میں وار کیا کہ جب وہ حکومت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرت
کرکے وطن عزیز میں امن کو دوبارہ لوٹانے کی کوشش کر رہے تھے. ہمارے گنجے
دانشور اور بے لگام سول سوسائٹی لاکھ کہے کہ وہ ایک دہشت گرد تھا ، وطن
دشمن تھا،باغی تھا ، آئین کو نہیں مانتا تھا وغیرہ وغیرہ لیکن سچھ تو یہ ہے
کہ حکمرانوں بالخصوص پرویز مشرف کے ناقص اور وطن دشمن خارجہ و داخلہ
پالیسیوں کی وجہ سے ان میں اور ہم میں فاصلے ضرور پیدا ہوئے تھے .لیکن یہ
ایک اٹل حقیقت ہے .اور تاریخ یہ بات ثابت کردے گی .کہ وہ ایک سچا اور محب
وطن پاکستانی تھا .یہی وجہ رہی کہ جب مذاکرات کا سن کر سازشی عناصر نے
دھماکے شروع کر دیئں .اور گنجے دانشور اپنی دانشوری پر اتر آئے .جس سے
مذاکرات کی ڈور ٹوٹنے لگی تو اس وقت یہی حکیم اللہ محسود ہی تھے جس نے
سامنے آکر اس ٹوٹتی ڈور کو مضبوط گرہ لگائیں .اور حکومت کو یہ پیغام دیا کہ
مذاکرات کے لیئے کوئی پیشگی شرائط نہیں . بس شرط یہ ہے کہ مذاکرات کو میڈیا
سے بچانا ہوگا . ''محسود کی مذاکرات پر امادگی اور مزاکرات کو ہر صورت
بچانا ہی اس بات کی دلیل تھا کہ وہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف ضرور ہے . لیکن
ریاست پاکستان کے خلاف ہرگز نہیں، اس کے برعکس بلوچ عسکریت پسند ہو یا
سندھو دیش کے علمبردار وہ کسی صورت پاکستان کا نام سننا بھی گورا نہیں کرتے
،،. لیکن افسوس کہ ہمارے گنجے دانشوروں اور بے مہار سول سوسائٹی کو یہ سب
نظر نہیں آتا. بہر حال حکومت نے اس کی بات سے اتفاق کیا .اور ہمارے وزیر
داخلہ چوہدری نثار نے دن رات محنت کرکے مذاکرات کے لیئے راستہ ہموار کیا .لیکن
لگ ایسا رہاہے کہ حکومتی سطح پر شائد کسی اور نے چوہدری نثار کا ساتھ نہیں
دیا . اور یہی وجہ رہی کہ جب مذکرات کا میز سجنے کو تھا .امریکہ نے حملہ
کرکے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ غلاموں کی ترجیحات کو زیادہ اہمیت نہیں
دیتا .حالانکہ حملے کے بعد وزیرداخلہ نے خود کہا کہ امریکہ نے یہ یقین
دہانی کرائی تھی کہ وہ دوران مذاکرات ڈرون حملہ نہیں کرے گا .یہاں حکومت سے
دانستہ یا غیر دانستہ یہ ایک بہت بڑی غلطی ضرور ہوئی ہے کہ انہوں نے ماضی
کی طرح ایک بار پھر امریکی وعدوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا تھا . ورنہ
اتنے ہائی لیول پر مذاکرات کرتے وقت پاکستانی حکومت کو کسی بھی سازش سے
نمٹنے کے لیئے پاک فضائیہ کو تیار رکھنا چاہیئے تھا .لیکن بدقسمتی سے اس
طرف کسی کا دھیان یہ نہیں گیا . بہر حال اس افسوسناک واقعے کے بعد بھی
حکومت پاکستان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا .حالانکہ موجودہ مذاکراتی
عمل کے دوران طالبان قیادت پر یہ دوسراحملہ تھا .اس سے پہلے ولی الرحمان کو
نشانہ بناکر امریکہ نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی تھی .
لیکن طالبان نے اس وقت مذاکراتی عمل کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا .لیکن اس
بار طالبان کے لیئے مذاکراتی عمل کو اس وقت تک آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوگا
جب تک کہ حکومت پاکستان امریکہ کے حوالے سے اپنی پالیسی میں ٹھوس تبدیلی
نہیں لاتی .اور مین سمجھتا ہوں کہ عام اور ملکی مفاد کی خاطر حکومت کو جلد
ازجلد یہ قدم اٹھانا ہوگا .بصورت دیگر توانائی بحران،معاشی بحران اور دیگر
بحرانوں سے نمٹنا ناممکن ہوجائیگا بلکہ ملک اور کئی دیگر بحرانوں کا شکار
ہوتا چلاجائیگا .جس کے متحمل ہم پاکستانی عوام بہر حال نہیں ہوسکتے.آخر میں
اس حملے کے حوالے سے یہ ایک شعروزیر اعظم صاحب کی خدمت میں پیش کرتا چلوں
کہ .
ادھر ادھر کی بات نہ کر یہ بتا قافلہ کیوں لٹا ؟
مجھےراہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے ؟ |