راہول گاندھی ---- ڈوبتی کشتی کے ملاح؟

راہول گاندھی گزشتہ چند ہفتوں سے سرگرم عمل توہیں لیکن وہ کیا کررہے ہیں؟ اور کیوں کررہے ہیں؟ شائد اس کا پتہ خو د ان کو بھی نہیں ہے ورنہ ایسا رویہ اختیار نہیں کرتے جو نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ اس سے خود ان کی شبیہہ بگڑ ررہی ہے جو ان کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ اس طرح وہ خود کو ماورائے دستور اور قانون سمجھ کر کبھی کابینہ کے فیصلے کی توہین آمیز مذمت کرتے ہیں تو کبھی بی جے پی پر بے سروپا الزامات عائد کرتے ہیں اور کبھی ظاہر کرتے ہیں کہ انٹلیجنس جیسے حساس اداروں کے افسران ان کو خفیہ رپورٹ پیش کرتے ہیں جبکہ وہ وہ کسی سرکاری یا عوامی عہدے پر فائز نہیں ہیں! نہ ایسا کرنے کو ان کو کوئی حق ہے نہ یہ ان کا فرض ہے۔

ایک طرف بی جے پی بلکہ آر ایس ایس نے ایک انتہائی شاطر، خطرناک اور عیار ہندوتوا کے علمبردار نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بناکر اپنی انتخابی مہم مودی کے سپرد کردی ہے لیکن اس کے مقابلے میں کانگریس اپنے قائدین کی غلطیوں کی وجہ سے خود ہی اپنی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے اور اس معاملہ میں کانگریس کے سب سے بڑے اور اہم قائد مانے جانے والے (حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے) راہول گاندھی (جو وزارت عظمیٰ کے متوقع امیدوار بھی ہیں) ہی سب سے آگے ہیں۔ اس کا فائدہ موقع پرستی کے ذریعہ مودی اور بی جے پی اٹھارہے ہیں۔

راہول گاندھی نے یہ کہہ کر کہ مظفر نگر فسادات کے متاثرین کے کیمپس میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے مندوب (ایجنٹس) فسادات سے متاثر مسلمانوں سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں تاکہ ان کو دہشت گردی کے لئے بھرتی کیا جائے۔ اگر یہ بات راہول کو خود کہتے ہوئے سنانہ جاتا یا راہول کے حوالے سے پڑھانہ جاتا تو اسے سنگھ پریوار کے کسی قائد مثلاً مودی، اڈوانی، تو گاڑیہ کا بیان سمجھا جاتا لیکن افسوس کہ یہ بات نہرو کے نوا سے راجیو گاندھی کے بیٹے یا اندرا گاندھی کے پوتے نے کہہ کر اپنے اندر پوشیدہ ’’نرم ہندوتوا‘‘ کو ’’سخت ہندوتوا‘‘ کے طور پر ظاہر کرکے مسلمانان ہند کی توہین و تحقیر کی ہے اور اپنی مذموم حرکت یا قابل مذمت بیان بازی کے دوران لگتا ہے کہ وہ اپنی سمجھ داری اور دانشوری (جتنی بھی ان کے پاس ہے) کو بالائے طاق رکھ چکے تھے یا ان کے مشیروں میں ہندوتوا کے علمبرداروں کی کثرت ہے جو اپنی فکر اور نظریات کے مطابق مشورے دے رہے ہیں۔ مذکورہ بالا مخالف مسلم بیان سے قبل ان کے دو غیر ذمہ دارانہ بیانات اور رویہ بھی کانگریس کے لئے نقصان دہ بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے اور یہی حال ان کے انتخابی جلسوں اور ریالیز میں کی جانے والی تقاریر کا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی یہ بات ہے راہول کی اس واہیات، بے جواز اور بے بنیاد بیان بازی پر خود ان کی پارٹی میں ان کی سرزنش نہ سہی ان پر تنقید کرنے کی جرأت بھی کسی میں بھی نہیں ہے جبکہ پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی جیسے عظیم المرتبت قائدین پرکانگریس کے قائدین بھی تنقید کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے دوران سنجے گاندھی کی غیر قانونی غیر دستوری حرکتوں کی آج تک مذمت کی جاتی ہے۔ شائد راہول بھی اپنے چاچا سنجے گاندھی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ راہول گاندھی کی ان حرکتوں کے ذمہ دار راہول سے زیادہ وہ کانگریسی قائدین ہیں جن کی قیادت کا انحصار صرف سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کی خوشامد پر ہے۔ کانگریس میں خوشامد کا زور آزادی سے پہلے سے چلاآرہا ہے اور کسی بھی پارٹی سے زیادہ رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے پارٹی کی قیادت موروثی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسی وجہ سے قومی سطح پر نوجوان اور باصلاحیت قائدین میں نہ مسابفت ہے اور نہ ہی آگے بڑھنے کی جرأت ہے لہٰذا راہول جیسے ناتجربہ کار افراد( جن پر قیادت کا بوجھ ان کی صلاحیت، تدبر، اور فراست کا لحاظ کئے بغیر لاددیا گیا ہے سمجھ لیتے ہیں کہ میرؔ صاحب کی طرح ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا ہے‘‘ اسی وجہ سے تدبر اور فراست سے عاری بیان بازی کرنے لگتے ہیں جو نہ صرف ان کی بلکہ کانگریس کی نیاّڈبوسکتی ہے۔

داغدار وزرأ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے حکم کو بے اثر کرنے کے لئے جاری کردہ (کابینہ کے منظور شدہ) اس حکم کی توہین کرکے اپنی غلطی کا اعتراف جس انداز میں کیا وہ فہم و فراست سے بالا تر ہونے کے ساتھ ان کے غرور کی غمازی کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہوگیا ہے کہ خود کو قوانین، دستور اور سیاسیات کے ضوابط سے بالا تر سمجھنے والا فرد اور کیا کرسکتا ہے؟ ان کی بات جتنی صحیح رہی ہو اتنی ہی شائستگی اور اخلاق سے عاری تھی۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے کسی فرد میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان کی سرزنش کرتا! ۔ یہی مرعوبیت اور خود پسندی جمہوریت کو آمریت سے بھی بدتر بنادیتی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی میں نریندر مودی کا بھی یہی حال ہے وہ خود کو بی جے پی کا وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں بلکہ پارٹی کے آمر سمجھ رہے ہیں۔

اپنی ہی حکومت کے فیصلے کے خلاف توہین آمیز رویہ اور حکومت کو اپنے فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کرنے کے بعد عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے تئیں نفسیاتی حربہ (لیکن دراصل گمراہ کن) استعمال کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میری دادی اور والد کو بی جے پی نے مارا تھا وہ مجھے بھی مار ڈالیں گے جبکہ اندرا گاندھی کو ’’سنہری گردوارے‘‘ پر حملہ کی سزا میں سکھوں نے اور سری لنکائی حکومت کی مدد کے خلاف ٹامل ٹائیگر نے راجیو گاندھی کو ہلاک کردیا تھا اور راہول کو ہلاک کرنے کا منصوبہ تو دور ہا کسی نے ان کو ایسی دھمکی نہیں دی ہوگی اور راہول کا وجود تو بی جے پی کے لئے بہت غنیمت ہے۔ راہول کی جہ سے بی جے پی کو مسلمانوں سے ہمدردی دکھانے کا موقع ملا۔ کانگریس پر شدید تنقید کا موقعہ نہ ملتا بی جے پی کو اگر راہول نہ ہوتے! راہول کو دل ہی دل میں سنگھ پریوار اور بی جے پی دعا دیتے ہوں گے کہ راہول ان کا کام آسان بناکر کانگریس کی مٹی پلیڈ کررہے ہیں۔

بی جے پی ہی نہیں بلکہ آزادی کے بعد جب صرف آر ایس ایس اور ہندومہا سبھا ی ہندوفرقہ پرستی کی علمبردار تھیں جن سنگھ کا قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا تب سے ہی ہندوستانی مسلمانوں کو یہ دونوں تنظیمیں ہی نہیں بلکہ چند بڑے قائدین اور نچلی سطح کے بے شمار کانگریسی بھی نہ مسلمانوں کو ملک کا وفادار مانتے تھے نہ ہی وہ مسلمانوں کو اکثریت کے برابر کا درجہ دئیے جانے کے قائل تھے۔ وہ تو مسلمانوں کا دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتے تھے۔ سنگھ اور بی جے پی نے بھی ایسے ہی نظریات اپنائے ۔ راہول گاندھی مسلمانوں کو پاکستان نواز کہہ کر سنگھ پریوار کی راہ پر پہلا قدم رکھ چکے ہیں۔

راہول گاندھی نے مدھیہ پردیش میں یہ بات کہہ کر انتہا پسند، مخالف مسلم ووٹرس کو خوش کرنے کی ایک کوشش ضرور کی ہے لیکن اس طرح راہول نے اترپردیش کے مسلمانوں کو کانگریس سے دور کرلیا ہے یوں بھی 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس کو اپنے ووٹوں سے محروم کردیا ہے۔ ایک خیال یہ تھا کہ اکھلیش اور ملائم کی نااہلی اور مسلمانوں سے بے اعتنائی سے ناراض ہوکر یو پی کے مسلمان کانگریس کی طرف (بھاری تعداد میں نہ سہی قابل لحاظ حدتک) مائل ہوں گے۔ لیکن مدھیہ پردیش اور راجستھان کے ’’ہندوکارڈ‘‘ کی خاطر راہول نے نہ صرف یو پی بلکہ سارے ہندوستان کا ’’مسلم کارڈ‘‘ بڑی حدتک کھودیا۔ توقع تھی کہ اس بیان کے فوری بعد راہول اپنا بیان واپس لے کر معذرت خواہی کریں گے لیکن ان سطور کے قلم بند کئے جانے تک ایسی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔ راہول گاندھی کے مداح اور حمایتی بھی اس سوال کا جواب قطعی نہیں دے سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کے بارے میں راہول کے یہ خیالات ہیں تو وہ کل مسلمانوں سے عدل و انصاف کرتے ہوئے ان کے حقوق کے تحفظ اور حصول کے لئے کیا کریں گے؟ یوں بھی راہول ہوں یا سونیا گاندھی دونوں نے ہی مسلمانون کے لئے شائد ہی کچھ کیا ہو حد تو یہ ہے کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے ان کے خاص مشیر احمد پٹیل نے بھی مسلمانوں کے لئے بظاہر کچھ نہیں کیا ہے۔ بھڑوج (گجرات) میں جو کچھ ہوا اور مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے اس پر بھی احمد پٹیل نے کچھ نہیں کہا (مسلمان صرف اپنے عہدے اور پارٹی کے وفادار ہوتے ہیں مسلمانوں کے نہیں خواہ وہ کل کے مولانا آزاد ہوں یا آج کے سلمان خورشید اور احمد پٹیل)

مودی جیسے شاطر کا مقابلہ راہول گاندھی کس طرح کریں گے؟ جو شخص ایک بیان کے ذریعہ اپنے آپ کو اپنی پارٹی کو، اپنی حکومت کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ ہند۔پاک تعلقات میں تلخی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی کے خلاف ہمارے موقف کو کمزور کردے وہ بی جے پی اور مودی کے حربوں کا مقابلہ کس طرح کرے گا؟ یہ حزنیہ ہے کہ راہول نے مودی جیسے مسلم دشمن کو مسلمانوں سے ہمدردی جتانے کا موقع فراہم کیا۔ انٹلیجنس کی جن رپورٹس کو جھوٹی، من گھڑت اور بے بنیاد کہا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بندکرنے کا مسلمان مطالبہ کررہے ہیں ان کو صحیح اور حقیقی ثابت کرنے کی کوشش کرکے (وہ بھی جھوٹ بے بنیاد اور من گھڑت باتوں کے ذریعہ) راہول نے مسلم دشمنی کی ہے یہ مسلم دشمنی کانگریس کو اسی طرح نقصان پہنچاسکتی ہے جس طرح ماضی میں سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے پہنچایا تھا۔ ابھی انتخابات میں چند ماہ کا عرصہ ہے ۔ کانگریس کے بہتر ہے کہ وہ راہول کی جگہ کسی معقول قائد کا وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے اور اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے منتخب کرے۔ ورنہ راہول گاندھی کانگریس کی ڈوبتی کشتی کے ملاح کی حیثیت سے کانگریس کو بھنور میں پہنچاسکتے ہیں۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.