مچھرانہ گفتگو

آج کل مچھروں کو کسی بات پر راضی کرنا بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ بے چارے کافی مصروف جو ہو چکے ہیں۔ پہلے صرف رات کی ڈیوٹی دیتے تھے مگر اب دن کو بھی اوورٹائم لگاتے ہیں۔ واپڈا کی مہربانیوں کی بدولت بجلی سے محروم بے جبر و کراماں انسان جیسے ہی سپنوں میں جاتا ہے تو عین اْسی وقت یہ بھی اپناراگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دن ہم کسی کام میں مصروف تھے کہ اچانک ایک جادوئی منتر ہمارے کانوں سے جا ٹکرایا۔ غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک مچھر صاحب ہمیں چھیڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے تو ہم نے درگزر کرلیا لیکن پھر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ہم نے آنکھوں پر چشمہ لگایا اور مچھر کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔ اس نے ہمیں بڑا بھگایا لیکن ہم بھی کچھ کم نہ تھے۔ آخر کار مچھر میاں کو پکڑ کر ہی دم لیا اور سامنے میز پر بٹھا کر اْس کے ساتھ ’’مچھرانہ گفتگو‘‘ شروع کر دی۔
ہم۔۔۔ السلام علیکم جناب!
مچھر۔۔۔ وعلیکم السلام برخوردار
(ہم تو سٹپٹا گئے اب ناخن کے برابر حضرت ہمیں برخوردار کہتے ہیں)
ہم۔۔۔ کیسے مزاج ہیں جناب؟
مچھر۔۔۔ واپڈا والوں کی مہربانیوں سے گوشت کافی بڑھ گیا ہے۔۔۔ آپ سناؤ؟
ہم۔۔۔ بس حضرت ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
مچھر۔۔۔ مطلب کہ آپ بھی خون چوسنے کے مشن پر گامزن ہیں۔
ہم(تھوڑا غصے سے) ۔۔۔ حضرت میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں۔
مچھر۔۔۔ اچھا اچھا، معذرت چاہتا ہوں۔
ہم۔۔۔ آپ کا نام کیا ہے؟
مچھر۔۔۔ ویسے تو سب مجھ کو جگنو ماسٹر کہتے ہیں مگر نام ہے ’’شو شو‘‘
(مچھروں کا نام ایسا ہی ہوتا ہے اگر کسی کو شک ہے تو مچھر سے خود ہی پوچھ لے)
ہم۔۔۔ اور آپ کی عمر کیا ہے؟
مچھر۔۔۔ برخوردار یہ عمر والی بات صیغہ راز میں رکھنا۔ویسے میری عمر نو دن ہے۔
(لیجیے جناب!ہمیں برخوردار کہنے والے کی اپنی عمر دیکھ لیں)
ہم۔۔۔ حضرت یہ بتائیں کہ آپ کو سب سے زیادہ کون سی غذا پسند ہے؟
مچھر۔۔۔ ویسے تو ہم بتاتے کسی کو نہیں، البتہ آپ کو بتا دیتے ہیں۔ انسانی خون ہماری مرغوب غذا ہے۔
ہم۔۔۔ آپ صرف خون ہی چوستے رہتے ہیں یا پھر آپ کے کچھ فائدے بھی ہیں؟
مچھر۔۔۔ برخوردار مچھروں کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند عرض کر دیتا ہوں۔ مچھر انسانی جسم میں جمع ہونے والے وافر مقدار خون کو کم کرتا ہے۔ مچھر انسان کو صبر سکھاتا ہے۔ مچھر انسان کو غصے پر کنٹرول کرنا سکھاتا ہے۔ مچھر ملیریا کی صوت میں ڈاکٹر کا کاروبار خوب چمکاتا ہے۔ مچھر ہی کی بدولت میڈیکل اسٹور دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں اور مچھر ہی کی بدولت کئی نئی بیماریاں وجود میں آتی ہیں جس کی وجہ سے ہسپتالوں میں نئے وارڈز کا اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔
ہم۔۔۔ واہ مچھر میاں کیا بات ہے، اچھا یہ بتاؤ کہ مچھر کتنی قسم کے ہوتے ہیں؟
مچھر۔۔۔ یہ کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ کاٹتے ہیں تو ’’ملیریا‘‘ ہو جاتا ہے۔ کسی کے کاٹنے سے ’’لویریا‘‘ ہو جاتا ہے (اس قسم میں مچھروں سے زیادہ مچھریاں خطرناک ثابت ہوتی ہیں) اور کسی کے کاٹنے سے انسان ڈائریکٹ ’’اوپر‘‘ چلا جاتا ہے۔
ہم۔۔۔ اچھا یہ بتائیں کہ نر مچھر کے کاٹنے سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے یا مادہ؟
مچھر۔۔۔ نر کے کاٹنے سے صرف تکلیف ہوتی ہے، جبکہ مادہ مچھر کے کاٹنے سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور ملیریا بھی یعنی مادہ ہر صورت میں باعث تکلیف ہے خواہ وہ شوہر کی جیب کاٹنے (خالی) والی بیوی ہو یا کاٹنے والی مچھری۔
ہم۔۔۔ اچھا حضرت مچھر مارنے کا آسان اور جدید طریقہ ہی بتا دیں۔
مچھر۔۔۔ چینی اور لال مرچ کا مکسچر مچھر کو دیں۔ جیسے ہی وہ واٹر ٹینک کے پاس جائے اُسے دھکا دے دو۔ وہ بھیگ جائے گا اور خود کو ڈرائی کرنے کے لیے آگ کے پاس جائے گا۔ اسی وقت آپ آگ میں بم پھینک دیں۔ وہ بُری طرح زخمی ہو کر ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہو جائے گا۔ وہاں آپ سمپلی اس کا آکسیجن ماسک اُتار دیں مچھر مر جائے گا۔ دوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ مچھر کو پکڑ کر اسے گدگدی کریں، جب وہ ہنسنے لگے تو اس کے منہ میں مچھر مارنے والی دوائی ڈال دیں۔
(سوال تو ہم کر بیٹھے مگر پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ حضرت جواب گول مول ہی دینگے، اس لیے ہم نے بھی اس انٹرویو کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے سوالات کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا ہے)
ہم۔۔۔اچھا یہ بتاؤ تم رات کو لوگوں کی نیند کیوں خراب کرتے ہو؟
مچھر۔۔۔ میں انہیں تہجد پڑھانے کے لیے بیدار کرتا ہوں۔
ہم۔۔۔ اور جو تہجد کے لیے کھڑے ہوتے ہیں انہیں کیوں کاٹتے ہو؟
مچھر۔۔۔ کب انہیں کاٹتا ہوں، میں تو تعظیماً ان کے پاؤں چومتا ہوں۔
ہم۔۔۔ آپ ’’بھیں بھیں‘‘ کیوں کرتے ہیں۔
مچھر۔۔۔ ہمارے بڑے ہمیں جانے سے پہلے ایک جادوئی منتر دے جاتے ہیں۔ خون چوسنے کے بعد ہم اس کا جاپ کرتے ہیں تاکہ آپ جلد از جلد توانا ہوں اور آئندہ پھر ہمارا شکار بن سکیں۔ آپ بھیں بھیں کی جو آواز سنتے ہیں وہ اسی منتر کا جاپ ہوتا ہے۔
ہم۔۔۔ آج کل آپ کونسی ڈیوٹی پر مامور ہیں اور اس ڈیوٹی کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں؟
مچھر۔۔۔ برخوردار!گئے دنوں کی بات ہے ہم صرف خون چوسنے کے کام پر مامور تھے لیکن اب یہ کام تو آپ کے حکمران کرنے لگے ہیں۔ اس لیے اب ہم نئے کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
ہم۔۔۔ پھر بھی آپ زندہ رہنے کے لیے تو کچھ کرتے ہوں گے۔
مچھر۔۔۔ برخوردار رزق تو رب نے لکھا ہے اور بے شک وہی دینے پر صادق ہے اور زندہ رہنے کے لیے تمہارے پڑوسی کے گھر میں رہنے والی مچھرنی سے پیار کرتا ہوں۔
ہم۔۔۔ تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ بھی آپ سے پیار کرتی ہے؟
(اس بات پر جناب زرا سا بگڑ گئے)
مچھر۔۔۔ کہنا کیا چاہتے ہو؟ مجھے دیکھو میں خوبصورت گھبرو جوان نہیں ہوں یا میں طاقتور نہیں ہوں۔
(اب ہم نے غور سے دیکھا تو مناسب سمجھا کہ اس پہلو پر بات نا ہی کی جائے تو بہتر ہے)
ہم۔۔۔ اچھا آپ کا مستقبل کے لیے کیا ارادہ ہے؟
مچھر۔۔۔ ارادہ کیا ہے بس کچھ ہی دنوں میں ہم اپنے مچھروں کا ایک اجلاس بلائیں گے اور اس اجلاس میں دو باتوں پر غور ہوگا۔
(یہ کہہ کر جناب کچھ چُپ ہو گئے مگر ہمارا تجسّس تو بڑھتا ہی جا رہا تھا)
ہم۔۔۔ جناب اگر وہ کوئی راز نہیں ہے تو آپ مجھے بتانا پسند کرینگے؟
مچھر ( سوچوں کی دنیا سے باہر آتے ہوئے )۔۔۔ بے شک برخوردار۔ ایک تو ہم اس بارے میں غور کرینگے کہ ڈینگی مچھر جو ہمارے اور انسانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر رہا ہے اس کا کیا کِیا جائے اور دوسرا آپ کے حکمران جو ہمارے کاروبار پر قابض ہیں ان کے بارے میں کچھ کیا جائے۔
ہم۔۔۔ حکمرانوں کی حد تک تو آپ بجا فرما رہے ہیں مگر جہاں تک ڈینگی مچھر کا معاملہ ہے اس ننھی سی مخلوق نے ایک انوکھا کام بھی کر دکھایا ہے جو بڑے بڑے سورماؤں کے بس کی بات نہیں۔
مچھر (حیرانگی سے)۔۔۔ بھلا ایسا کونسا کارنامہ ہے کہ جس کی بناء پر آپ ڈینگی مچھر کی اتنی تعریفیں کرنے لگے ہیں۔
ہم۔۔۔ وہ کام جو بڑے بڑے عالم نہ کر سکے ایک ڈینگی مچھر نے کر دیا ہے۔ اس نے ماڈرن لڑکیوں کو آدھے آستینوں سے پورے آستینوں، ٹخنے تک شلوار، فُل سائز جرابیں، سر پر سکارف یا پورا دوپٹہ اور فُل گلے تک قمیض پہننے پر مجبور کرکے صحیح معنوں میں پکا مسلمان بنا دیا ہے۔
مچھر۔۔۔ برخوردار اس میں ڈینگی کا کوئی خاص کردار نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہم مچھروں کا ہی کارنامہ ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ڈینگی تو اپنے مخصوص وقت میں ہی ڈیوٹی پر آتا ہے جبکہ ہم ہر وقت ڈیوٹی پر مامور رہ کر خبردار کرتے رہتے ہیں۔ جب ہم نے محسوس کیا کہ سانپ کی ڈسی لاٹھی سے بھی ڈرنے لگی ہیں تو پھر ہم نے ڈینگی مچھر کا بھیس بدل کر آنا شروع کر دیا۔
ہم۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے زیادہ تر مرد ہی کیوں ہلاک ہوتے ہیں؟
مچھر۔۔۔ برخوردار بات یہ ہے کہ میک اَپ سے ڈینگی مچھر خواتین کی طرف مائل ضرور ہوتا ہے مگر اس کے کاٹنے سے زیادہ تر ہلاک مرد ہی ہوتے ہیں۔ ڈینگی کا مرض مچھری کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو صرف خواتین کو ڈراتی ہے اور مردوں کو نشانہ بناتی ہے۔ یہ بڑی رومانٹنگ مچھری ہے۔ خوشبو، میوزک، پھولوں اور صاف پانی کی دلدادہ ہے لیکن خود اس کی شکل کافی مکروہ ہے اور شاید حسن کے بارے میں جاننے کے لیے میک اپ والے چہروں پر حملہ کرتی ہوگی۔ اصل میں ڈینگی مچھری کو خود بھی میک اپ بہت پسند ہے۔ وہ خود بھی میک اپ کرانے پالر جاتی ہے۔ اسی لئے دوسرے مچھروں سے زیادہ حسین لگتی ہے۔ وائٹ نشان میک اپ ہی کا کمال ہے۔برخوردار میں نے آپ کا دل رکھنے کے لیے ڈینگی کی تھوڑی بہت تعریف کر ڈالی،ویسے وہ اس قابل نہیں ہے۔
ہم۔۔۔ اگر آپ کو ڈینگی سے اتنی ہی نفرت ہے تو پھر اسے مارنے کا کوئی آسان سا طریقہ ہی بتا دیں۔
مچھر۔۔۔ ’’ریلی‘‘
ہم (حیرانگی سے)۔۔۔ ریلی؟ مگر وہ کیسے۔۔۔!
مچھر۔۔۔ دیکھیں برخوردار ڈینگی کو ختم کرنے کا آسان طریقہ ریلی ہی ہے۔ ہر گلی، محلے، چوک، سکول، کالج، دفتر اور کمیونٹی سنٹر سے ریلیاں نکالو اور ڈینگی کی مچھری کو اتنا زچ کر دو کہ ان ریلیوں میں لگنے والے نعروں اور بے ہنگم شور کی وجہ سے اس کے اعصاب جواب دے جائیں، بلڈ پریشر تیز ہو جائے، قوت سماعت متاثر ہو جائے، اعضائے رئیسہ غیر رئیسی حرکتوں پر اُتر آئیں، دن کا سکون اور رات کا چین برباد ہو جائے، چڑچڑاپن اس کی تخلیقی اور غیر تخلیقی صلاحیتوں کو بانجھ کر دے اور وہ اس قدر بے بس ہو جائے کہ اسے موسیقی، خوشبو، تازہ پانی، پودوں اور میک اپ سے سجے چہروں کی طرف رغبت نہ رہے۔اگر مزید سخت کارروائی کرنا مقصود ہو تو ریلی کے دوران ایک آدھ ٹائر جلانے، پلے کارڈز کے ڈنڈوں کی مدد سے بند دکانوں کے دروازے بجانے اور اشتہاری بورڈز کو نشانہ بنانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر کار ان اقدامات سے اگر عقل سلیم رکھنے والے انسانوں کو بے بس کیا جا سکتا ہے، حکومتوں کے ہوش ٹھکانے لائے جا سکتے ہیں تو شعور سے عاری مچھری کے ہوش بھی اُڑائے جا سکتے ہیں۔
(حضرت بڑے جوش و خروش میں تھے کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ حیران ہو کر ہم نے جیب میں ہاتھ ڈالاکہ اس وقت کسے ہماری یاد آ گئی لیکن پھر دیکھا کہ مچھر صاحب خود سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ ذرا غور سے عینک لگا کر دیکھا تو جناب کے ہاتھ میں موبائل تھا اور وہ کسی دوسرے مچھر سے باتیں کر رہے تھے اور پھر یکدم ہی میری طرف مخاطب ہو کر بولے)
مچھر ۔۔۔ معاف کرنا برخوردار !مجھے اس وقت ایک ضروری کام پیش آ گیا ہے۔
ہم۔۔۔ حضرت آخر ایسا کونسا ضروری کام ہے کہ آپ نے فوراً ہی اُڑنے کے لیے پَر پھیلا دیئے۔
مچھر۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے مچھروں کی ایک ٹولی نے ’’ڈینگی مچھر‘‘ کو پکڑ لیا ہے۔ وہ انگریز ہے اور سوال و جواب کیلئے مجھے بلایا ہے۔ اچھا برخوردار آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔(خدا حافظ)
 

Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 177103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.