طالبان مذاکرات کا اعلان کرکے امریکی حملے کو ناکام بنا دیں!

ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے سب کچھ طے ہو چکا تھا۔ حکومت کی جانب سے سہ رکنی ثالثی ٹیم طالبان کو مذاکرات کی باقاعدہ دعوت دینے کے لیے شمالی وزیرستان روانہ ہونے والی تھی۔ حکومت اور اپوزیشن کے علاوہ ملک کے مذہبی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی یہ توقع کی جارہی تھی کہ اب جلد ہی مذاکرات کی عملی شکل نکلے گی اور پاکستان میں امن لوٹ آئے گا۔ عسکری ذرائع بھی اس سلسلے میں حکومت کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلا چکے تھے اور انہوں نے حکومت کے ماتحت رہنے اور اس کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ گو کہ چند حلقوں کی طرف سے مذاکرات میں تاخیر پر تنقید بھی منظر عام پر آرہی تھی مگر سبھی اس بات پر پر امید تھے کہ طالبان اور حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں اور بہت جلد ملک دہشت گردی اور بدامنی کی کیفیت سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بھی مثبت اشارے مل رہے تھے ۔ حکومت پر چونکہ بھاری ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات کے ہر پہلو کا بغور جائزہ لے اور ایسے اقدامات اٹھائے جس سے پاکستان کے عوام کی حمایت حاصل ہو اور عالمی سطح پر بھی اعتراض کی کوئی گنجائش نہ نکلے۔ ملکی قانون کی پاسداری بھی ہو اور تمام اداروں کا اعتماد بھی شامل ہو․․․ اس طرح کے معاملات کے پیش نظرحکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کچھ تاخیر ضرور ہورہی تھی۔ مگر اسے بدنیتی ہرگزقرار نہیں دیا جاسکتا البتہ اسے احتیاط اور ذمہ داری کے زمرے میں ضرور شامل کیا جاسکتا ہے۔حکومت مذاکرات میں کس قدر سنجیدہ تھی اس کااظہار اس سے ہوتا ہے کہ حالیہ دورہ امریکہ اور برطانیہ کے موقع پر وزیر اعظم نوازشریف دونوں ممالک کی قیادت کو اس بارے میں پاکستان کی پالیسی اور موقف سے آگاہ کرچکے تھے ۔ اسی طرح وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کو بتا چکے تھے کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے تعاون سے آگے بڑھایا جا رہا ہے اور اس معاملے میں فوج بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز ملک میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ تھی کہ ملکی اور عالمی سطح پر امریکہ پر ڈرون حملے رکوانے کے لئے خوب دباؤ ڈالا گیا۔ اس سلسلے میں پاکستان کوعالمی سطح پر کافی حمایت بھی حاصل ہوئی اور اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی اداروں اورتنظیموں کی جانب سے پاکستان کے موقف کی تائید کی گئی۔ اوبامہ انتظامیہ کو اس سلسلے میں عالمی دباؤ محسوس بھی ہوا ۔ مگر اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے مذاکرات سبوتاژ کرنے کا خدشہ موجود تھا اور مختلف حلقے بارہا اس پرخبردار بھی کرچکے تھے۔

مگروہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ حکومت اور طالبان مذاکرات کے بالکل قریب پہنچے تو خدشات کے عین مطابق امریکہ نے پاکستان کے مطالبے اور کسی بھی عالمی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اکتوبر کے آخری ہفتے میں ڈرون حملوں کا ایک نیاسلسلہ شروع کردیا۔طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت کے امکانات کے پیش نظر حکومت پاکستان کو ان پر بڑی تشویش تھی۔ یکم نومبر کو طالبان کمانڈر حکیم اﷲ محسود اکو اس وقت ڈرون کے ذریعے حملہ کرکے ہلاک کردیا گیا جب ان کی زیر قیادت مذاکرات کی حکومتی پیشکش سے متعلق تحریک طالبان کا ایک اہم اجلاس جاری تھا۔ اس طرح مذاکرات کی فضا جو کافی حد تک ہموار ہوچکی تھی، اس حملے کے نتیجے میں پھر تاریکیوں کی عمیق گہرائیوں میں دھکیلی جاچکی ہے اوراب پاکستان ایک نئی اور ممکنہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہوچکا ہے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حکیم اﷲ محسود پر ہونے والے ڈرون حملے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے موقعے پر جب آزاد ثالثوں کی ٹیم شمالی وزیرستان جا کر طالبان کو مذاکرات کی دعوت دینے والی تھی، یہ حملہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے ۔عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ ثابت ہو گیا امریکا پاکستان میں امن نہیں چاہتا جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ کرکے طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنانا مذاکرات کیلئے دھچکا ہے۔جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیر الدین حقانی کا بھی یہی کہنا تھا کہ امریکہ اور یہودی قوتیں طالبان اور پاکستانی حکومت کو ایک میز پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ مذاکراتی عمل شروع ہونے لگتا ہے اور بیرونی قوتیں بالخصوص امریکہ پیٹھ میں ایسا وار کرتا ہے کہ تمام تر کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان میں ایسے بہت سے عناصر موجود ہیں جو مقامی طور پر ایسے حملے کرتے رہے ہیں جس سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ اس بار حکیم اﷲ مسحود ڈرون حملے سے طالبان کے دل میں حکومت کے خلاف نفرت کے شدید بیج بوئے گئے ہیں۔ مقامی اور ڈرون دونوں طرح کے حملوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ حکومت اور طالبان کبھی قریب نہ آسکیں اور پاکستانی یونہی آپس میں گتھم گتھا رہیں۔ یہاں آگ اور خون کا کھیل جاری رہے اور افواج پاکستان اور حکومت یونہی شدت پسندوں سے الجھی رہے۔اس طرح عالمی سطح پر پاکستان اور طالبان کو بدنام کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہ سکے۔ بہت سے تجزیہ نگار خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد ملک میں دہشت گردی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دوشکار کرنے کے مصداق، امریکی ڈرون حملے نے اگر ایک طرف مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف ملک کے امن کو برباد کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے معصوم شہریوں کے جان ومال کو شدید خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ یہ صورتحال دونوں فریقین سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ امریکی سازشوں کا بھانپتے ہوئے مذاکراتی عمل میں کسی قسم کا تعطل نہ لائیں۔ یہود و ہنود اور صیہونی طاقتیں ہمیں آپس میں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں۔ طالبان کے نئے کمانڈرکو صورتحال کی نزاکت کا خیال رکھنا ہوگا۔ حکیم اﷲ محسود بھی بہت سی مسلح کارروائیوں ، بم دھماکوں اور معصوم افراد کی جان لینے کے بعدآخر میں مذاکرات پر قائل ہوئے تھے۔ طالبان کی نئی قیادت کو چاہئے کہ وہ پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کی ناپاک سازشوں کو بھانپتے ہوئے پہلے ہی سے مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تاکہ ملک کے امن پر جو ڈرون حملہ ہوا ہے ، اس کو ناکابنایا جاسکے اور اگر خدانخواستہ دہشت گردی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا تو یہ طالبان اور پاکستان کی ناکامی جبکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی کامیابی تصور ہوگی۔طالبان کو اس سلسلے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ حکومت اور عسکری قیادت فراخدلی کی مثال پیش کرچکی ہے کہ جب میجر جنرل ثناء اﷲ جیسے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر کی شہادت کے باوجودانہوں نے مذاکرات کا عندیہ دیا تھا اور مذاکرات کی سنجیدہ کوششیں جاری رکھی تھیں۔ طالبان کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی ہی دوراندیشی اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھنے کا اعلان کرے ۔ اگر ایسا ہوجائے تو امریکہ اور ملک دشمن قوتوں کو اس سے بڑی ناکامی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے سلسلے میں باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ میں معاملہ اٹھائے اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کویقینی بنائے کیونکہ ڈرون حملے بھی حکومت پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہیں۔(ختم شد)

Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.