ہمارے ایک سیاسی رہنماء بھلے آدمی ہیں۔اس سے پہلے کہ میں
ان کے کچھ بیانات کی بات کروں آئیے ایک قصہ آپ کے گوش گذار کروں۔ایک رئیس
تھا۔ مال دولت جاگیریں اور وہ سارا کچھ جو رئیسوں کے شایانِ شان ہوتا ہے۔وہ
کہتے ہیں کہ عقلمندوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے اور پیسے والوں کے پاس عقل۔اگر
عقل بھی پیسے والوں کے پاس ہو تو پھر عقلمند تو بھوکے مر جائیں۔اﷲ کی تقسیم
کمال کی ہے اور تدبر اور تفکر کی متقاضی۔خیر ذکر تھا اس رئیس کا جس کے پاس
دولت دنیا بہت تھی بس ذرا عقل کے باب میں ہاتھ تنگ تھا۔ساتھ ہی رئیس کو
لمبی لمبی چھوڑنے کا بھی شوق تھا۔ جو منہ میں آتا کہہ دیتا۔پہلے پہل تو
لوگوں نے برداشت کیا لیکن کب تک ۔اولاََ وہ منہ چھپا کے زیر لب اس کی باتوں
پہ ہنسا کرتے پھر کھل کھلا کے اور آخر میں ٹھٹھہ کرنے لگے۔رئیس نے جب یہ
حالت دیکھی تو ایک سمجھدار اور عقلمند کو اپنی لغویات کی تاویلات کے لئے
ملازم رکھ لیا۔رئیس نے ایک محفل ایک دفعہ اپنے شکار کا قصہ سنایا کہ میں نے
فائر کیا تو گولی ہرن کے سر کو چیرتی ہوئی اس کے کھر سے نکل گئی۔بات سن کے
لوگ ہنسے لگے تو مشیر فوراََ بولا کہ رئیس صاحب نے بالکل درست فرمایا۔میں
اس شکار میں ساتھ تھا۔جب رئیس نے فائر کیا تو ہرن اس وقت کھر سے اپنا سر
کھجا رہا تھا۔مشیر اس سے پہلے اس طرح کے بیسیوں بیانات پہ تاویلیں گھڑ چکا
تھا۔اس بونگی کے بعد اس نے رئیس کے قدموں میں اپنا سر رکھا اور مزید خدمت
سے معذرت طلب کی اور گھر کی راہ لی۔
ذکر تھا ایک سیاسی قائد کا جو طالبان سے مذکرات کی بات کیا کرتے تھے۔ لوگوں
نے شور مچایا کہ حضور طالبان تو آئین پاکستان کو نہیں مانتے۔مشیر فوراََ
بولے نہیں ہمارے قائد کا مطلب تھا کہ جو آئین کو مانتے ہیں۔ پھر آپ نے
ارشاد فرمایا کہ طالبان کو دفتر کھول کے دینا چاہئیے۔لوگ پھر چونکے کہ کیسا
دفتر کہ ان کے دفتر تو ہر شہر کے ہر محلے کی ایک مخصوص مکتبہ فکر کی ہر
مسجد میں کھلے ہیں جہاں ان کی نہ صرف خدمت خاطر کی جاتی ہے بلکہ انہیں ہر
طرح کی تکنیکی معاونت بھی مہیا کی جاتی ہے۔مشیر پھر مدد کو آئے اور ہم جیسے
کم عقلوں کو بتایا کہ ہمارے قائد کا مقصد تھا کہ شہر میں کوئی ایسی جگہ
جہاں امیر المومنین تشریف فرما ہو کے ملحدین اورمشرکین سے مذکرات فرما سکیں
جنہیں وہ پچھلے پانچ سالوں میں گلیوں کوچوں اور بازاروں میں گاجر مولی کی
طرح کاٹ کے پھینک رہے ہیں۔طالبان سے مذکرات قوم کا متفقہ فیصلہ تھا۔اے پی
سی نے بھی یہی رائے دی۔اندر سے آراء مختلف تھیں کہ کچھ کو مذاکرات کی
کامیابی کا یقین تھا جبکہ دوسرے اتمام حجت کے لئے مذاکرات کا ڈول ڈالنا
ضروری سمجھتے تھے۔ہمارے جیسوں کی رائے تو خیر کیا ہونا تھی۔بس یہی دعا تھی
کہ جو بھی ہو پاکستان کی بہتری کے لئے ہو۔
مذاکرات کی بات چلی۔چوہدری نثار اندر ہی اندر کچھ سلسلہ چلا رہے تھے۔قوم کو
انہوں نے مکمل اندھیرے میں رکھا ہوا تھا جبکہ جن کو اندھیرے میں رکھنا
چاہئیے تھا انہیں پل پل کی خبر مل رہی تھی۔علماء پشاور سے شمالی وزیرستان
کی طرف رخت سفر باندھا چاہتے تھے کہ امریکہ نے ڈرون مار کے وہ شاخ ہی کاٹ
دی جس پہ ہم آشیانہ بنانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔حکیم اﷲ محسود مذاکرات کی
بات شروع ہونے سے پہلے کسی ڈرون کا نشانہ بنتا تو جماعت اسلامی کے امیر
جناب منور حسن اسے یوں شہید کہتے ہوئے شاید تھوڑا سا گھبراتے لیکن مذاکرات
کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد اس کا امریکی حملے میں مارا جانا اسکی یقینی
ہلاکت کو مشکوک بنا گیا۔قوم اﷲ جانے متحد کب ہو گی۔اخبارات اب بیانات سے
بھرے پڑے ہیں۔ آدھے کہہ رہے ہیں کہ وہ شہید ہے جبکہ آدھوں کا اصرار ہے کہ
وہ ہلاک ہو گیا۔لڑائی ایک ایسے مسئلے پہ دنیا میں جس کا فیصلہ ممکن ہی نہیں۔
میرے پیارے رئیس معاف کیجئیے قائد اس سے پہلے امریکہ کو دھمکی دے چکے تھے
کہ مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ ہوا تو نیٹو سپلائی روک دینگے۔امریکہ نے
شاید انہیں ہی سبق سکھانے کو جان بوجھ کے نہ صرف ڈرون حملہ کیا بلکہ طالبان
کمانڈر کو بھی مار دیا۔اب قائد صاحب پھر مدد کے لئے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
ہم جیسوں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ حضور نیٹو سپلائی روکنا صوبے کا کام
نہیں کیوں اپنے آپ کو کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں لیکن ان کے حواری ڈانگ سوٹا
لے چڑھ دوڑے تھے کہ جناب ہم یہ سپلائی روک کے دکھائیں گے۔ان نہ جائے رفتن
ہے نہ پائے ماندن آگے گرتے ہیں تو گورنر راج لگتا ہے اور پیچھے گرتے ہیں تو
لوگ متنفر ہوتے ہیں۔لیڈر صاحب پھر مدد کے لئے مشیروں کی طرف دیکھ رہے تھے
کہ ان کی اپنی حکومت کت قانونی ماہرین نے مشورہ دیا کہ آپ یہ سپلائی نہیں
روک سکتے اس لئے ایک قرار داد منظور کر کے بال وفاقی حکومت کی کورٹ میں
پھینک دیں۔سو اب پندرہ دنوں کی ڈیڈ لائن ہے دیکھئے اب کیا گذرتی ہے قطرے پہ
گہر ہونے تک۔
مجھے حکیم اﷲ محسود کے مارے جانے کا قطعاََ کوئی افسوس نہیں۔ اس کی جان قصہ
خوانی بازار کے ان پندرہ بد نصیبوں کی جان سے ہر گز قیمتی نہیں تھی جو اپنے
ایک بھائی کی شادی کا سامان خریدنے قصہ خوانی آئے تھے۔افسوس اس بات کا ہے
کہ اس حملے نے پاکستانی ریاست کی خود مختاری اور آزادی کی قلعی کھول کے رکھ
دی ہے۔ہمیں امریکہ کی وہ رکھیل ثابت کر دیا ہے جو جاگیردار کی مرضی کے بغیر
کسی سے بات تک نہیں کر سکتی۔اسمبلیوں کی قراردادوں اور ڈیڈ لائنوں سے نہیں
،دھرنوں اور مظاہروں سے نہیں یہ کام صرف اس صورت ممکن ہو گا جب آپ کے
لاکھوں ماننے والے ڈنڈے لے کے ہر اس راستے پہ پہرہ دیں گے جہاں سے نیٹو کا
کوئی ایک کنٹینر بھی گذر سکتا ہے۔حکومتیں پالیسیاں اناؤنس کرتی ہیں، انہیں
بناتے عوام ہیں با شعور عوام۔شعور نہ ہو تو گدھے اور انسان میں کوئی فرق
نہیں۔ لیڈروں کو بتایا جائے کہ ہر اس راستے کی نشاندھی کرو جہاں سے نیٹو کے
ٹرک نے گذرنا ہے۔کراچی کے نشتر پارک لاہور کے مال روڈ اور پنڈی کے لیاقت
باغ میں دھرنے دے کے ہم مرے ہوئے لوگوں کو مزید نہ مارو۔حکومتیں معاہدوں سے
پھر نہیں سکتیں کہ وہ بین الاقوامی ضابطوں کی پابند ہوتی ہیں لیکن عوام پہ
اس طرح کی کوئی پابندی نہیں۔ عوام کو جس دن کوئی بتانے والا یہ بتا دے گا
کہ اگر امریکہ کے پاس ڈرون ہیں تو ان ڈرون کو اڑانے کے لئے جو فیول درکار
ہوتا ہے وہ ہمارے گھر سے گذر کے جاتا ہے تو یقین جانئے کہ اس دن کوئی ڈرون
ہماری مرضی کے بغیر نہیں اڑے گا۔ باقی رہی سیاست تو وہ اس ملک میں قبروں پہ
بھی ہوتی ہے۔
وہ وفاقی حکومت بے چاری ڈرون کیا رکوائے گی اور نیٹو سپلائی کیا بند کرے گی
جس کا وزیر داخلہ امریکہ کو تڑیاں لگا رہا ہے اور وزیر خزانہ کشکول لے کے
کولیشن سپورٹ فنڈ کے بقایا ڈالر مانگ رہا ہے۔کاش ان دونوں وزیروں کو کوئی
سمجھا سکتا کہ امریکہ کے پاس ڈرون ہیں تو راستے ہمارے پاس بھی ہیں ۔ہمارے
وطن میں کاروباری تو بہت ہیں لیکن ان ظالموں نے وطن کی جب بھی بولی لگائی
ہے اسے سستا ہی بیچا ہے۔ |