لکھنے لگتا ہوں تو ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔دو دفعہ کالم
شروع کیا لیکن ہمت نہیں پڑی۔مجبوری یہ ہے کہ اظہار بھی ضروری ہے۔گو کہ
ہماری آواز کیا اور ہمارا لکھا کیا لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ دل سے جو بات
نکلتی ہے اثر رکھتی ہے، پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے۔ہو سکتا ہے جو
میں لکھنے جا رہا ہوں صرف میرے خدشات ہوں اﷲ کرے ایسا کچھ نہ ہو۔اﷲ کرے کہ
وہ لوگ جو ملک میں امن عامہ کے ذمہ دار ہیں ان میں سے کسی ایک کی نظر سے یہ
تحریر گذر جائے۔ ہو سکتا ہے مقتدر حلقوں نے خطرے کی بو پہلے ہی سونگھ رکھی
ہو اور انہوں نے اس کے سد باب کے لئے اپنے گھوڑے تیار کر رکھے ہوں۔یہ بھی
ممکن ہے کہ مسجدوں اور امام بارگاہوں میں نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین رضی
اﷲ عنہ کی یاد تازہ کرنے والے خود کو بھی کربلا میں ہی گھرا محسوس کرتے ہوں
کہ یزید وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ نبی ﷺ کا کلمہ پڑھنے والوں کو نیست و
نابود کرنے پہ تلا بیٹھا ہے۔
شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد اب اس میں
تو کوئی شک نہیں رہا کہ امریکہ ہمارے ہاں امن نہیں چاہتا۔یہ بات بھی اظہر
من الشمس ہے کہ پاک فوج کے جرنل اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے لے کے قصہ
خوانی بازار بم دھماکے تک یہ ساری کارستانی ہمارے اسی دوست کی ہے جس کے ہم
دہشت گردی کی جنگ میں سب سے بڑے اتحادی ہیں۔وزیر اعظم دورہ امریکہ سے واپس
آئے تو ان کے ساتھیوں نے یہ نوید سنائی کہ امریکہ طالبان سے مذکرات پہ خوش
ہے اور یہ بھی کہ اب ڈرون حملے بھی آہستہ آہستہ کم ہوتے جائیں گے۔مذکرات کی
تیاریاں ہونے لگیں۔ریاست کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔مذاکرات کے ابتدائی
مرحلے کو خفیہ رکھا گیا۔امریکہ سے بار بار یقین دھانی بھی حاصل کی گئی لیکن
نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔جس دن مذکرات کی ابتداء کے لئے علماء کا وفد
روانہ ہونا تھا۔اسی دن تحریکِ طالبان کے کمانڈر حکیم اﷲ محسود کو امریکہ کے
ڈرون نے نشانہ بنا ڈالا۔
قائد تحریک انصاف عمران خان کا یہ بیان قابل غور ہے کہ امریکہ تو جب چاہتا
حکیم اﷲ کو نشانہ بنا سکتا تھا۔اسے اسی دن کیوں نشانہ بنایا گیا جب کہ
حکومتِ پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیاں مذاکرات شروع ہونے والے
تھے۔میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں کبھی بھی طالبان اور ان کی تحریک کا حامی
نہیں رہا۔میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام بزور شمشیر نہیں عمل اور تبلیغ
ہی سے پھیلتا ہے۔میں رسول اﷲ ﷺ کے اس قول پہ پختہ یقین رکھتا ہوں کہ جس نے
کلمہ پڑھا وہ جنت میں داخل ہوا۔میں آج بھی سارے تکفیری گروپوں کو اس بات کا
ذمہ دار سمجھتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلا رہے ہیں۔میں یہ
بھی سمجھتا ہوں کہ اہل بیت اطہار کی عزت ہر اس شخص پہ واجب ہے جس نے نبیﷺ
کا کلمہ پڑھا ہے اسی طرح میں ان کے صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین کی
عزت اور ناموس کو مسلمانی کی شرط سمجھتا ہوں۔
عمران خان کے طالبان کے ساتھ مذکرات کے طریقہ کار سے اختلاف کے باوجود میں
ان کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ طالبان پاکستانی ہیں اور انہیں
پاکستانی سمجھ کے ہی ان سے مذاکرات کئے جانے چاہییں۔یہ بات بھی درست کہ
طالبان کے سارے گروپ مذاکرات کے حامی نہیں بلکہ ان میں سے کچھ تو ایسے بھی
ہیں جو ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ڈرون تو بھلے ہی امریکہ
نے گرائے ہوں لیکن چرچ پہ حملہ قصہ خوانی بازار میں دھماکے اورآرمی جنرل کی
شہادت میں تو امریکہ کے سپاہی ملوث نہیں۔یہ تو زمین پہ موجود ان کے کارندوں
ہی کی کارستانی ہے۔طالبان کے وہ گروپ جو حکیم اﷲ محسود کی شہادت سے پہلے
مذکرات کے لئے آمادہ تھے یا کم از کم کوئی نرم گوشہ رکھتے تھے ،ان سے بھی
اب کسی نرمی کی توقع رکھنا عبث ہے۔اس حملے کے بعد ان کا غم وغصہ فطری ہے
اور حکومت پہ شک و شبہے کا اظہار بھی سمجھ میں آتا ہے۔طالبان کے ردعمل کی
باریکیاں جاننے والے یہ بات خوب جانتے ہوں گے کہ ان کے بدلے کے بغیر آگے
چلنا نا ممکنات میں سے ہے۔دوسری طرف امریکہ ہے جو ان مذکرات کی کوششوں کو
سبوتاژ کر کے اپنے ارداے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا پہ واضح کر چکا
ہے۔اس سے پاکستان کے دوسرے دشمن بھی شہہ پکڑیں گے۔
آج سے محرم شروع ہو رہا ہے۔ ملک کے طول وعرض میں تمام مکاتب اور مسالک کے
مسلمان کربلا میں نواسہ رسول ﷺ پہ بیتے مظالم اور ان کی سیرت کا ذکر کریں
گے۔ان کے فضائل و مناقب کا تذکرہ ہو گا۔ان کے اسوہ کی بات کی جائے گی۔ہر
مکتبہ فکر کا عالم ان کی سیرت سے اپنے اپنے فرقے کا مطلب نکالے گا۔یہ
تقریریں سن کے ان علماء کے ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں
گے۔مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ریاست کے سارے دشمن متفق ہو کے اس بھس کو
بس ایک تیلی دکھائیں گے اور اس کے بعد جو ہو گا اس کا سوچ ہی کے جھرجھری
آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کے لئے لڑنے والے تمام لوگ کسی بھی
قسم کی دہشت گردی کو روکنے کے لئے تمام ایسے عناصر پہ نظر رکھیں جواس تپے
ہوئے تندور پہ اپنی اپنی روٹی لگانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔امریکہ اور طالبان
کم از کم اس وقت تو ایک ہی صفحے پہ ہیں بھلے مقصد الگ ہو لیکن اس کے ساتھ
ساتھ بھارت اور اسرائیل کے سوراخون کو بند کرنا بھی ضروری ہے اور ان ہاتھوں
کو روکنا بھی جو بڑھائے تو دوستی کے لئے جاتے ہیں لیکن ان کی آستینوں میں
زہر میں بجھے خنجر ہوتے ہیں۔
قوم تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام سے بھی بجا طور پہ یہ توقع رکھتی ہے کہ
وہ کم از کم اب کی بار لوگوں کو نہ صرف اتحاد و اتفاق کی تلقین کریں گے
بلکہ انہیں ممکنہ خطرات سے بھی آگا ہ کرینگے۔اﷲ کریم وطن عزیز پاکستان اور
اس میں رہنے والے تمام لوگوں کی حفاظت فرمائے آمین |