گذشتہ سال خفیہ اداروں کی تحویل
میں ہلاک ہونے والے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سابق سیکرٹری اطلاعات شہید جلیل
ریکی کے والدماما قدیر کی قیادت میں ’’وائس فارمسنگ بلوچ پرسنز‘‘ کا تاریخ
سازلانگ مارچ کراچی کی طرف رواں دواں ہے۔لانگ مارچ کے شرکا سے بلوچستان
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل کی ملاقات اور
اظہار یکجہتی قابل داد ہے۔اگرچہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سردار اختر مینگل نے
گذشتہ سال سپریم کورٹ میں جاکراور پھر عام انتخابات میں حصہ لے کر ایک بڑی
غلطی کی لیکن ماما قدیر اور لانگ مارچ کے دیگر شرکا کی حمایت کرکے سردار
مینگل نے اپنے سیاسی’’گناہوں‘‘ کا کفارہ ادا کر لیاہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جو لانگ مارچ کی جارہی ہے وہ کئی حوالوں سے
تاریخی ہےاور یہ محض ایک شخص اور سیاسی جماعت کے لئے نہیں ہے لہذہ بلوچستان
کی تمام سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس لانگ مارچ میں
شریک ہونا چائیے ۔لانگ مارچ سے ماما قدیر کا نوجوان بیٹا تو واپس نہیں آئے
گا لیکن اس کے باوجود وہ اس تحریک میں اس لئے شامل ہیں کہ بقول ان کے تمام
لاپتہ افراد ان کے بیٹے ہیں اورایک باپ کی حیثیت سے انھیں بخوبی پتہ ہے کہ
اپنا لخت ِجگر کھونا کس قدر تکلیف دہ ہے۔یقیناً ان کی خواہش ہوگی کہ جس
المیے سے وہ خود دوچار ہوئے ہیں کوئی اور والد اس کرب سے نہ گزرے۔
بلوچ قوم پرست جماعتوں اور رہنماوں کے درمیان مختلف امور پر اختلاف ِ رائے
ہوسکتی ہے لیکن لاپتہ افراد کے حوالے سے سب کا موقف ایک ہونا چائیے ۔اس
حوالے سے ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں نے صرف بیان بازی ہی تک اکتفا کیا ہے
جب کہ اگر عملی طور پر کسی نے اس سلسلے میں جدوجہد کی ہے تو وہ لاپتہ افراد
کے عزیز واقارب ہی ہیں جنھوں نے پچھلے کئ سالوں سے اپنی پرامن تحریک جاری
رکھی ہے۔انھوں نے عید سے لے کر چودہ اگست کو پاکستان کی یوم آزادی کے دن ہر
موقع پر اپنا احتجاج ریکارڑ کیا ۔وہ کبھی ہمت ہارے اور نا ہی مایوس ہوئے۔
اس طرح کی مستقل مزاج تحریک کی جدید تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ انھوں نے
اپنے عزیزوں کی بازیابی کے لئے ہر ممکن طرایق بھی آزمائے۔ انھوں نے سپریم
کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا اور ہائی کورٹ میں بھی حاضری دی۔ اسلام آباد،
کراچی اور کوئٹہ میں پریس کلبز کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگائے اور کئ
ہزار دنوں سے جاری اس تحریک میں ایک گملا تک نہیں ٹوٹا لیکن اس کے باوجود
حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔
وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تو پہلے ہی سے اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں
کہ وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے میں یکسر ناکام ہوگئے ہیں۔ جہاں تک ہمیں
یاد پڑتا ہے تو انھوں نے اپنے عہدے کا حلف لینے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ
اگروہ بلوچستان کے حالات بہتر کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں یا اگر انھیں
اختیارات حاصل نہیں ہوں گے تو وہ وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوں گے۔
گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے مختلف جماعتوں اور رہنماوں کا اپنا ایک
منفرد طریقہ ِ احتجاج ہوسکتا ہے لیکن اس وقت قوم پرست وزیر اعلیٰ سے لے کر
سردار اختر مینگل اور ماما قدیر کو جس مسئلے پر بڑی سختی سے آواز بلند کرنے
کی ضرورت ہے وہ ہے’’ تحفظ پاکستان آرڈیننس‘‘ جس کے خلاف بلوچستان کے برعکس
سندھ میں قوم پرستوں نے پہلے ہی سے احتجاج شروع کردیا ہے۔ اس آرڈیننس سے سب
سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوگا کیونکہ اس نئے قانون کے تحت جبری گمشدگیاں
قانونی اعتبار سے جائز ہونگی اور خفیہ اداروں کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ
بلا وارنٹ کہ کسی کو ’’ ملک دشمن‘‘ سرگرمیوں کے پاداش میں گرفتار کریں اور
نوے دن تک عدالت کے سامنے پیش نا کریں۔نوے دن گذرنے کے بعد بھی خفیہ ادارے
مزید وقت طلب کرسکیں گے تاکہ وہ کسی کو اپنی تحویل میں رکھیں۔
اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کے پابند تھے کہ کسی بھی فرد
کو گرفتار کرنے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مجازمجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا
جائےلیکن اس نئے قانون سے جبری گمشدگیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔
افسوس کی بات ہےکہ بلوچستان ہی کے سابق گورنر اور بلوچ وفاقی وزیر برائے
سرحدی امور جنرل عبدالقادر بلوچ اس قانون کے سب سے بڑے حامی بن کر سامنے
آگئے ہیں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا کچھ بھی کرلے وہ یہ قانون
منظور کراکے ہی رئیں گے۔ کسی ایسے بلوچ کی طرف سے یہ بیان دینا جولاپتہ
افراد کے معاملے سے بخوبی واقف ہیں قابل افسوس امر ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ
(ماما)قدیر اور (جنرل )قادر دو مختلف منزلوں کی تلاش میں ہیں۔
جب بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو اس میں’’ وائس فار مسنگ
بلوچ پرسنز‘‘کے چئیرمین نصراللہ بلوچ کے چچا علی اصغر بنگلزئی کا تذکرہ
ضرور ہوتا ہے۔ انھیں لاپتہ ہوئے دس سال ہوچکے ہیں اور ان کے مقدمے کے حوالے
سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ خود جنرل عبدالقادر بلوچ اورجمعیت علمائے اسلام
سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی حافظ حسین احمد اس بات کے چشم دید
گواہ ہیں کہ کوئٹہ میں آئی ایس آئی کے ایک برئیگڈئر نے یہ اعتراف کیا تھا
کہ علی اصغربنگلزئی ان کی تحویل میں زندہ سلامت ہیں اور چند دن تک تفتیش کے
بعد وہ انھیں رہا کردیں گےلیکن تاحال ان کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ بلکہ اب تو
آئی ایس آئی کے اہلکار باقاعدہ یہ کہتے ہیں کہ علی اصغر بنگلزئی ان کی
تحویل ہی میں نہیں ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنرل قادر ان تمام معاملات سے بڑی اچھی واقفیت رکھتے
ہیں اور وہ خود کورکمانڈر کوئٹہ بھی رہ چکے ہیں۔انھیں بہتر پتہ ہوگا کہ فوج
نے آج تک ’’ ملک دشمنی‘‘ کے نام پر صرف اپنے ہی نہتے شہریوں کو اٹھایا اور
اذیتیں دی ہیں۔
اس وقت ہمیں’’ تحفظ پاکستان آرڈیننس‘‘، جس کے جنرل قادر حامی ہیں، ضرورت
نہیں بلکہ ہمیں ان اقدار کی ضرورت ہے جن کے لئے ماما قدیر اور ان کے ساتھی
کراچی کی طرف رختِ سفر باندھے ہوئے ہیں ۔ ماما قدیر کا یہ مطالبہ بالکل
جائز اور عالمی قوانین کے مطابق ہے کہ کسی شہری کو ماروائے عدالت گرفتار نہ
کیا جائےاور نہ ہی فوج و خفیہ اداروں کو اس قدر اختیارات حاصل ہوں کہ وہ
کسی کو جواب طلب تک نہ ہوں۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کو چائیے کہ وہ متنازعہ آرڈیننس واپس لے لیں
کیونکہ یہ ایک غلط اور امتیازی قانون ہےجسے بلوچوں کے خلاف بےجا استعمال
کیا جائے گا۔ اس طرح کے قوانین مغربی ممالک کے لئے تو درست ہیں کیونکہ وہاں
کی پولیس اور انٹیلی جنس پر لوگوں کو اعتبار ہے لیکن پاکستان میں تو یہ
قانون اس لئے بھی تباہ کن ہے کہ سپریم کورٹ اور انسانی حقوق کی کئ عالمی
تنظیموں نے متعدد بار شواہد کے ساتھ پاکستان فوج ، ایف سی اور پولیس کے
مارروائےعدالت کارروائیوں میں ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے ۔اس قانون کے
نفاذ سے ان افراد کی حوصلہ افزائی ہوگی جو اپنےاختیارات کا ناجائز استعمال
کرتے ہیں اور اب یہ قانون ان کے ہر غلط فعل کو تحفظ فراہم کرے گا۔ بلوچستان
کے تناظر میں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چائیے کہ فوج، ایف سی اور پولیس میں
بلوچوں کی نمائندگی نا ہونے کے برابر ہےاور باہر سے آنے والے اہلکار بڑی بے
دردی سے اس قانون کا اطلاق مقامی آبادی پر کریں گے۔ |