شیر کی مہنگائی اور عوام کی دہائی

شہزاد بھٹی

ایسے لگتا ہے کہ انقلاب فرانس جیسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں مگر مغل بادشاہوں کے انداز میں حکمرانی کرنے والوں کو انقلاب فرانس کی دستک نہ سنائی دیتی ہے نہ دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ اُن کی بھی سیٹی گم ہو چکی ہے جو الیکشن مہم کے دوران بڑے جوش و خروش سے نعرے لگاتے تھے ’’دیکھو دیکھو کون آیا؟ ‘‘وجہ صاف ظاہر ہے کہ شیر آ تو گیا ہے مگر اب یہ عالم ہے کہ
شیر کی مہنگائی
عوام کی دوہائی
نے محشر برپا کردیا ہے۔ حکومت کی جانب سے مسلسل گرائے جانے والے مہنگائی بم سے قوم کس طرح بدحال ہے اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ صرف ایک ماہ میں توانائی اور سبزیوں کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کی شرح 9 فیصد سے بھی تجاوز کرگئی۔ ملک میں اشیائے خوراک، توانائی اور کپڑے و جوتوں کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اکتوبر کے دوران مہنگائی کی شرح سال بہ سال 9 فیصد سے بھی تجاوز کرگئی جب کہ ستمبر میں یہ شرح 7.4 فیصد تھی۔ گزشتہ ماہ ٹماٹر 51 فیصد، آلو 44 فیصد اور پیاز کی اوسط قیمتوں میں 31 فیصد اضافہ ریکارڈ کیاگیا جب کہ گندم، آٹے، چائے، چکن، گندم کی مصنوعات، بیکری و کنفیکشنری آئٹمز، ریڈی میڈ فوڈز، دال مسور، مشروبات، بینز کی قیمتیں بھی بڑھیں جس کے نتیجے میں اشیائے خوراک کے اشاریے کا مہنگائی کی شرح بڑھانے میں سب سے زیادہ 3.71 فیصد حصہ رہا، خاص طور پر جلد خراب ہونے والی اشیا کے نرخوں میں اضافے نے مہنگائی بڑھائی۔

مجموعی طور پر اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ساڑھے 9 فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ ہاؤسنگ، پانی بجلی گیس و فیولزکے چارجز میں 9.48 فیصد اضافے کے مہنگائی میں شرح بڑھانے میں 2.42 فیصد اثرات مرتب ہوئے۔ گزشتہ ماہ بجلی کی اوسط قیمتوں میں مجموعی طور پر سال بہ سال 16 فیصد کے قریب اضافہ ہوا، اسی اکتوبر میں جوتے 18.5، اوونی تیار ملبوسات 16، سوتی کپڑے ساڑھے 14، دوپٹہ 13 اور تیار ملبوسات 12 فیصد مہنگے ہوئے جس کے نتیجے میں کپڑے جوتے کا اشاریہ سال بہ سال 14 فیصد بلند ہوا اور اس کا مجموعی مہنگائی میں حصہ 1.06 فیصد رہا، اس کے علاوہ گھریلو مرمتی آلات، صحت ٹرانسپورٹ، کمیونی کیشن تفریحی تعلیمی ہوٹلنگ و دیگر اخراجات میں 3 سے 12فیصد اضافہ ہوا تاہم مہنگائی میں ان کا حصہ محدود رہا۔

اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں افراط زر کی شرح 9.08 فیصد جب کہ جولائی سے اکتوبر تک افراط زر کی اوسط شرح 8.32 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 8.76 فیصد رہی تھی، اس دوران حساس قیمتوں کا اشاریہ 7.64 فیصد سے بڑھ کر 9.80 اور ہول سیل قیمتوں کا اشاریہ 7.58 فیصد سے بڑھ کر 8.31 فیصد پر پہنچ گیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومت قیمتیں بڑھانے میں تو پیش پیش رہتی ہے لیکن جب عالمی سطح پر مہنگائی کا گراف نیچے جاتا ہے تو محض چند پیسے کی کمی کی جاتی ہے۔ حکومت کے اسی طرز عمل پر تاجر رہنماؤں نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کی جانے والی حالیہ کمی قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق کے مترادف ہے۔

خام تیل کی عالمی قیمتیں کم ہو کر96.77 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہیں جس کے تحت پاکستانی روپے میں ڈیزل کی قیمت 95 اور پٹرول کی 93 روپے فی لیٹر ہونی چاہیے جب کہ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں صرف چند پیسوں کی کمی اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جو انتہائی غیر منصفانہ اقدام ہے۔ اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

یکم نومبر سے بھی پٹرولیم کی نئی قیمتیں نافذ کر دی گئی ہیں ۔ نئی شرح کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 48 پیسے، ڈیزل میں 20اور ایچ او بی سی میں 2.67 پیسے کمی کردی گئی ہے۔ قیمتوں میں کمی کے بعد پٹرول کی قیمت 113.24روپے سے 112.76 روپے، ڈیزل 116.95روپے سے 116.75روپے، ایچ او بی سی کی قیمت 143.90روپے سے کم ہو کر 141.23روپے ہو گئی۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 13پیسے کمی کی گئی جس کے بعد مٹی کا تیل 106روپے فی لٹر ہو گیا جبکہ لائٹ ڈیزل کی قیمت 101.24 روپے مقرر کی گئی ہے۔ حکومت نے گزشتہ کچھ عرصہ سے قیمتوں میں ردوبدل کا ایسا طریقہ اختیار کررکھا ہے کہ اگر قیمتیں کم بھی کی جائیں تو عوام پر بوجھ اور مہنگائی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اگر ایک دفعہ چند پیسوں کا ریلیف دیا جاتا ہے تو کئی بار قیمتوں میں اچھا خاصا اضافہ کرلیا جاتا ہے۔ اس وقت عالمی منڈی میں پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں معقول کمی ہوئی ہے لیکن حکومت نے چند پیسوں کی کمی کی ہے جو عوام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ عوامی حلقوں نے کمی کو عوام سے ہاتھ کرنے اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ قیمتوں میں پیسوں کے حساب سے کمی اس لحاظ سے بھی مضحکہ خیز ہے کہ آج بازار میں پیسہ نام کی کسی چیز کا وجود نہیں حتیٰ کہ سٹیٹ بنک نے پیسہ، چونی اور اٹھنی کو نظام زر سے بھی نکال دیا ہے اور بنیادی اکائی روپیہ مقرر کی ہے۔ صرف آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی المعروف اوگرا کی مملکت میں ابھی تک ’’پیسہ‘‘ رواں درواں ہے۔ پٹرولیم کی مصنوعات کا عوامی زندگی بلکہ پوری معیشت کو چلانے میں اہم کردار ہے لیکن حکومت نے پٹرول، ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں مقرر کرتے وقت کبھی اس حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا کہ اضافے کی صورت میں کرائے بڑھیں گے، سفر اور آمدورفت کی شکل میں عام شہری اور طلباء کی جیب پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ اشیائے ضروریہ کی نقل و حمل کے اخراجات بڑھنے سے، ہر چیز کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 94951 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.