ملا ریڈیو ! نیو طالبان چیف

حکیم اﷲ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سابقہ تحریک نفاذ محمدی کے سربراہ مولوی صوفی محمد کے زبردستی بن جانے والے داماد مولوی فضل اﷲ کو جنہیں سوات کے لوگ ریڈیو ملا کے نام سے جانتے ہیں تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر مقرر کر دئیے گئے۔فضل اﷲ سوات آپریشن میں اپنے ہیڈ کوارٹر کی پاک فوج کے ہاتھوں تباہی کے بعد افغانستان کے علاقے نورستان فرار ہو گیا تھا۔شنید ہے کہ اسے وہاں کے طالبان سے زیادہ کرزئی بھارتی اور امریکی ایجنسیوں کی آشیرباد حاصل ہے۔دشمن کا دشمن دوست کے اصول کے تحت یہ ایجنسیاں ملا فضل اﷲ کی قوت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔سوات میں جنرل نیازی کی شہادت میں جہاں امریکہ کے ملوث ہونے کے مستند ثبوت ہیں وہیں یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ امریکہ کے سوات میں زمینی ایجنٹ اسی فضل اﷲ کے ساتھی تھے۔اس دھماکے کے بعد سوات طالبان نے اس کا سہرا بھی اپنے سر باندھا تھا۔

سوچتا ہوں کہ جنرل نیازی کی شہادت اور فضل اﷲ کے طالبان چیف بن جانے کے بعد سردی کے اس موسم میں اپنے اپنے آتشدانوں کے سامنے چلغوزے کھاتے کچھ لوگ شاید دل ہی دل میں اس بات کو سوچ کے افسردہ ہوتے ہوں کہ کاش انہوں نے وقت پہ اس سانپ کا سر کچل دیا ہوتا تو آج قوم کو یہ سنپولیا اژدھا بن کے نہ ملتا۔ مجبوریاں فرد کی ہوں یا ریاست کی اپنا اثر دکھاتی ہیں۔یہی ملا جب لفٹ آپریٹر سے پروموٹ ہو کے تحریک نفاذشریعت محمدی کا کمانڈر بنا تھا تو اس وقت کے سرحد میں ایم ایم اے کی اکرم درانی حکومت بڑھ چڑھ کے اس پہ صدقے واری جا رہی تھی اور سوات کا کمشنر امام ڈھیری یوں حاضر ہوا کرتا تھا جیسے کوئی مرید اپنے پیر کے آستانے پہ حاضر ہوتا ہے۔دیکھنے والوں کی اس وقت بھی اس ملا کی شر انگیزیوں پہ پوری نظر تھی لیکن اس وقت کی حکومت کا نا وقت پیار ہمیشہ اس کی داد رسی کو موجود ہوا کرتا۔

اس وقت بھی مولوی فضل اﷲ شدت پسند مشہور تھا۔ یہ ان لوگوں کا سر خیل تھا جو اپنے علاوہ دنیا کے ہر شخص کو کافر اور مشرک سمجھتے ہیں۔ حکومت کی مجبوری کا یہ عالم تھا کہ حکومت ان کے ہر طرح کے مطالبات ماننے کو تیار تھی لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب ان کے مطالبات حد سے بڑھ گئے جنہیں پورا کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں تھا۔لاچار پاکستانی قوم نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ان سماج مذہب اور ریاست دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کیا جائے۔آپریشن ہوا اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ وہ سوات جس کے ایک چوک کو خونی چوک کا نام دے دیا گیا تھا اور جہاں ہر وقت ا سی فضل اﷲ کے ریڈیو آرڈرز پہ ایک آدھ سر بریدہ لاش لٹکتی رہتی تھی۔ جہاں کے عوام مولوی ریڈیو کی خود ساختہ شریعت کے نفاذ کی وجہ سے خوف و دہشت کا شکار تھے۔وہی سوات جو کسی زمانے میں ملک کے سیاحوں کی جنت ہوا کرتا تھا۔جہاں لوگ اپنی ساری تھکن اور دکھ درد بھلا کے اپنے سواتی میزبانوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھانے آتے تھے۔وہاں کاروبار اور سیاحت کا نام تک مٹ گیا تھا۔ پاک فوج نے لازوال قربانیاں دیں۔ اس کے ہزاروں جوان اور افسر مادر وطن کی آن پہ قربان ہوئے اور ان کی انہی لازوال قربانیوں کی بناء پہ آج وہی سوات دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آیا ہے اور لوگ اپنی مرضی کی زندگی گذار رہے ہیں۔کسی پہ کوئی جبر نہیں۔فضل اﷲ کے امیر طالبان بننے کے بعد خدشات ضرور ہیں لیکن سوات کے لوگوں نے ان بزدلوں کو چونکہ اپنی آنکھوں سے جہنم رسید ہوتے دیکھا ہے۔اس لئے انہیں اپنے آپ پہ بھی یقین ہے اور اپنی ریاست پہ بھی کہ وہ ان خون آشام بھیڑیوں کا دور دوبارہ واپس نہیں آنے دے گی۔

فضل اﷲ کا طالبان کمانڈر بننا میرے خیال میں تو ریاستِ پاکستان کے لئے نیک فال ہے۔وہ یوں کہ شکست خوردہ انسان کبھی بھی دلجمعی سے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اسے پچھلی مار اور شکست کبھی نہیں بھولتی۔ وہ اپنے آپ پہ کبھی یقین نہیں کر پاتا اور یہی احساس اس کی دوبارہ شکست کا باعث بنتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی کہ محسود اپنے مخصوص طرزِ حیات کی بناء پہ کسی دوسرے کی حکمرانی برداشت نہیں کرتے۔ وہ صرف طاقت کو اور طاقتور کو اپنا بڑا مانتے ہیں ۔ جونہی طاقت ککا پلڑا ان کے حق میں ہوگا۔فضل اﷲ خود انہی کا نشانہ بن جائے گا۔فضل اﷲ کا دور حکومت مجھے تو بہت مختصر لگتا ہے۔گو کہ اس کے آقا اور مربی اس کی حفاظت کرنے کی پوری کوشش کرینگے لیکن ہونی کو بھلا کون ٹال سکتا ہے۔یہ ضرور ہے کہ پاکستانی قوم کو کچھ مشکل دن اور برداشت کرنا پڑیں گے لیکن لگتا یوں ہے کہ معملات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔قدرت بھی شاید اب پاکستانی قوم کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ قدرت کا لیکن دستور ہے کہ مدد انہی کی کی جاتی ہے جو اپنی مدد آپ کرنا چاہیں۔طالبان ایک رویہ ہے یہ ایک سوچ ہے۔جب تک اس سوچ اور رویے کے خلاف سوچ اور رویہ نہیں ابھرے گا یہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ پنپتا رہے گا۔

پاکستان کا ہر مسلمان جس کے دل میں ایمان رتی برابر بھی ہے کبھی نفاذ شریعت کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ امریکہ سے نفرت بھی پاکستانیوں کی گھٹی میں ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اپنے سب سے بڑے دشمن کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت پہ بھی ہر پاکستانی امریکہ کو گالیاں دے رہا ہے۔ طالبان کے موقف سے اختلاف شاید ہی کسی کو ہو لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ وہ اٹھارہ کروڑ کے اس ملک میں سے صرف دو لاکھ سے بھی کم لوگوں کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں۔ ملا ریڈیو اور اس کی ریڈیائی لہروں کی چھرے مار شریعت کے مطابق اس ملک میں بسنے والے سارے لوگ تو کافر ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے ایسی شریعت کا نفاذ کون چاہے گا جو پہلے ہلے میں ہی اسے کافر بنا دے۔ طالبان کا فتنہ ختم ہو سکتا ہے اگر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھا ما جائے۔ برداشت پیدا کی جائے۔ تفرقہ بازی سے توبہ کی جائے اور طالبان مخالف روئیے کو فروغ دیا جائے۔جس طرح طابان ایک مقصد کے لئے اکٹھے ہیں اسی طرح ان لوگوں کو بھی اب سیسہ پلائی دیوار بننا ہو گا جو سمجھتے ہیں کہ طالبان حق پہ نہیں۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268827 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More