مذاکرات ،مذاکرات اور صرف ۔۔۔۔۔۔مذاکرات

تاریخ اس بات کی سب سے بڑی شاہد ہے کہ جب بھی کسی جابر حکمران نے کسی قوم کو طاقت کے زور سے صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی تو اسے عبرتناک شکست کا سامناکرناپڑا۔اس کی سب سے بڑی اور واضح مثال جرمنی کے جابر حکمران ہٹلر کی ہے جس نے یہودیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کیلئے ان کے خلاف بہت زور دار تحریک چلائی ۔اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے ان کو جلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ۔ڈھونڈڈھونڈ کر انھیں بے دردی سے قتل کیاگیا ان کے اموال کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا غرض یہ کہ ہر طرح سے ان پر زندگی تنگ کرنے کی کوشش کی گئی مگرپھر بھی دنیا کو فتح کرنے کا عزم لے کر اٹھنے والا یہ مغرور اور طاقت وار حاکم بھی یہودیوں کو ختم نہ کر سکااور شکست کی رسوائی سے نہ بچ سکا۔ہٹلر تو رہتی دنیا تک ایک تاریخ رقم کر گیا اور ایک مثال دے گیا کہ کبھی کسی قوم کو طاقت کے زور پر ختم کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اب کوئی اس بات کو کس طرح لیتا ہے یہ اس پر منحصر ہے۔مگر تاریخ ہمیشہ سے خود کو دہراتی ہے اور طاقت انسان کو مغرور اور ضدی بنا دیتی ہے آج امریکہ بھی ہٹلر کی طرح طاقت کے زور سے اپنی من مانی کرنا چاہ رہا ہے اور ایک طویل عرصے سے مختلف ممالک میں جنگ کی فضاء قائم کئے ہوئے ہے۔اور عجب بات یہ کہ امریکا اس جنگ کے ذریعے امن کا خواہاں ہے اور شاید یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسان وہی پاتاہے جو اس نے بویا ہو۔ جنگ کے ذریعے امن کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہی لگتا ہے۔ ا مریکہ کی ان تمام غلطیوں کا خمیازہ پاکستان سمیت متعدد ممالک کو بھگتنا پڑرہا ہے۔افغانستان میں گذشتہ کئی سالوں کی فوجی کاروائی سے جہاں افغانستان کو بے انتہا نقصان برداشت کرنا پڑ راہا ہے وہاں امریکہ کو بھی شدید مالی بحران نے گھیر لیا ہے اور اگر پاکستان کی بات کریں تو ۹ ستمبر ۲۰۰۱ کے بعد یہاں بھی پے در پے ڈرون حملوں اور دیگر آپریشنز نے پاکستان کو امن سے کوسوں دور لا کھڑا کیا ہے۔ ان حملوں نے امن قائم کرنے کی بجائے پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ جاری و ساری ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔اس وقت پاکستان کا کوئی صوبہ بھی دہشت گردی کی لپیٹ سے باہر نہیں اور یہ سب کچھ امریکہ کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے کہ عوام اور فوج پر طالبان کی طرف سے حملے کئے جا رہے ہیں پاکستان کو اس مقام پر لا کربھی امریکہ ڈرون حملے روکنے کو تیار نہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہے اور ہٹلر کی طرح اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ان حملوں سے طالبان کو ختم کیا جا سکتا ہے مگر حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے ان حملوں سے دہشت گردی اور دہشت گردوں میں تو کوئی کمی نہیں آ رہی مگر اس کی شدت میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے ۔ امریکہ نے ۲ مئی ۲۰۱۱ کو پاکستان کی حدود کی سر عام خلا ف و رزی کی گئی اور امریکن فوج کی طرف سے کاروائی بھی ہوئی جس میں اسامہ بن لادن کو قتل کیا گیا اور یہ سمجھا جانے لگا کہ اس آپریشن سے دہشت گردی کا قلعہ قمع کر دیا گیاہے مگر اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں ہوئی اس آپر یشن کے بعد بھی دہشت گردوں کی جانب سے دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔اور اب یہ دہشت گردی نا سور بنتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ڈرون حملوں میں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کا بھی قتل عام کیا جا رہا ہے۔اس کی وجہ سے دہشت گردوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں کرنل نیازی کی شہادت اورقصہ خوانی بازار جیسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں مگر طاقت کے نشے نے امریکہ کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ اسے یہ تمام واقعات نظر نہیں آتے یا جانتے ہوئے بھی ان واقعات کو اہمیت نہیں دیتا اور اگر آج بھی امریکہ طاقت کے نشے سے نکل کر کھلے ذہن سے سوچے تو لازمی اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس مسلئے کا واحد حل مذاکرات میں ہے اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔پاکستان تو شاید اس بات کو سمجھ چکا ہے اس لئے مذاکرات کی طرف اپنی توجہ مبذول کی ہے مگر امریکہ اب بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے اور پاکستان اور طالبان کے مذاکرات کوکھٹائی میں ڈالنا چاہتا ہے ۔اس لئے چند روز قبل تحریک طالبان کے سر براہ حکیم اﷲ محسود کو ڈرون حملے میں مار کر ان مذاکرات کو سبوتاز کرنے کی بھی کوشش کر چکا ہے اور اس مسلئے کے حل کی بجائے اس کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان اس کے حل کی تلاش میں گامزن ہے۔اسی ناسور کو ختم کرنے کے لئے آل پا رٹیز کانفرنس بھی بلائی گئی اور متعدد پارٹیوں کے سربراہان اور سیاست دانوں کی جانب سے بیانات کا انبار بھی لگایا گیا کہ مذاکرات ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے۔مگر عملی طور پر کچھ خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوئے۔اس لئے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تمام تر کوششیں مذاکرات کو کامیاب کرنے میں لگائیں تا اپنے اس ملک کو جلد از جلددہشت گردی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک کر سکیں اور پاکستان میں امن کا سوہانہ خواب پورا ہو سکے۔
Mubashar Malik
About the Author: Mubashar Malik Read More Articles by Mubashar Malik: 2 Articles with 991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.