وفاقی وزیر پٹرولیم کے وعدے اورگھریلو صارفین کو گیس کی عدم فراہمی

تحریر : محمد اسلم لودھی

وفاقی وزیر پٹرولیم و گیس فرماتے ہیں کہ یکم نومبر سے 31 جنوری تک گیس کی سپلائی پہلے گھریلو صارفین کو دی جائے گی تاکہ وہ خانہ داری کے امور باآسانی انجام دے سکیں باقی ماندہ گیس فیکٹریوں اور سی این جی اسٹیشن کو فراہم کی جائے گی اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سپریم کورٹ میں جائے ۔ یہ پلان وزیر اعظم کی جانب سے بھی منظورہوچکا ہے ۔ایک جانب وفاقی وزیر کا یہ بیان تو دوسری جانب سوئی ناردن گیس کے مینجنگ ڈائریکٹر کا یہ بیان اخبارات کی زینت بن چکا ہے کہ گیس کی قلت کی وجہ سے ہمارے پیش نظر ایسا منصوبہ ہے کہ گھریلو صارفین کو صبح دوپہر اور شام کھانا پکانے کے اوقات کار میں مخصوص وقت کے لیے پورے پریشر کے ساتھ گیس فراہم کی جائے گی اور درمیانی اوقات میں فیکٹریوں اور دیگر صارفین کو سپلائی ہوگی۔ ان دونوں ذمہ داران کے بیانات قابل توجہ اور قابل تعریف ہیں کیونکہ سردیوں کے دنوں میں گیس کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اگر فیکٹریوں اور سی این جی کو سپلائی جاری رکھی جائے تو گھریلو صارفین کے لیے گیس نہیں بچتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہر گھر میں گیس کی عدم فراہمی کی بنا پر زندگی ٗ ہر لمحے اذیت ناک بن جاتی ہے اور سردیوں کے تین مہینے عذاب کا روپ دھار لیتے ہیں بطور خاص یہ صورت حال خواتین کے لیے اور بھی پریشان کن ہے وہ کہاں سے لکڑیاں لائیں وہ کہاں سے 110 روپے فی لیٹر مٹی کے تیل کا اہتمام کریں وہ کہاں سے گیس سمیت سلنڈر خریدیں جس سے خاندان کے تمام افراد کو دن میں تین مرتبہ کھانا فراہم کیا جاسکے ۔ خون جما دینے والی سردیوں میں نہ صرف کھانا پکانا ٗ گھر میں آنے والے مہمانوں کی خاطر مدارت کرنا محال ہوجاتا ہے بلکہ گھر کے در و دیوار بھی سائبریا کا دھار لیتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماؤں کے لیے برف جیسے ٹھنڈے پانی سے برتن دھونا ٗ بچوں کے لیے دودھ گرم کرنا اور خود کو سردموسم سے بچا کر آغوش میں پلنے والے بچے کی صحت کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جاتاہے یہ وہ بے زبان عورتیں ہیں جو اپنے دکھوں اورمصیبتوں پر کسی کے سامنے احتجاج بھی نہیں کرسکتیں اور نہایت خاموشی سے سرد ترین موسم میں بدترین حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔آج جب یہ کالم شائع ہورہا ہے تو 17 نومبر کا دن طلوع ہوچکا ہے اس لمحے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یکم نومبر کا سورج طلوع ہوتے ہی وفاقی وزیر پٹرولیم کے دعوؤں کے برعکس گھریلو صارفین ( بطور خاص جو مین لائن سے کچھ فاصلے پر رہتے ہیں ) کے چولہے یکسر بندہوچکے ہیں تندوروں سے مہنگی روٹی اور سالن خرید کر پیٹ بھرنا پڑرہاہے ۔ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں اپنی بیگم کو یہ خوشخبری سنا رہا تھا کہ مسلم لیگی حکومت گھریلو صارفین کے لیے گیس کی سپلائی جاری رکھ کر اپنے ووٹروں کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا چاہتی ہے لیکن یکم نومبر سے 17 نومبر تک بطور خاص کھانا پکانے کے اوقات میں چولہے اس طرح بند ہوچکے ہیں جیسے کبھی ان میں گیس آئی ہی نہیں تھی ۔اس صورت حال میں بیگم میرے سامنے یہ کہتے ہوئے احتجاج کرتی ہے آپ تو کہہ رہے تھے اس مرتبہ گیس کی سپلائی بند نہیں ہوگی لیکن ابھی تو سردی کا حقیقی معنوں میں آغاز بھی نہیں ہوا اور لوگوں نے ابھی ہیٹر اور گیزر بھی نہیں جلائے تو پھراتنی جلدی یہ گیس کہاں غائب ہو گئی ہے ۔اگرلاہور کے بہترین علاقے گلبرگ تھرڈ مکہ کالونی کی گلی نمبر 8-B( جو سوئی گیس کے مین دفتر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے) میں گیس کی سپلائی جاری نہیں رہی تو پھر مرید کے ٗ وزیر آباد ٗ حافظ آباد ٗ لیہ ٗ بھکر ٗ مظفر گڑھ ٗ خوشاب ٗ شکر گڑھ ٗ بہاولنگر ٗ منچن آباد ٗ دیپالپور اور دیہاتوں کے گھریلو صارفین کو گیس کیسے فراہم کی جاتی ہوگی ۔ سچ پوچھیں تو میں لاجواب ہوجاتا ہوں اور سمجھ نہیں آتی کہ میں وفاقی وزیر کی غلط بیانی پر اسے کوسوں یا سوئی ناردرن گیس کے مینجنگ ڈائریکٹر کے گیس مینجمنٹ پلان پر لعن طعن کروں یا میاں نوازشریف کی بندآنکھوں کو کھولنے کا کوئی راستہ اختیار کروں جو اقتدار پر قابض ہونے کے بعد عوام کے مسائل سے اس قدر غافل ہوچکے ہیں انہیں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ ان کے دور حکومت میں لوگ پہلے سے زیادہ پریشان ہوچکے ہیں ۔ نواز شریف کو اس بات سے کوئی غرض دکھائی نہیں دیتی کہ بین الاقوامی منڈی سے 65 روپے فی لیٹر خریدا جانے والا پٹرول پاکستانی قوم کو ٹیکس درٹیکس لگا کر 113 روپے فی لیٹر فروخت کیوں کیاجارہا ہے روزانہ دو ارب لیٹر پٹرول فروخت ہوتا ہے خود اندازہ لگالیں کہ باقی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کو چھوڑ کر روزانہ پاکستانی قوم کی جیبوں سے 90 ارب روپے نکل کر نہ جانے کس کی جیب میں جارہے ہیں کہ حکومت کا پیٹ پھر بھی نہیں بھرتا ۔ وزیر اعظم کو اس بات کا علم بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت قوم کو مہنگائی کی چکی میں پہلے ہی پیس کے رکھ چکی ہے پھر بھی بجلی کے ماہانہ بلوں میں یکسر آٹھ دس ہزار روپے اضافہ کرکے عوام سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے جبکہ پانچ سو ارب ادا ئیگی کے باوجود بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ جاری ہے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا پہاڑ بھی گرنے کو تیار ہے ۔ وہ روٹی جو پہلے چاراور نان پانچ روپے میں پہلے ملتا تھا اب مسلم لیگی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں سے اسی کاغذ نما روٹی کی قیمت سات اور نان کی قیمت 10 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ پٹرول کی گرانی کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ہر شخص روزانہ ڈیڑھ دو سو روپے خرچ کرکے اپنے دفتر یا کاروبار پر جاتا اور واپس آتا ہے اور جو لوگ یہ خرچ برداشت نہیں کرسکتے وہ گھر کا آرام اور سکون چھوڑ کر فٹ پاتھوں اور پارکوں کے بینچوں پر شبنم بھری راتوں میں لیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔کتنے ہی باپ مہنگائی ٗ تنگ دستی اور بے روزگار ی سے تنگ آکر بچوں سمیت خودکشیاں کرچکے ہیں کتنی ہی مائیں غربت سے نجات حاصل کرنے کے لیے زہر کا پیالہ خوداور بچوں کو پلاکر زندگی سے نجات حاصل کرچکی ہیں ۔حیرت تو اس بات کی ہے کہ وہ نواز شریف جو بھرے جلسوں میں یہ کہاکرتے تھے کہ عوامی مسائل کا حل ہمارے پاس ہے آج اسی نواز شریف نے عوام کو مسائل کی چکی میں پستا اور مرتا ہوا دیکھ کر اپنی آنکھیں اس طرح بند کررکھی ہیں جیسے انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔فیصل آباد کے الیکشن میں ناکامی تو ایک پیغام تھا اب بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگی کارکن اور لیڈر کیا کہہ کر عوام سے ووٹ مانگیں گے اور کیا عوام ایک بار پھر ان جھوٹے سیاسی لیڈروں کے فریب میں آجائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔بہتر ہوگا اگر نواز شریف عوامی مسائل میں ذاتی دلچسپی لے کرانہیں درپیش مسائل سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ کم ازکم سردیوں کے تین مہینوں میں بطور خاص گھریلو صارفین کے لیے گیس کی سپلائی پورے پریشر سے جاری رکھیں ٗ پٹرول کو قیمت خرید پر عوام کو فروخت کریں بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافے کو واپس لیں ۔حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ایرانی گیس کا معاہدہ بھی خطرے میں پڑ چکا ہے جبکہ پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش کے حوالے کوئی کاوش نہ ہونا بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ یہ کیا طرز حکمرانی ہے کیا حکومتیں ایسے چلی جاتی ہیں کہ عوام کو چاروں اطراف سے مسائل کے گرداب میں پھنسا کر موت کی دہلیز پر لاکھڑا کردیاجائے اور خود حکومتی ایوانوں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹتے پھرو ۔حضرت عمر بن خطاب ؓ تو دریائے فرات کے کنارے ایک کتے کے بھوکا مرنے کے خوف سے کانپ جاتے تھے لیکن موجودہ دور میں کتے تو درکنار ہزاروں کے حساب سے انسان بھوکے پیٹ خود کشیاں کرچکے ہیں اور نواز شریف سمیت حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے کسی بااختیار شخص کے کان میں جوں تک نہیں رینگی اور نہ ہی انہیں آخرت میں پوچھ گچھ کا خوف ہے ۔ پیپلز پارٹی کا انجام سب کے سامنے ہے لیکن وہ شیر جو عوام کے کاندھوں پر سوار ہوکر حکومتی ایوانوں میں پہنچا ہے اب اپنے ہی ووٹروں کو نگلنے لگاہے ۔کیا سردیوں میں گھریلو صارفین( جو حکمرانوں کے ووٹربھی ہیں )کو گیس سپلائی کرنا حکومت کا فرض نہیں ہے کیا سرزمین پاکستان سے تیل اور گیس کی تلاش کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کا تعاون حاصل کرنا حکومتی اداروں کا کام نہیں ہے اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تو پھر ایسے نااہل حکمرانوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم کی جانب سے منظور شدہ لوڈ مینجمنٹ پلان کے مطابق صبح تین گھنٹے( صبح 6 بجے سے 9 بجے ) ٗ دوپہر دو گھنٹے ( ایک بجے سے تین بجے تک )اور شام کو پانچ گھنٹے( 4 بجے سے 9 بجے تک ) پورے پریشر سے تمام گھریلو صارفین کو گیس فراہم کرکے باقی گیس فیکٹریوں اورکارخانوں کا فراہم کردی جائے تاکہ برآمدی آرڈر کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں مزید اضافہ نہ ہوسکے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.