نماز اﷲ عزوجل کے قرب و رضا کا
سبب اور وجہ سکوں ہے۔ اس سے مصائب وآلام دور ہوتے ہیں اور رحمت و عافیت کا
نزول ہوتا ہے ۔ نماز آقاے کائنات سرور کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوشنودی
کا ذریعہ ہے اس سے گناہ دُھلتے ہیں او رکردار سنورتے ہیں ۔ حدیث پاک میں
ہے:حضر ت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ: رسول کریم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ: بتاؤ اگر تم لوگوں میں کسی کے دروازے پر نہر ہو
اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہوتو کیا ان کے بدن پر کچھ میل
باقی رہ جائے گا؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا ایسی حالت میں اس کے بدن پر کچھ
بھی میل باقی نہ رہے گا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی
کیفیت ہے پانچوں نمازوں کی ۔ اﷲ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ (انوار
الحدیث ، ص ۱۵۰، مطبوعہ دہلی بحوالہ بخاری و مسلم)
بزرگوں نے نماز کی پابندی کا درس عملی زندگی سے دیا۔حضور مفتی اعظم علامہ
محمد مصطفی رضابریلوی قدس سرہ شریعت پر اتباع کا خاص اہتمام فرماتے ۔
نمازوں کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی احکام پر عمل کی تنبیہ فرماتے بایں وجہ آپ
کی بارگاہ میں حاضر ہو نے والا احکام شرع کا پابند ہوجاتا اور نمازوں کا
اہتمام بھی کرنے لگتا۔
حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے حضور مفتی اعظم قدس سرہ اس سے متصف تھے اور
فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال تھے اور اپنی حیات طیبہ سے
اسی کا درس بھی دیا۔ مولانا قاضی عبدالرحیم بستوی تحریر فرماتے ہیں :’’حضور
مفتی اعظم نور اﷲ مرقدہ کے عالی کردار ، بلند اخلاق ، علمی بصیرت ، جودت
طبع ، حسن حافظہ، خدمت دینی کے واقعات کثرت سے ہیں اور ان امور میں آپ
یگانۂ روز گار تھے فرائض و واجبات، سنن و مستحبات کی محافظت میں نمایاں
خصوصیت کے حامل تھے، اتباع سنت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، خدمت خلق آپ کا
عظیم کارنامہ ہے ۔ ‘‘( ماہنامہ استقامت ڈائجسٹ کا نپور ، مفتی اعظم نمبر
مئی ۱۹۸۳ء ، ص۱۶۷)
تمہیدی گفتگو کے بعد اب ہم اپنے موضوع سے متعلق چند واقعات اور حضور مفتی
اعظم قدس سرہ کی بارگاہ کے فیض یا فتہ علما کے مشاہدات اختصاراً پیش کرتے
ہیں ۔ یوں تو اس سلسلے کے مضامین کثیر ہیں لیکن چند پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے
۔
بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی لکھتے ہیں: ’’آخری اوقات میں جب ضعف و
نقاہت میں بے حداضافہ ہوگیا تھا اور بیٹھے رہنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی ۔
یہ دیکھا گیا کہ مسجد میں جب تک بیٹھے ہیں مسلسل کراہ رہے ہیں ۔ اٹھتے ہیں
تو سہارا دیا جاتا ہے۔ بیٹھتے ہیں توسہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چلتے ہیں تو
لوگ دونوں طرف سے سنبھالے رہتے ہیں ۔ لیکن جیسے ہی تکبیر شروع ہوئی ایسی
چستی کے ساتھ کھڑے ہوجاتے جیسے کوئی تکلیف ہی نہ ہو۔ پوری نماز قیام ورکوع
کے ساتھ نہایت تندہی اور مستعدی کے ساتھ اداکرتے اور اف تک کی صدا لب تک نہ
آئی ۔ جیسے قیام و قعود اور رکوع و سجود کی مشقتیں خشیت الٰہی اور خوف
ربانی میں تحلیل ہوگئی ہوں۔ ‘‘ ( ایضاً ، ص ۶۷)
راقم کے مرشد گرامی علامہ اختر رضا خاں قادری ازہری مدظلہ العالی لکھتے ہیں
کہ : ’’ بارہا ایسا ہوا کہ نماز کے لئے ٹرین چھوڑ دی حتیٰ کہ اخیر وقت میں
وصال سے چند گھنٹے قبل بھی نماز کا خیال رکھا اور سردی کے موسم میں باقاعدہ
وضو کرکے کھڑے ہو کر نماز مغرب ادا کی ۔‘‘ ( ایضاً ، ص ۱۹۴)
وضو میں حضور مفتی اعظم قدس سرہ کے اہتمام اور احتیاط سے متعلق علامہ محمد
عبدالمبین نعمانی قادری مصباحی رقم فرماتے ہیں : ’’ سیدی حضرت مفتی اعظم
قدس سرہ کو دیکھا گیا کہ سخت سردیوں میں بھی وضو بناتے ، جبکہ بڑھاپے کے اس
عالم میں بہت سے لوگ وضو کی ہمت نہیں کرتے ، حتیٰ کہ ایک بار پاؤں میں آپر
یشن ہوا جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے پیر پرپانی ڈالنے سے منع کردیا، کہ نقصان کا
خطرہ ہے ، مگر آپ نے تیمم نہ کرتے ہوئے وضو فرمایا ، اور تکلیف کی شدت کے
باوجود آپ نے کھڑے ہو کر ہی نماز ادا فرمائی۔ یہ محض عزیمت اور استقامت کی
بات تھی جو کرامت پرفوقیت رکھتی ہے ۔
جن ایام میں حضرت صاحبِ فراش تھے ا ور کبھی استغراقی کیفیت بھی رہا کرتی
نقاہت اس قدر تھی کہ بیٹھنا دشوار تھا ، لیکن جب نماز کا وقت آتا فوراً اٹھ
بیٹھتے اور وضو کرتے او رنماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ، اس نقاہت کے عالم میں
بھی جماعت کے لئے دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں حاضری دیتے اور انہیں ایام
میں ایسا کئی بار ہوا کہ نماز کے بعد کچھ ہی وقفہ گزرا فرمایا ، وضو کروں
گا، انتہائی نقاہت کی وجہ سے خدام عرض کرتے ، حضرت ابھی تو نماز پڑھی ہے اب
آرام فرمائیں لیکن فرماتے میں وضوکروں گا، نماز پڑھوں گا،
اس طرح بہت بار ہوا کہ ایک ہی نماز کئی کئی بار پڑھی ہاں اس وقت بھی ایسا
کبھی نہ ہوا کہ کوئی نماز بھول کر چھوڑدی ہویا وقت گزرنے کے بعد ادا فرمائی
ہو۔
ایک مرتبہ نماز عصر جارہی تھی او ربس رکتی نہیں تھی اچانک بس ایک جگہ رکی
کچھ دوری پر پانی تھا حضرت فوراً اترے پانی کی تلاش میں کچھ دور گئے ۔ وضو
بنا یا اورنماز ادا کی او ربس چھوٹ گئی مگر نماز نہ چھوڑی او رپیشانی پر بل
تک نہ آیا، جبکہ نماز کے جانے کا بہت خوف تھا ۔ بار بار فرماتے ، ہائے رے
میری نماز ، ہائے رے میری عصر ۔
انتقال کی شب جب کہ کئی روز سے حضرت نے کھانا تناول نہیں فرمایا تھا لوگوں
نے بہت اصرار کیا کہ حضرت کچھ کھانا تناول فرمالیں ، لیکن ہر بار انکار ہی
کرتے رہے آخر میں مولانا عبدالہادی افریقی نے فرمایا حضرت تھوڑا سا کھالیں
نماز کی طاقت آجائے گی ، تو حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ نماز کی طاقت آجائے
گی تو کھالوں گا۔ ‘‘ (برکات نماز، مطبوعہ چریا کوٹ ۲۰۰۴ء ، ص ۴۲۔۴۳)
خلق کا ہجوم ہوتا ۔ تعویذ طلب کرنے والوں کو تعویذ عنایت فرماتے ساتھ ہی
نمازوں کی پابندی کی تعلیم فرماتے۔ جنہیں وظائف بتاتے انہیں حکم فرماتے کہ
فلاں نماز کے بعد پڑھنا اور پھر وہ نمازوں کا پابند ہو کررہ جاتا اس طرح
حضور مفتی اعظم قدس سرہ تعویذ نویسی کے ذریعہ لوگوں کو نماز کی طرف راغب
فرمادیتے ۔
محبوبان خدا کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اﷲ اﷲ ایک موقع پر ہوائی
جہاز سے سفر کو مفید فرمایا اس میں بھی نماز کی ادائیگی کا پہلو پیش نظر
تھا ۔ ایک مرتبہ اجمیر شریف سے بمبئی آناتھا ۔ تبلیغ و اشاعت دین کے اسفار
جاری تھے ۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہ اپنے محبین کے ہمراہ اجمیر شریف سے جے
پور آئے اور نیاز مندوں کی عرض پر جے پور سے بذریعہ ہوائی جہاز بمبئی پہنچے
،مولانا منصور علی خاں قادری تحریر فرماتے ہیں: ’’ سرکار مفتی اعظم ہند کا
یہ پہلا ہوائی سفر تھا ۔ جے پور سے بمبئی تک کافاصلہ تقریباً ایک گھنٹہ میں
طے ہوا ۔پہلے کی اطلاع کے بموجب طیران گاہ پر احباب موجود تھے ۔ کار کے
ذریعہ شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت اس وقت بے حد مسرور اور شاداں تھے
فرمایا: ہوائی جہاز کا سفر بہت اچھا سفر ہے اس کی وجہ آپ لوگ بیان کیجئے ۔
اس وقت جو نیاز مند کار میں ہمراہ تھے ان میں سے کسی نے کہا اچھا سفر ہے اس
لئے کہ بہت آرام دہ ہے ۔ کسی نے عرض کیا کہ وقت کم لگتا ہے ۔ اور اسی طرح
لوگوں نے عرض کیا۔ حضرت نے تمام کے جوابات سماعت فرمائے اور پھر فرمایا کہ
ہوائی جہاز کا سفر اچھا سفر ہے اس لئے کہ اس سفر میں نمازیں قضا نہیں ہوتیں
۔ جے پور سے فجر ادا کرنے کے چار گھنٹے بعد چلے اور بمبئی آگئے ۔ ابھی ظہر
کا وقت شروع ہونے میں ایک گھنٹہ ہے ۔ تمام کی زبان سے سبحان اﷲ کی صدا بلند
ہوئی ۔ یہ ہیں اﷲ والے جن کی خوشی اور مسرت کی وجہ بھی دینی کا م ہے
۔‘‘(ماہنامہ استقامت ڈائجسٹ کانپور ، مفتی اعظم نمبر مئی ۱۹۸۳ء ،ص ۴۴۳)
نماز زندگی کو پاکیزہ بنا دیتی ہے ۔ عمر کفایت نہیں کرسکتی آن کی آن میں
تندرست و توانا انسان موت کی منزل میں پہنچ جاتا ہے لہٰذا خیالات و احساسات
یہ نہیں ہونے چاہئیں کہ اخیر عمر میں عبادت کرلیں گے اور نمازوں کے پابند
ہولیں گے بلکہ حضور مفتی اعظم قدس سرہ کایہ پیغام مژگاں پر سجالینا چاہئے
کہ
ریاضت کے یہی دن ہیں بڑھاپے میں کہاں ہمت
جو کچھ کرنا ہو اب کرلو ابھی نوریؔ جواں تم ہو |