پنڈی اداس ہے

یوم عاشور پہ جو کچھ ہوا یہ سازش نہیں عدم برداشت اور انتظامی نا اہلی ہے۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈال میں بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔یومِ عاشور پہ اہل تشیع کا جلوس اسی راستے سے گذرتا ہے جس سے اس نے اس بار گذرنا تھا۔ہمیں مدرسہ تعلیم القرآن کے منتظمین کے مسلک کی بھی اچھی طرح خبر ہے۔ راجہ بازار کے عام ریڑھی والے کو بھی خبر تھی کہ یوم ِ عاشور اور جمعہ اکٹھے آ رہے ہیں۔مدرسہ تعلیم القرآن کے نمازی اس سڑک پہ صفیں بچھا کے نماز ادا کرتے ہیں جہاں سے جلوس نے گذرنا تھا۔ جمعے کا وقت اور جلوس کے گذرنے کا ایک ہی وقت تھا۔ اس کے بعد کیا تصادم کے خطرے کے لئے کسی وحی نے اترنا تھا۔ ذاکرین اور علماء سے کسی برداشت کی امید اور درخواست تو نقش برا ٓب ہی ثابت ہوتی لیکن پنڈی کی انتظامیہ کیا ستو پی کے سو گئی تھی۔

شیخ رشید نے بھی بڑے ٹھسے سے پریس کانفرنس فرمائی۔ کیا وہ پنڈی کا فرزند ہونے کے دعویدار نہیں۔کیا یہ ان کا اپنا حلقہ نہیں تھا۔ کیا لال حویلی اور راجہ بازار میں میلوں کا فاصلہ ہے۔ کیا واقعی انہیں خبر نہیں تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ اب انہوں نے کتنی آسانی سے اس واقعہ کو سازش کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٓگ لگانے والے چہرے انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ یہ سب مقامی لوگ تھے۔ دونوں طرف سے اور ان کو راہ دکھانے والے بھی۔ یہ طالبانی سوچ ہے دونوں طرف سے۔ یہ طاقت کا اظہار ہے۔ جو اکثریت میں ہے اس نے اقلیت سے جینے کا حق چھیننا ہے۔ کیا پٹرول اور آگ کے ملاپ کے اس موقع پہ شیخ صاحب کو وہاں نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ کیا اس حلقے کا رکن صوبائی اسمبلی اپنی ذمہ داری سے واقف تھا۔ کیا اسے خبر تھی کہ اس کے حلقے میں کیا ہونے جا رہا ہے۔کیا اس نے وقت سے پہلے انتظامیہ کو الرٹ کر دیا تھا۔اگر ایسا نہیں تھا اور یقیناََ نہیں تھا تو کیا یہ دونوں عوامی نمائیندے اس واقعے کے ذمہ دار نہیں۔کیا یہ عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر سکے۔ کیا ایسے لوگوں کو عوامی نمائندہ ہونے کا حق ہے۔عوامی نمائندوں کا ہاتھ تو اپنے حلقے کے عوام کی نبض پہ ہونا چاہئیے۔ یہاں تو دونوں اطراف کی سوچ سورج کی طرح عیاں تھی تو پھر اسکا سد باب کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔

ہمارے علماء و ذاکرین آخر کس دین کے پیروکار ہیں۔ انسانی جان جسے اﷲ کریم نے انتہائی قیمتی قرار دیا ہے۔ذاکرین اپنے ماننے والوں کو حضرت امامِ حسین رضی اﷲ عنہ کی کس سیرت کا درس دیتے ہیں۔ جنہوں نے جنگ سے بچنے کے لئے آخر وقت تک کوشش کی کہ امت مسلم میں افتراق و انتشار پیدا نہ ہو۔انہوں نے اس وقت تک تلوار نہیں اٹھائی جب تک انہیں اس پہ مجبور نہیں کر دیا گیا۔انہوں نے اپنے موقف کا کھلم کھلا اظہار کیا۔انہوں نے اپنے نانا ﷺکے دین میں شامل ہونے والی کثافتوں پہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن اس کے لئے ا نہوں نے ا مت کو جنگ و جدل کی طرف مائل نہیں کیا۔وہ تو ساری زندگی امن کے داعی رہے اور آپ ۔۔۔آپ کو جونہی ذرا سی عددی برتری حاصل ہوئی آپ نے ایک ایسی آگ لگوا دی جو اب نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل کرے گی۔

ہمارے علماء خود کو یہ بات باور کیوں نہیں کراتے کہ امت میں تفرقہ پیدا کر کے وہ اﷲ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں اور کل انہیں اﷲ کی بارگاہ میں بھی پیش ہونا ہے۔کل انہیں نبی اکرم ﷺ کے سامنے کیسی شرمندگی ہو گی جب ان کی نیتیں ان کے سامنے مجسم ہو کے آئیں گی۔امت مسلم اس بات پہ متفق و متحد و متفق ہے کہ یزید نے گلشن ِ رسالت کو اجاڑنے کا قبیح فعل انجام دیا۔ اس کی فوج نے اہل بیت کے معصوم بچوں کو بھی کرب و بلا کے صحرا میں پیاسا رکھا۔اس نے دین کے ساتھ جو کچھ کیا اسے بھلا بھی دیا جائے تو بھی کیا محبت مصطفےٰ ﷺ اس بات کی متقاضی نہیں کہ یزید کے باب میں تعریفوں کے پل باندھتے احتیاط کی جائے۔اور پھر یہ حب علی رضی اﷲ عنہ میں ہوتا تو بھی قابل برداشت تھا یہ سب تو بغضِ معاویہ رضی اﷲ عنہ میں ہے۔آپ کو یزید سے پیار نہیں بلکہ آپ تو اپنے مخالفین کو جلانے کے لئے یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ہے۔کیا یہ رویہ آپ کو اس اندوہناک سانحے کا ذمہ دار نہیں بنتا۔ کیا آپ ان معصوم روحوں کو جو آپ کی سفاکی کی بھینٹ چڑھ گئیں کا سامنا کر پائیں گے۔

یہ سب نوشتہ دیوار تھا۔بچے بچے کی زبان پہ وقت سے پہلے خدشات تھے تو کیا شہر کے حکمرانوں اور انتظامیہ کو اس سے بری الذمہ قرار دیا جائے۔ کیا وفاقی وزیر داخلہ جو خود اس علاقے کے معاملات سے خوب واقف ہیں۔ کیا انہوں نے وقت سے پہلے پنڈی کی انتظامیہ کو کوئی گائیڈ لائن دی۔ کیا رانا ثناء اﷲ جو دنیا جہاں کے نان ایشوز میں ٹانگ اڑانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ کیا ہمارے سمارٹ وزیر اعلیٰ کو کسی نے خبر دی کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں۔ کیا وہ ایجنسیاں جو لوگوں کے محسوسات اور جذبات کو اربابِ اقتدار تک پہنچانے کا بھتہ وصول کرتی ہیں،انہوں نے اپنا فریضہ ایمانداری سے انجام دیا۔کیا پنڈی کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور پولیس چیف نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔کیا انہیں خبر نہیں تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور اسے کس طرح روکا جا سکتا ہے؟

جو ہوا وہ ہو گیا۔اسے واپس نہیں لایا جا سکتا لیکن آئندہ کے لئے اس طرح کے واقعات کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ انصاف کیا جائے۔ کھرا اور بے رحم انصاف۔ جو بھی مجرم ہو اسے سزا دی جائے۔نمائندے اپنی ذمہ داری سمجھیں۔علماء اور ذاکرین سے سوائے اس کے کوئی درخواست کرنا فضول ہے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور لوگوں کے درمیان نفرت کے بیج بونا بند کریں۔پاکستانی عوام میں بہت تیزی سے یہ تائثر ابھر رہا ہے کہ مسجدوں کے امام حکومت کو مقرر کرنے چاہییں تاکہ فرقہ وارانہ منافرت کم ہو۔ایک عدالتی کمیشن یہ فیصلہ کرے کہ کون اس سانحے کا ذمہ دار ہے؟پھر جو ذمہ دار ثابت ہو اسے اب کی بار واقعی اس کے انجام تک پہنچایا جائے۔آخری درخواست عوام سے کہ خدا را اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ جان دینا آسان ہے لیکن اس کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس سے اﷲ کی پناہ۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی سر بلندی کے لئے جان دینا اعزاز ہے لیکن کسی ان پڑھ اور جاہل آدمی کے پیچھے لگ کے جان دینا کفرانِ نعمت ہی کہلائے گا۔ اﷲ کریم ہمارے حال پہ رحم کرے ۔ آمین
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 292000 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More