کیاہمیں ’یزید‘سے نجات مل گئی؟

کفر پر اسلام کی فتح اور اسلام پرجان قربان کر دینے کا مثالی دن گذر گیا ۔حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی لازوال شہادت کا دن گذر گیا ۔ماہ محرم میں پیش آنے والے اس اندوہ ناک واقعے کادن گذر گیا۔جام شہادت نوش کر کے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی تلقین کادن چلا گیا مگر اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا جنھیں آج کے حالات میں سلگتی چتا کہہ سکتے ہیں جو شعلہ بنتی ہے نہ جل کر دھواں ہوتی ہے۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اب قافلہ حجاز میں کوئی حسین نہیں ہے جو منہ زور کفر کا غرورمٹادے؟آج عربستان سے لے کر ہندوستان تک مسلمانوں کا خون سڑکوں پر بہتا ہے ۔ان کی لاشیں بے گور کفن پڑی رہتی ہیں ۔آج حالات اس قدر شہہ زور ہو گئے ہیں کہ عام آدمی ان کے نرغے میں پوری طرح پھنسا ہوا ہے ۔کہیں کسی نہ دیدہ خطرے نے اس کی نیندیں اڑا رکھی ہیں تو کہیں کسی انجانے حملے نے اس کا اکیلے چلنا مشکل کر دیاہے ۔اس کے علاوہ اس کے معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ کہیں قرض اسے ماررہا ہے تو کہیں مہنگا ئی اس کی جان لے رہی ہے ۔ حالات نہ اس کے لیے ساز گار ہیں اورنہ ماحول مناسب۔آج چاروں طرف یزیدوں کا ہی سکہ چل رہاہے دولت اور مال ان کے گھروں کی لونڈیاں ہیں ․․․․․یہ سلسلہ جاری ہے اور آئے دن اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ہر دن کوئی نہ کوئی ’یزید‘بن رہاہے مگر اس کا مقابلہ کر نے والا کوئی ’حسین ‘ نہیں ہے جوان حالات کا رخ موڑ دے ۔

دوسرا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیاواقعی آج ہمیں ’یزید ‘سے پوری طرح نجات مل گئی؟کیا ابھی بھی یزیدی افکار ہم پر عرصۂ حیات تنگ نہیں کر رہے ہیں؟کیا آج بھی ہمارے دانہ پانی ،آب و ہوا ،ہماری عزت نفس اور ہمارے وقار پر سازشاً حملے نہیں کیے جاتے ؟ کیا ہمارے قلم ،افکار اور احساسات آزاد ہیں ؟یہ اور ان جیسے متعدد سلگتے سوالات ہیں جنھیں آج ہر وہ شخص پوچھ رہا ہے جو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شجاعت اور حق کی خاطر قربانی سے واقف ہے۔وہ پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا یہ حالات ہم پر سدا رہیں گے ؟ کیاکبھی یہ بدلیں گے نہیں ؟ ہمیں کبھی ان سے نجات نہیں مل سکتی؟اگر ملے گی بھی تو آخر کب؟کیا اب کوئی حسین نہیں آئے گا؟کیا یہ قافلہ ایسے یزیدیوں کے ہاتھوں لٹتا رہے گا؟

سوال کر نے والوں کے سولات بجا ہیں کیونکہ آج تصویر کاینات میں سوائے خون،آگ ،دھواں اور کٹے پٹے انسانی اعضا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔بیرونی دنیا کا ذکر تو رہنے دیجیے خود مادروطن ہندوستان میں اتر پردیش ،مہاراشٹرا،گجرات ،راجستھان ، دہلی اور دیگر علاقوں میں مسلمان آئے دن کسی نہ کسی قیامت صغراسے دوچار ہوتے ہیں ۔ان حالات نے ہمارے ہر دن کو’یوم عاشورہ‘اور ہر مقام کو ’کر بلا‘بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ہمارے وقتوں کے ’یزید‘جوکانگریس ، بی جے پی،سماج وادی پارٹی،بہوجن سماج پارٹی اور دیگر پارٹیوں کی شکل میں موجود ہیں روز ہم پر کوئی نہ کوئی مصیبت نازل کرتے رہتے ہیں ۔تعجب خیز امرتو یہ ہے کہ ہمارے ہی کچھ ایمان فروش مسلمان بھائی ان ’یزیدوں‘ کا ساتھ دے کر ملت کا سودا کرتے ہیں اور ان کی تعریف کر کے انھیں ملک اور مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد کہتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں ریڈیو اورٹی وی چینلوں پر شائع ہونے والی اس خبر نے ناظرین و سامعین کو چونکا دیا کہ مولانا ارشدمدنی ملائم سنگھ سے دھوکہ کھاگئے ۔’یزید ملائم سنگھ‘ نے مظفر نگر کے حالات پر مولانامدنی کو امیدیں دلائیں تھیں کہ مظفر نگر کے متاثرین سمیت ملک کے تمام مسلمانوں کے ساتھ انصاف کے لیے میں پارلیمنٹ میں آواز اٹھاؤں گا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ میرے مسلمان بھائیوں کو چین نہ نصیب ہوجائے ۔میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہوں ۔مسلمان اس ملک کی ریڑھ کے ہڈی ہیں ․․․․․ٰوغیرہ وغیرہ ۔ان باتوں نے خبر نے نہ صرف مولانا مدنی کو بلکہ ملک کے مسلمانوں کو بھی خوش کر دیا اور سدا سے دھوکا کھائے بھولے بھالے مسلمان ملائم سنگھ کو اپنا ہمدرد او ر مسیحا سمجھنے لگے․․․․․․چند روز بعد اچانک ملائم سنگھ نے انسانیت کا لباس تارتار کر کے’یزید ‘کا چولا پہنتے ہوئے مولانا ارشد مدنی سے صاف صاف الفاظ میں مسلمانوں کی معاونت سے انکار کر دیا اور مسلمانوں پرسنگین الزمات لگاتے ہوئے انھیں ملک کا دشمن اور غدا ر قراردیا۔مولانا مدنی نے جب ملائم سنگھ کا یہ’ یزیدی ‘رخ اور انداز دیکھا تو تکلیف دہ کر ب اور غم کی زیادتی سے سر تھا م لیا ۔پہلے پہل تو دل پریک بارگی پڑنے والے اس کرب کو برداشت کر نے کی کوشش کی مگر جب درد حد سے بڑھا تو مشہور ٹی وی چینل’ آئی بی این 7‘پر آکر اپنے کرب کو عالم میں بانٹ دیا ۔

مذکورہ بالا مثال ایسے دل شکن اور جذبات کاخون کر دینے والے واقعات کا ایک ادناسا نمونہ ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے واقعات ہندوستان میں معمول بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کی ہمدردی اور ووٹ حاصل کر نے کے لیے ہمارے وقت کے ’یزید‘’ ’حسین ‘ بن جاتے ہیں اور جوں ہی ان کا مفاد نکلتا ہے گجرات اور مظفر نگر کے واقعات بر پا کردیتے ہیں ان کے پتھر دلوں پر کسی غریب کی چیخ کچھ بھی اثر نہیں کرتی۔اس وقت انھیں ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ کل ہم ان ہی مسلمانوں کے گھر ووٹ کی بھیک مانگنے گئے تھے اور ان عالی ہمت و نیک انسانوں نے ہماری جھولی ووٹ کی بھیک سے بھری تھی۔

آج کا ہندوستانی مسلمان عالم بے خودی میں خود سے ہی کہہ رہا ہے کہ ہمیں آزادی کیا ملی کہ ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ہماری مسجد یں ،ہمارے مدرسے ، ہمار ی شناخت،ہماری قدریں ،ہماری تہذیب ،ہمارے گھر ،ہمارے محلے اور شہر الغرض سرسے لے پر پاؤ ں تک ہمارا سب کچھ مٹا دیا گیا ۔ہم سے سینے کے سامنے دوستی کا وعدہ کیا گیا اور پیٹھ پیچھے چھری گھونپ دی گئی ۔آج 67سال ہوگئے مگر ہم اپنے دشمن کو نہ پہچان سکے۔کوئی ہمیں’ یزید‘ بن کر روز فنا کر تاہے اوررو ز ڈستا ہے ۔روز ہم پر زندگی کا قافیہ تنگ کر تا ہے مگر ہم اسے جان ہی نہیں سکے ۔ہم دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن سمجھ لیتے ہیں ۔․․․․․․․․مسلمان یہ باتیں خود سے ہی کہتا ہے اور خود ہی چپ ہوجاتا ہے ۔آج 76سال بعد اسے ان باتوں کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ہاں !یہ درد ضرورسے اسے اندر سے توڑتا رہتا ہے۔

آئیے ذرا سوچیں!آئیے ذرا سرجو ڑکر بیٹھیں اور وقت کے یزید سے مقابلہ آرائی کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کر یں۔ہمیں ایک بہترین موقع ملا ہے متعدد ریاستوں میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور اس کے معاً بعد عام انتخابات ہوں گے ۔آئیے اپنے حق ’رائٹ ٹو رجیکٹ‘کا استعمال کرکے تمام’ یزیدوں‘ کو فنا کردیں۔ہمیں قدرت نے یہ بہترین موقع دیا ہے۔ہمیں سنبھلنے کا ایک موقع ملا ہے۔ہمیں اپنی بگڑی بنا نے کا زرین موقع فراہم ہوا ہے ۔آئیے اس کا بھر پور فائدہ اٹھائیں اور آسمانوں کو دھول چٹائیں ۔یہی وقت کی آواز ہے اور یہی حسینی فکر ہے ۔

احساس
آج تصویر کاینات میں سوائے خون،آگ ،دھواں اور کٹے پٹے انسانی اعضا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ بیرونی دنیا کا ذکر تو رہنے دیجیے خود مادروطن ہندوستان میں اتر پردیش ،مہاراشٹرا،گجرات ، راجستھان ، دہلی اور دیگر علاقوں میں مسلمان آئے دن کسی نہ کسی قیامت صغراسے دوچار ہوتے ہیں ۔ان حالات نے ہمارے ہر دن کو’یوم عاشورہ‘اور ہر مقام کو ’کر بلا‘بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ہمارے وقتوں کے ’یزید‘ جوکانگریس ، بی جے پی،سماج وادی پارٹی،بہوجن سماج پارٹی اور دیگر پارٹیوں کی شکل میں موجود ہیں روز ہم پر کوئی نہ کوئی مصیبت نازل کرتے رہتے ہیں ۔تعجب خیز امرتو یہ ہے کہ ہمارے ہی مسلمان ان ’یزیدوں‘ کا ساتھ دے کر ملت کا سودا کرتے ہیں اور ان کی تعریف کر کے انھیں ملک اور مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد کہتے ہیں ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62310 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More