سانحہ راولپنڈی کے ذمہ دارکون ہیں

راولپنڈی کے واقعہ کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔ علما ء عوام کو وسیع قومی مفاد میں مسجد اور منبر کے پلیٹ فارم سے امن و آشتی ، مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کا پیغام دیں اور امن و استحکام کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ امن و آشتی، بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی فضاء قائم کرنے کی ذمہ داری علمائے کرام کے کاندھوں پر بھی عائد ہوتی ہے وہ امن کی کوششوں اور استحکام کے لئے حکومت کا ساتھ دیں۔ یہ بات وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے ممتاز علمائے کرام کے وفد سے گفتگو کررہے تھے جنہوں نے مولانا سمیع الحق، مولانا حنیف جالندھری، مولانا اشرف علی کی قیادت میں ان سے ملاقات کی۔ مولانا زاہد محمود قاسمی ، مولانا عبدالخبیر آزاد ، مولانا قاری عبدالرشید، مولانا عبدالمجید ہزاروی ،مولانا حافظ محمد صدیق، مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمن، مولانا فضل الرحمن خلیل ، مولانا حبیب الرحمن، مولانا یوسف شاہ ، مولانا گوہر رحمن، مولانا محمد اویس ، مولانا قاری سردار علی سمیت جید علماء کرام وفد میں شامل تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ کامیاب مذاکرات کے نتیجہ میں علمائے کرام کے وفد کو حکومت نے راولپنڈی میں موجود تین افراد کی میتوں کی نماز جنازہ لیاقت باغ میں ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس موقع پر علمائے کرام نے یقین دہانی کرائی کہ نمازجنازہ کے دوران ہر صورت امن و امان قائم رکھا جائے گا۔ وزیراعلی نے علماء کو حکومت سے تعاون کرتے ہوئے اجتماعی بصیرت بروئے کار لا کر لوگوں کو امن ، اتحاد و یگانگت کا پیغام دینا ہوگا۔ پاکستان میں سنی شیعہ ، اہل حدیث، بریلوی تمام مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں۔ عیسائی ، سکھ ، ہندو اور دیگر اقلیتیں بھی آباد ہیں۔ ہم نے سب کو ساتھ لے کر امن ، اتحاد سے ملک میں رہنا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص اسلامی ممالک میں بھی شیعہ اور سنی آباد ہیں لیکن ان ممالک میں ایسے واقعات نہیں ہوتے سب ایک ضابطہ اخلاق کے تحت اپنے اپنے ملک کی ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔

قومی اور بین الاقومی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے ستائے ملک میں گزشتہ روزفرقہ واریت کی بنیاد پر ہونے والے فساد نے 9 افراد کی جان لے لی۔ حکومت پنجاب نے راولپنڈی میں ہونے والے المناک سانحہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ ان تحقیقات میں ان چہروں کو ضرور بے نقاب کیا جائے گا جو اس ملک کے امن اور سکون کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔یوں تو ان قوتوں کے چہرے جانے پہچانے ہیں۔ یہ لوگ محض افراد نہیں ہیں بلکہ انہوں نے منظم گروہوں اور تنظیموں کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ ان میں سے بعض کو کالعدم کہا جاتا ہے لیکن یہ اہتمام محض قانونی کارروائی پوری کرنے اور سیاسی طور پر اسے استعمال کرنے کی حد تک محدود ہے۔ عملی طور پر ان کالعدم تنظیموں سے منسلک افراد سے نہ صرف ارباب و بست و کشاد واقف ہیں بلکہ اکثر اوقات ان کی سرپرستی کرنے میں بھی کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان میں سارے معاملات محض سیاسی مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ اس صورت میں معاشرے کی نفرت انگیز قوتوں کو سر اٹھانے اور پروان چڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔کل یوم عاشور میں جو کچھ ہوا اگرچہ اسے حادثاتی کہا جا سکتا ہے لیکن یہ حادثہ برس ہا برس تک منفی رویوں کی مسلسل آبیاری کے نتیجے میں رونما ہؤا ہے۔ ملک کے طاقتور عناصر ان رویوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں بڑھاوا دینے میں مصروف عمل ہیں۔ طالبان کے نام سے انتہا پسندی کی جو تحریک اس وقت پاکستان میں امن و امان کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے ، اس کی بنیاد بھی محض امریکہ دشمنی پر نہیں ہے۔ بلکہ اس کا خمیر بھی مسلک اور عقیدہ کی بنیاد پر لوگوں میں تمیز کرنے ، انہیں مسترد کرنے اور انہیں ہلاک کرنے کے رویہ سے ہی اٹھا ہے۔یہ بات بھی پاکستان کے حکمرانوں کے علم میں ہے کہ کون سی درس گاہوں میں کیا تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں سے اسناد حاصل کرنے والے طالب علم نفرت اور بغض و حسد کی کس قسم کی تربیت کے ساتھ ایک مدرسہ سے نکل کر ملک کے گلی کوچوں اور محلوں میں پھیل جاتے ہیں۔ المناک بات یہ ہے کہ یہ صورتحال محض ایک یا چند مدرسوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک میں سینکڑوں مدرسے اس قسم کی تربیت سازی کا کام کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ حکومت نے گزشتہ دس برس تک ملک میں انتہا پسندی کو پھلتے پھولتے اور پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ ضرورت کے مطابق ان کی سرپرستی کی ہے۔ لیکن سابق فوجی حکمران پرویز مشرف سمیت ملک میں سامنے آنے والی دونوں جمہوری حکومتوں نے بھی ان رویوں کے سامنے دیوار بننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ہمارے عہد میں انسانی تہذیب اور شعور ترقی کی منازل طے کرتا ہؤا اس منزل کی طرف سفر کر رہا ہے کہ عقائد و نظریات کو نفرت کی بنیاد بنانے کی بجائے انسانوں کو اپنے طریقے اور تفہیم کے مطابق زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن پاکستان ایک ایسا معاشرہ ہے جس کی سرکار نے ایسی ہزاروں درس گاہوں کو معاشرے کا ایک لازمی جزو سمجھ کر قبول کیا ہؤا ہے جہاں عقیدے اور مسلک کے فرق کی بنیاد پر نفرت اور فاصلہ پیدا کرنے کا مسلسل درس دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ اس قسم کے منفی عناصر کو پنپنے اور پروان چڑھنے کا موقع نہیں دے سکتا۔

گزشتہ برسوں میں بارہا شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر حملے کئے گئے ہیں۔ ان کی مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔ مسافروں کو روک کر عقیدہ کی بنیاد پر لوگوں کی پہچان کر کے انہیں قتل کیا گیا ہے۔ ایسے ہر واقعہ کے بعد چند روز آہ و زاری ہوتی ہے۔ بے بنیاد دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد زندگی ’’ معمول ‘‘ پر آ جاتی ہے۔ نہ حکومت نے کبھی مسئلہ کی اصل جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی ملک میں دین کی تبلیغ کرنے والے علماء نے یہ زحمت گوارا کی ہے کہ اس رجحان کو روکنے کے لئے وہ اپنا رول ادا کریں۔راولپنڈی میں رونما ہونے والا سانحہ ایک بڑی تصویر کا ہی جزو ہے۔ اسے ملک میں دیمک کی طرح پھیلی ہوئی انتہا پسندی ، عدم برداشت اور اس کے بطن سے جنم لینے والی دہشت گردی سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جو لوگ بھی خواہ وہ حکومت کا حصہ ہوں یا مذہبی گروہوں کا ، دہشت گردی کے خلاف بات کرتے ہیں انہیں اس فرقہ واریت اور اس رویہ کو بھی مسترد کرنا ہو گا جو اختلاف ، دلیل ، تقریر و تحریر کی حدوں کو پار کرتے ہوئے اب بم ، گولی اور آتشزدگی کے مظاہر تک پہنچ چکا ہے۔اگرچہ یہ درست ہے کہ یوم عاشور اس لحاظ سے پرامن رہا ہے کہ حکومت کے سخت سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہو سکا۔ لیکن راولپنڈی میں رونما ہونے والا سانحہ اسی مزاج کا آئینہ دار تھا جو دہشت گردوں کو پروان چڑھانے اور حوصلہ دینے کا سبب بن رہا ہے۔ پوری قوم کو اس رویہ و مزاج اور اس کی تبلیغ اور پرچار کرنے والے چہروں اور قوتوں کو پہچاننا ہو گا۔ بد نصیبی کی بات ہے کہ جب ملک و قوم کے دشمن دہشت گرد بم پھوڑنے یا خود کش دھماکہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ عام مسلمانوں کو اکسا کر مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔

مبصرین کہتے ہیں کہ گزشتہ روزایک عظیم المرتبت ہستی کا یوم شہادت تھا۔ مسلمانان عالم اس پیغام کو یاد کر رہے تھے جو شہادت حسینؓ نے اپنے حق اور اصلاح معاشرہ کے لئے مسلمانوں کی سب نسلوں کو دیا ہے۔ صبر و استقلال کو یاد کرنے کا دن تھا جس کا مظاہرہ کربلا کے میدان میں حسینؓ اور ان کے رفقاء نے کیا تھا۔ وہ کون مسلمان ہے جو اس پیغام کو مسترد کرتے ہوئے اسی دن یزیدی مزاج اور ظلم کی علامت بنا ہؤا تھا۔یہ قوم اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے 66 برس قبل معرض وجود میں آئی تھی۔ اس قوم کے حقیقی قائد اور محسن اعظم محمد علی جناح نے افتراق اور انتشار کو رفع کرنے ، محرومی کو دور کرنے اور مسلمانوں کی کسمپرسی کو ختم کرنے کے لئے 14 اگست 1947ء کو ایک عظیم کامیابی حاصل کی تھی اور پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ اب یہ قوم تقسیم در تقسیم کے عمل سے ہوتی ہوئی اس قدر چھوٹی اور بے وقعت کر دی گئی ہے کہ نہ اسے درست کی پہچان رہی ہے اور نہ غلط کا ادراک۔مقرر اور مبصر اپنے اپنے طور پر نظریہ کی وضاحت کے نام پر نفرتوں کی ایک فصل اگانے میں مصروف عمل ہیں۔ کسی کو یہ خبر نہیں ہے کہ عقیدہ نفرت کا نام نہیں یہ ہم آہنگی ، بھائی چارے اور محبت و اتفاق کا نام ہے۔ ہے کوئی جو ہاتھ اٹھائے ، صدا لگائے اور بتائے کہ پھر یہ نفرت کس طرح تعمیر کا مقصد پورا کرے گی؟ آگ کا کام جلانا ہے۔ چھری صرف کاٹتی ہے۔ اسی طرح نفرت صرف تباہ کرتی ہے۔ ہمارے اس وطن کو نفرت کے اس زہر سے بچانے والا ہے کوئی؟ جو سیاست نہ کرے ، اس ملک کے لوگوں سے محبت کے نام قد آور ہو کر کھڑا ہو جائے!
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 179807 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.