تھانہ کلچر کا خاتمہ

پاکستان میں تھانہ کلچر کو ختم کرنے کے لئے کئی بار کوششیں کی گئی مگر ہر بار ہونے والی ترمیم کی وجہ سے یہ کلچر کمزور ہونے کے بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا سابقہ کئی ادوار میں اس کے لئے مخلصانہ کوشش کی گئی مگر نتیجہ صفر رہا اس کی سب سے بڑی وجہ وہ ابہام ہے جو مجرموں کے لئے قانون میں اپنی مرضی کی تشریح اور وضاحت کا راستہ نکالتا ہے اگر اس تھانہ کلچر کو ختم کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں عدالتوں کی تعداد بڑھانا ہو گی اور قانون کو بہت ہی واضح اور جامع کرنا ہو گاتاکہ کوئی ایسا سقم باقی نہ رہے جس کو استعمال کر کے جرائم پیشہ لوگ بڑی آسانی سے بری ہو جاتے ہیں اس کے بعد پولیس اصلاحات کے حوالے سے سفارشات تیار کی جائیں اورسفارشات کی تیاری کے دوران وردی کو اخلاقیات اور احترام کا سمبل بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے پولیس افسران کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں نہ کہ اندھا دھند اختیارات کے حامل کوئی نرالی مخلوق۔ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے کئی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی پولیس کے ماڈل کو اپنایا جا سکتا ہے جو کہ اپنے ملک میں بہت کامیاب تصور کیے جاتے ہیں جہاں وارداتوں کا سراغ سو فیصد کامیابی اور بہت جلدی سے لگایا جاتا ہے پولیس افسران کو جدید خطوط پر تفتیش کے کورس کروائے جائیں فرانزک سائنس کے بارے میں معلومات بھی پولیس کورس میں شامل کی جائیں گی تاکہ جدید ترین طریقوں سے وارداتوں کے نتائج کو سامنے لایا جا سکے تھانہ پولیس کونسل کا قیام بھی عمل کیا جائے جس میں ریٹائرڈ سول سرونٹ اور عوامی نمائندے شامل کئے جائیں اور اس کونسلز کو سیاست سے دور رکھا جائے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پولیس کے عمومی رویوں میں 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق اخلاقیات ، شائستگی ، قانون کی پاسداری ، بدعنوانی سے انحراف ، رشوت ستانی سے اجتناب، مک مکا سسٹم سے گریز اور جرائم پیشہ مافیا کی سرپرستی سے دریغ کی روایات و رجحانات پرورش نہیں پا رہے جس کی وجہ سے پولیس کا محکمہ کسی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ محکمہ پولیس میں کس قدر جدید قسم کی رنگا رنگ فورسز قائم کی جارہی ہیں بلکہ وہ تو معاشرے میں ایک ایسی سیدھی سادی قانون پسند ،مہذب اور شائستہ پولیس فورس دیکھنا چاہتے ہیں جو تھانوں کو شہریوں کے لئے جائے پناہ بنا دیں عوام کوتو تھانوں میں اس قسم کا ماحول چاہیے کہ جب کوئی عام شہری تھانے میں فریاد اور درخواست لے کر پہنچے تو کسی منشی اور محرر کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ پریشان حال سائل سے اس کی فریاد سننے اور درخواست وصول کرنے کا نذرانہ طلب کرے۔

یہاں تو عالم یہ ہے کہ پریشان حال شہری اگر رپورٹ لکھوانے تھانے جاتا ہے تووہاں پولیس اہلکاررپورٹ لکھنے کا باقاعدہ معاوضہ وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں کسی مقتول کے ورثاء جب کسی قتل کی اطلاع دینے کے لئے قریبی چوکی یا تھانے پہنچتے ہیں تو جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کے لئے آنے والے پولیس اہلکاران مقتول کے ورثاء سے جائے وقوعہ تک پہنچنے کے لئے پٹرول کے خرچے کے نام پر بلا جھجھک ہزاروں روپے نذرانہ طلب کر تے ہیں اور یہ سب باتیں کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں ایسے میں جب سب یہ جانتے ہیں ان کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ نہیں بنایاگیا جس کی وجہ سے ماضی میں ہونے والی پولیس اصلاحات بھی ناکام ہو ئی ہے اس تناظر میں تھانہ کلچر کی تبدیلی اور پولیس کے قبلے کی درستگی کا عمل محض خوبصورت بیانات اور دلکش سفارشات کے ذریعے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتااس کے لئے ایک بلا امتیاز بے رحمانہ اور شفاف آپریشن کرنا ہو گامحکمہ پولیس ہمہ تن داغدار اور کرپشن میں رچ بس چکی ہے اگرچہ پانچوں انگلیوں کی طرح سب کو ایک جیسا نہیں کہا جا سکتا لیکن اکثیرت کا یہی حال ہے ۔

پاکستان کے عام شہری کے ذہن میں یہ تصور تو عرصہ دراز سے موجودہے کہ حکمران طبقات نے یہاں قانون کی بالادستی کی بجائے ہمیشہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کی بالادستی کو مضبوط اور مستحکم بنانے ہی کو اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا۔ حکمران طبقات کی توجہ اسی امرپر مرکوز رہی کہ باوردی ریاستی مشینری کو قیام امن و امان اور قانون کے نفاذ کے مقدس نام پر ایسے اختیارات بھی غیر تحریری طور پر دیدیئے جائیں کہ وہ جب چاہیں اپنی وردی کی دھاک اور دبدبہ بٹھانے کیلئے ان کے کام آ سکیں باوردی اہلکاروں کے ظالمانہ رویوں کی وجہ سے پولیس یونیفارم عوام کی نگاہ میں توقیر و احترام کی علامت نہیں بن سکی انہی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کارروائیوں کا منطقی نتیجہ ہے کہ عام شہری پاکستان کو ایک ڈیمو کریٹک ملک تسلیم کرنے کی بجائے پولیس سٹیٹ قرار دینے پر مجبور ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ جس شہر،ضلعے اور صوبے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو، دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتیں معمول بن جائیں وہاں اعلیٰ سطحی پولیس حکام کا آہنی مواخذہ کیا جائے محض شوکاز نوٹس کا اجرا ،معطلی یا پولیس لائنز میں حاضری نہیں بلکہ حسب قواعد و ضوابط کوئی ایسا اقدام کیا جانا چاہئے جو باقی لوگوں کے لئے عبرت کی حیثیت اختیار کر جائے۔ جو لوگ مواخذے اور محاسبے کی گرفت میں آئیں وہ نشان عبرت بن جائیں اور باقی افسران و اہلکاروں کو پتا ہو کہ اگر وہ بھی ایسا کریں گے تو ان کا حال بھی ایسا ہی ہو گا جب تک کوئی ایسا لائحہ عمل وضع نہیں کیا جاتا اور کوئی حکومت قانون کا نفاذ کرنے کے ذمہ دار اداروں کو نکیل ڈالنے کی اہلیت حاصل نہیں کر لیتی تب تک نہ تو تھانہ کلچر تبدیل ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہماری پولس فورس عوام دوست بن سکتی ہے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 209026 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More