نواز شریف کھلے سمندر میں اپنے
تھائی ہم منصب سے بزنس پارٹنر بننے پہ گفت و شنید فرما رہے ہیں۔ملک میں آگ
لگی ہے اور وزیر اعظم سمندر میں۔چلیں ایک بات تو پکی ہے کہ وہ اس ٓگ سے
محفوظ رہیں گے جو ہمیں جلائے ڈالتی ہے۔ایک لحاظ سے یہ بھی اچھا ہے کہ ملک
ایک اور وزیر اعظم کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔پنڈی کا سانحہ نہ ہوا ہوتا
تو وزارت داخلہ اپنی تمام ایجنسیوں کو تعریف اور توصیف کا خط جاری کرنے ہی
والی تھی۔یہ خط ابھی بھی حقداروں تک ضرور پہنچنا چاہئیے کہ فیلڈ میں کام
کرنے والوں کو ہمیشہ ہی حوصلہ افزائی کی ضرورت رہتی ہے۔نالائقوں کو جہاں
سزا دینا ضروری ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ محنت کرنے والوں کی پیٹھ بھی
تھپتھپائی جائے۔سانحہ بہت بڑا لیکن پنڈی پورا پاکستان نہیں ۔جن لوگوں کی
محنت نے دو سخت ترین دن خیر وعافیت سے سنبھال لئے ان کی تحسین نہ صرف
حکومتی بلکہ عوامی سطح پہ بھی کی جانی چاہئیے۔
سانحہ راولپنڈی کی تحقیقات اور انصاف پہ مبنی فیصلے ہمیں ایک بڑی مصیبت سے
بچا سکتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہم کبھی بھی وقت پہ فیصلہ کرنے کی
نہ تو ہمت رکھتے ہیں نہ استطاعت۔ جو جتنا قصور وار ہے اسے انجام سے بے پروا
ہو کے اس کی سزا ملنی چاہئیے۔لیکن کیا یہ ممکن ہے وہ حکومت جو اپنا ہی
قانون اپنے ہی ملک میں نافذ کرنے سے گریزاں ہو۔ جو کبھی سزائے موت کے قانون
پہ عمل درآمد سے بچنے کے لئے یورپی یونین کی آڑ لیتی ہو تو کبھی امن و امان
کا بہانہ بناتی ہو اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ انصاف پہ مبنی فیصلے کرے گی
اور پھر ان پہ عمل درآمد بھی کرے گی،دیوانے کی بڑ لگتی ہے لیکن حکومت جو
بھی فیصلہ کرے اسے یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنا اب کی
بار شاید اسے مہنگا پڑے گا۔کمیشن بن گیا ہے۔کیس پہ بھی چل پڑے گا فیصلہ بھی
آ جائے گا لیکن ضروری ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کی دل جوئی کی جائے۔
زخمیوں کے زخموں پہ مرہم رکھیں جائیں اور جن کا نقصان ہوا ہے ان کے نقصان
کی تلافی کی جائے۔یہ بھی ضروری ہے کہ عوام فرقوں اور جماعتوں سے بالاتر ہو
کے دکھی دلوں کا سہارا بنیں اور اس سانحہ کی آڑ میں پرانے سکور برابر کرنے
سے پرہیز کریں۔
دونوں جماعتوں کے علماء کرام بھی یہ بات یاد رکھیں کہ انہوں نے ایک دن اﷲ
کے حضور بھی جانا ہے جہاں انہیں اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا۔ منافقین کو
اﷲ کریم سخت ناپسند کرتا ہے۔ ایک شخص ٹی وی پہ بیٹھ کے عوام کو صبر کی
تلقین کرتا ہے اور اگلے ہی لمحے اپنے مسلکی بھائیوں کو آگ لگانے کے نئے
طریقے بتا رہا ہوتا ہے۔ یہ نفاق ہے مسلمانی نہیں اور ہم مجبور اس قدر ہیں
کہ انہی لوگوں کی تقلید پہ مجبور ہیں۔پاکستان کے مسلمان بھی اتنے غیور ہیں
اور اتنے باکمال کہ نفرت سے نفرت کا علاج تلاش کرتے ہیں۔انتقام اور عدم
برداشت، تعصب اور تنگ نظری اب ہمارے معاشرے کا طرہ امتیاز ہے۔ ہم ناک کے
بدلے ناک ،کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان مانگتے ہیں لیکن اپنے ہم
وطنوں سے ۔ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو ہم دیت لے کے چھوڑ دیتے ہیں ۔ہم یہ
نہیں سوچتے کہ اسی آیت کے آخر میں اﷲ کریم یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم
معاف کر دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
طالبان کی خاموشی کو اگر کوئی ان کی مہربانی سمجھتا ہے تو یہ اس کی بھول
ہے۔ وہ بتا چکے کہ اب ان کا نشانہ عوام نہیں اشرافیہ ہو گی۔ حالات کے پیش
نظر یہ سمجھنا قطعاََ مشکل نہیں کہ ایسی صورت میں عوام کے خیالات بالکل وہی
ہوں گے جو اس سے قبل عوام کے باب میں اشرافیہ کے تھے۔ کسی ایک بڑی شخصیت کا
اس طرح کے کسی سانحہ میں مارا جانا انقلاب کا پیش خیمہ ہو گا ۔ ایک خونی
انقلاب کا۔دوسری طرف وہ ساری طاقتیں جو مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت کو
پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں،اپنے اپنے پنجے تیز کئے بیٹھی ہیں۔لوہا گرم
دیکھ کے وہ بھی اپنا وار کرنے سے نہیں چوکیں گی۔میں بار بار ۲۰۱۵ ء کا ذکر
کرتا ہوں۔ دشمن اپنا ایجنڈہ ہم پہ واضح کر چکے۔ اب اس کا مقابلہ کرنا ہماری
ذمہ داری ہے۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب حکومت عوام اور ادارے سب تہیہ کر لیں
کہ ہم نے سیسہ پلائی دیوار بن کے اپنے ملک کو دشمنوں کی نظرِ بد سے محفوظ
رکھنا ہے۔
کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ آنکھوں میں نفرت،دل میں بغض اور دماغ میں
کینہ،طبع میں میں نفاق،ارادے متزلزل اور اور جان کا خوف ہی کیا وہ ہتھیار
ہیں جن سے دشمن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔بظاہر بچت کا کوئی راستہ نظر نہیں
آتا۔ہاں اﷲ کریم رحم کرے۔ ہماری قیادت اپنی جانوں کے خوف سے آزاد ہو جائے۔
انصاف کیا جائے، مجرموں کو خواہ وہ آرٹیکل چھ والے ہوں یا اصغر خان کیس
والے، سوئس کیسزز والے یا این آ ر او والے،رینٹل پاور والے یا ایفیڈرین کیس
والے، جو مجرم ثابت ہو چکے،عدالتیں جن کے خلاف فیصلے دے چکیں ان کے لئے
چوراہوں میں ٹکٹیاں اور پھانسیاں لگائی جائیں اور قانون کے تقاضے پورے ہوں
تو ممکن ہے کہ ہم پہ رحم کیا جائے۔ لیکن جنرل مشرف کو عدالتوں کی طرف
لڑھکانے والے نواز شریف کو اصغر خان کیس میں کٹہرے میں کھڑا کر پائیں گے۔
کیا زرداری کی دولت کبھی واپس قومی خزانے میں لائی جا سکے گی۔کیا قومی
خزانہ لوٹ کے اپنی جائیدادیں واگذار کرانے والوں کے گریبان پہ کوئی ہاتھ
ڈال پائے گا۔
نہیں ایسا نہیں ہو گا اور اس ملک میں کبھی نہیں ہو گا تو پھر ۔۔۔پھر یہ کہ
طالبان اپنا فیصلہ سنا چکے۔امریکہ اسرائیل اور بھارت کے ساتھ ساتھ سعودیہ
اور ایران کی مہربانیاں بھی اب روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ فرقہ پرستی کا جن
بوتل سے باہر نکل چکا۔بس ایک بڑے کی لاش اور اس کے بعد اﷲ معاف کرے۔ اسی
لئے میں کہتا ہوں کہ نواز شریف جتنا ملک سے باہر رہیں اچھا ہے۔شاید باہر رہ
کے وہ کبھی ملک کے لئے کچھ بہتر سوچ سکیں۔وہ آدمی جسے اپنی جان کے لالے پڑے
ہوں اس نے میرے اور آپ کے لئے کیا سوچنا ہے؟ |