سید منور حسن صاحب کے بیان پر چیخ و پکار نہیں غورو فکر کی ضرورت ہے؟

پاکستان تحریک طالبان کے امیر حکیم اﷲ محسودکی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت اورامیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن صاحب کا انھیں شہید قرار دینے کے بعد مذمتی بیانات اور قرار دادوں سے لیکرمعافی مانگنے کے مطالبے تک پاکستانی قوم فکری طور پر منقسم نظر آتی ہے ،لبرل حضرات اور جماعت اسلامی کے فکری مخالفین کو جماعت اسلامی پر تنقید کے لیے بہت مدت بعد ایک من پسند اشو ہاتھ لگ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں کسی رکاوٹ کے بغیر دوسرے ہی دن مذمتی قرارداد پاس کی گئی اور اب دوسری جگہوں پر بھی اس کی کوششیں جاری ہیں ،منور حسن صاحب کے بعد مولانا فضل الرحمان نے دو قدم آگے بڑھکر امریکی حملے میں مارے جانے والے کتے کو بھی شہید قرار دینے کا دعویٰ کیا جس کا مولانا نے یہ کہہ کر دفاع بھی کیا کہ یہ ’’اظہار نفرت‘‘کے طور پر کہا گیا ایک جملہ ہے ۔دونوں بیانوں میں بڑا فرق ہے مولانا فضل الرحمان کے بیان کے الفاظ کوبعض نے’’ توہین ِ اصطلاحِ شرع و دین ‘‘ کے ضمن میں بھی شامل کیا ہے اور واقعتاََ امریکی دہشت گردی ناقابل یقین حد تک تو قابل نفرت ہے مگر شہید جیسی متبرک اصطلاح کو اس کے لیے استعمال کرنا بھی ٹھیک نہیں تھا مولانا جیسے لکھے پڑھے اور صاحب کلام آدمی کے لیے ’’اظہار نفرت‘‘کے لیے شہید لفظ ہی کیوں بچ گیا تھا؟اس لیے کہ ہم امریکیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے ویت نامیوں اور جاپانیوں کو بھی تو ’’امریکہ کی نفرت میں‘‘شہید قرار نہیں دے سکتے ہیں ۔

جہاں تک سید منور حسن صاحب کے بیان کا تعلق ہے اولاََ انھیں اس بات احساس ہونا چاہئے تھا کہ یہ معاملہ بڑا گمبھیر اور حساس نوعیت کا ہے اس لیے کہ جب حکیم اﷲ کو آپ شہید قرار دے رہے ہیں تو لازماََ ان کے ہاتھوں مارے جانے والے لوگوں کے بارے میں بھی آپ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر وہ کس کھاتے میں ڈالے جائیں گے ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہو سوائے اس کے کہ کافر قاتل مسلمان ہو کر شہید ہو جائے تو معاملے کی نوعیت بدل جاتی ہے ،یہ بات بھی جھوٹ کا پلندہ نہیں ہے کہ پاکستان کے اندر عوامی مقامات ،مساجد ،امام باڑوں اور مزارات پر حملے کے بعد ان کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان بھی غلط فہمی میں جھوٹ بول چکے ہیں اور نہ ہی حکیم اﷲ کے بی،بی،سی ریڈیوکو دیے گئے آخری انٹرویو کے ان الفاظ کو ہی ردی کی ٹوکری کے نذر کیا جاسکتا ہے کہ ہر حملہ وہی نہیں کرتے ہیں بلکہ یہاں پاکستان مخالفین کی دنیا جمع ہو چکی ہے جو طالبان کی آڑ میں پاکستان کو خاک و خون میں نہلانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔

سید منور حسن صاحب کا بیان سامنے آنے کے بعد جماعت اسلامی پاکستان سے بھی سنبھالا نہیں جا پاتا ہے اس لیے کہ اگر انھوں نے حکیم اﷲ کو شہید کہا تو پاکستانی فوجیوں کو براہ راست شہیدقرار دینے میں آخر ایسی کون سی علمی اُلجھن ہے جو رکاوٹ ڈال رہی ہو،دور اول میں بھی مسلمانوں نے ایک دوسرے سے جنگیں لڑی ہیں مگر کسی نے بھی دوسرے فریق کے مارے جانے والے افراد کو مکروہ موت مارے جانے کی بات نہیں کی اور دونوں کو احترام و عزت کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا ،اور ہر دور کے علماء نے دونوں کو ایک اجتہادی مسئلہ میں ’’خطا اور ثواب ‘‘کا فائدہ دیتے ہو ئے مسلمان قرار دیا ہے ،یہاں سارا گندھ امریکی حمایت اور جنگ میں فرنٹ لائین پارٹنر کے طور پر پاکستان پر پھینکا جاتا ہے اور بنیادی بحث ہی یہی ہے کہ امریکہ کو نام نہاد دہشت گردی مخالف جنگ میں شمولیت کیا جائز ہے کہ ناجائز ؟اور اس کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پورے بارہ سال کے بعد جرنل شاہد عزیز نے اس مسئلے میں شرعی رائے جاننے کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے عالم اور فقیہہ جسٹس تقی عثمانی صاحب سے رجوع کر کے اس کا جواب بھی حاصل کیا ہے جس میں تقی عثمانی صاحب نے صاف طور پر یہ واضح کیا ہے کہ یہ مکمل طور پر ناجائز ہے ،دوسری طرف طالبان کے حملوں کے شکار لوگ علماء ،مکاتب فکر اور دانشور دور کی کوڑی لاتے ہوئے امریکی حمایت کے جواز میں کتابیں کھنگالنے میں نہ صرف سرگرداں نظر آتے ہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر ’’ضدِ طالبان میں‘‘ایسی تاویلات کا سہارا لے رہے ہیں جن کو دیکھ کر ایک عام لکھے پڑھے شخص کو بھی حیرت ہو نی چاہئے ڈاکٹر عامر لیاقت کا لفاظیت سے بھر پور مضمون جو 15نومبر 2013ء کے روز نامہ جنگ میں شائع ہوا ہے اس کا عکاس ہے ۔امریکی ظلم میں شمولیت کا فیصلہ پاکستانی قوم یا ان پاکستانی سپاہیوں اور پولیس والوں نے نہیں کیا تھا جو طالبان کے خلاف جنگ میں مارے جا چکے ہیں یہ ایک آمر ،اس کے ہم نوا ٹولے اور سیکولر بزدل پاکستانی چند نفوس کا فیصلہ تھا جو مخصوص حالات میں عوام پرٹھونس دیا گیا اور ایسا تاریخ میں ہزار ہا موقعوں پر ہوا ہے کہ ایک بیوقوف یا بزدل لیڈر کے غلط فیصلے کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنی پڑی ہے ۔

پاکستانی طالبان ’’مشرف کے دو فیصلوں کا انتہائی ردعمل ہے ‘‘ایک افغانستان کی جائز طالبان حکومت کے خلاف پاکستان کا بحثیت ریاست ملوث ہو کر چند سستی کوڑیوں کے عوض بڑ ے بڑے رہنماؤں کو پکڑ کر امریکی حکومت کے ہاتھوں ’’برادرانِ یوسف کی طرح‘‘بیچنا اور اپنے قید خانوں میں انھیں اذیتیں دیکر شہید یا لاپتہ کرنادوم لال مسجد آپریشن میں بے قصور طالبات کی توہین اور ہلاکت ۔اس بنیادی محرک کو پاکستانی صاحب اقتدار طبقہ براہ راست حل کرنے کے بجائے اب تک جوں کی توں پالیسی پر کار بند ہے اور اس سارے افسوس ناک صورتحال کے خالق جرنل مشرف کو اب بھگانے کے درپے ہیں ،مشرف کے بعد زرداری من و عن مشرف کی پالیسیوں پر کار بند رہا سوائے اس کے کہ مشرف فوج وردی میں ایسا کرتا رہا جب کہ زردای بحثیت سولین صدر !نواز شریف تذبذب میں مبتلا ہے اس لیے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو زیر کرنے کے سہانے خواب دیکھنا بڑے بڑے فوجی جرنیلوں نے بند کردیئے ہیں اور وہ اب ان کے سامنے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں ورنہ امریکہ متکبر اور بھڑکیں اور گپیں مارنے والا مشرف ہزاروں ٹن بارودی برسات کے باوجود یہ نہ کہتے کہ طالبان کو زیر کرنا ممکن نہیں ہے ،طالبان کیا یہ امریکہ اور اس کے اتحادی عراق میں انتہائی غیر منظم القائدہ کے ہاتھوں ایسے پٹ چکے ہیں کہ جاتے جاتے جنہیں ’’وعدہِ تحفظ‘‘کر چکے تھے اب وہی تختہ مشق بن رہے ہیں اور ’’جوش میں ہوش کھو جانے‘‘کا یہ ایک اصولی ردعمل ہوتاہے ۔

پاکستانی لبرل اور سیکولروں کے ساتھ ساتھ طالبان کے فکری مخالفین لاکھ قسمیں کھائیں سچ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ڈرونز میں مارے جانے والے لوگ ہی کیا سارے ان کے مخالفین اسی طرح مارے جائیں تو گویا کوئی برائی نہیں ہے اس لیے کہ بد نامی تو امریکہ کی ہو رہی ہے اور ختم وہ لوگ ہو رہے جو لبرلز کے نزدیک کروڑ نمازوں اور جہادی اعلانات کے باوجود اسلام پسند تو درکنار بدترین دہشت گرد ہیں اور حکومت پاکستان کی اب تک امریکہ کے ساتھ ڈرونز پر خفیہ اور خاموش ڈیل کے تارو پور تو خود امریکیوں نے نواز شریف کے حالیہ دورے کے دوران بکھیر کر رکھدی اور واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ سچائی پر مبنی مانی جائے تو معلوم ہورہا ہے کہ امریکہ سے زیادہ طالبان لیڈروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ پختونوں کے خون سے خود پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھ رنگے ہو ئے ہیں اور حالیہ مذاکراتی کوششوں کو دھچکہ ہی اسی وجہ سے لگا ہے کہ پاکستانی طالبان کو اس بات کا یقین ہے کہ حکیم اﷲ محسود کے قتل میں براہ راست حکومت پاکستان ملوث ہے ۔پاکستانی لبرلز اور سیکولرز کی بڑی کمزوری یہی ہے کہ وہ فوج کو اس جنگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں جس میں اب تک نہ ہی لبرلز کے آقا امریکہ کو کچھ ہاتھ لگا ہے نہ ہی مسلم ممالک میں عرصہ دراز سے مزے لوٹ رہے سیکولرز کو ،مگر اس حقیقت کے ادراک کے باوجود نہ معلوم پاکستان کے بعض اصحاب طالبان کے خلاف ایک آپریشن پر زور کیوں دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اگر فوج ناکام ہو گئی تو پھر اس کے بعد کی قیامت میں بے چاری عوام کا کیا بنے گا ۔

پاکستانی طالبان سے ابتدأ سے ہی بعض بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں انھوں نے لال مسجد آپریشن کے بعد صرف ’’جنگ ‘‘ہی کے آپشن پر اپنی پوری توجہ مرکوز کردی حالانکہ وہ اپنے ’’بڑے بڑے علماء ‘‘سے یہ دریافت کر سکتے تھے کہ جنگی ردعمل ہر ظلم پر ظاہر کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے اس لیے کہ جنگ چھیڑنا کوئی کھیل تماشا نہیں ہوتا ہے ایک ریاست سری لنکا کی طرح کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ آخر وقت تک اپنا دفاع کرتی ہے اور خود ملا فضل اﷲ نے سوات آپریشن میں اس کا سامنا بھی کیا ہے،فقہاءِ کرام نے یہ بات تو واضح الفاظ میں لکھی ہے کہ جنگ کا آپشن تبھی استعمال کیا جایئے جب خروج کے نتیجے میں غالب آنے کے امکانات روشن ہوں ،دوم طالبا ن کی جنگ اگر ایک مقررہ ہدف کے خلاف تھی یعنی امریکہ اور امریکی حمایتیوں خلاف تواس کا بنیادی مرکز افغانستان تھا پاکستان میں محاذ کھولنے سے ان کی قوت منتشر ہو گئی ،سوم جنگ امریکہ اور امریکی حامیوں کے خلاف تھی تو طالبان نے اس میں شیعہ اور بریلوی حضرات کو بھی شامل کر کے اپنے دشمنوں میں اضافہ کردیا جوصریحاََ جنگی حکمت عملی کے خلاف تھا یہ سوچے بغیر کہ عقائد سے ’’رجوع یا توبہ‘‘خوف اور جبر سے کبھی کارگر نہیں ہوا اور خود اسلام بھی اس’’ طریقہ تطہیرِ قلوب واذہان ‘‘کا قائل نہیں ہے پھر حال میں میں نے ایک وی ،ڈی،یو دیکھی جس میں ایک صاحب کشمیر سے لیکر پاکستان تک سبھی جہادی تنظیموں کو آئی ،ایس،آئی کی ایجنٹ قرار دیکر یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ جو کوئی بھی ان کے نظریے کا حامی نہیں وہ لازماََ ان کا مخالف ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طالبان میں جہاں اعلیٰ سیاسی دماغ کی کمی ہے وہی ان میں متبحر علماء کا شدید فقدان ہے اور پھر المیہ یہ کہ ان کی خواہش یہ بھی ہے کہ ہر حال میں علماء انہی کی آرأ کو قبول کریں یہ بات قرین انصاف نہیں ہے ،طالبان سے وابستہ علماء کو کیا یہ بات معلوم نہیں کہ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے طویل ادوار میں مختلف خروجوں پر بھی علماء کی آرأ منقسم رہی ہیں اور شریعت میں دوسری رائے کی بڑی گنجائش موجود ہوتی ہے میرے لیے سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ طالبان کو فکری اعتبار سے دیوبند کے قریب سمجھنے کے باوجود بھی ان کے مقررین اپنے آپ کو عالم بے مثل سمجھتے ہو ئے دیوبند ی فکر کے چوٹی کے عالم اور فقیہہ جسٹس تقی عثمانی صاحب کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں تو پھر دوسروں کی کیا حیثیت ہو گی ان کے نزدیک ؟؟؟

جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن صاحب کے بیان پر چیخنے چلانے والے لوگ اس اصل سوال کو نظر انداز کیوں کر دیتے ہیں کہ ’’اگر غاصب امریکیوں کے خلاف افغانستان میں جنگ جائز ہے تو پاکستان کا اس کو اب تک سپورٹ جاری رکھناچہ معنی دارد ؟جس جنگ میں عملی شمولیت سے پاکستان کی اپنی ہی اکثریتی آبادی نالاں ہیں اس کو پاکستان کا’’ مخصوص غاصب اور اقتدار کا بھوکا طبقہ‘‘ جاری رکھتے ہو ئے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر کیوں تلا ہوا ہے اور یہ مغرب کا غلام طبقہ وہ ہے جن کے جسم کا رواں رواں مغرب کا اسیر ہے اور ان کی خواہش ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت سے لیکر فنون و جنون تک سب کچھ پاکستان پر حاوی ہو جائے ؟منور حسن صاحب کے اٹھائے گئے سوال میں کیڑے نکالنے والے لوگ یہ بھی بتائیں کہ کیا پاکستان کا افغانستان میں قابض افواج کو سپورٹ فراہم کرنا اس دستور سے مطابقت رکھتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے ؟کیا یہ تضاد نہیں ہے کہ آپ افغانستان کی طالبان کو بھی’’تھک جانے اور ہار جانے کے بعد‘‘جائز قرار دیدیں اور امریکیوں کو سپورٹ فراہم کر کے عملی طور پر طالبان دشمنی کا ثبوت بھی دیدیں اور پھر ان کے پاکستانی حامیوں سے اس منافقت پر حمایت کی بھی اُمید رکھیں ؟؟؟

سید منور حسن صاحب کے بیان پر شور مچانے والے حضرات کے لیے ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ وہ پہلے پاکستان کی بحثیت ملک شرعی حیثیت متعین کریں ہے اور آج تک برسر اقتدار طبقے کی بھی ؟پاکستان کے عوام کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کی دلیل وہ قراردادیں دی جاتی ہیں جو دہائیاں گذر جانے کے بعدبھی صرف کتابوں تک محدود ہیں گویا ایک اچھی نظری چیز ہے حقیقت کے عملی پاکستان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ،رہااسلامی پاکستان کا برسر اقتدار طبقہ ان میں نام تلاش کیجیے اور اسلام سے ان کے تعلق کو دیکھیے تو پاکستان ،بنگلہ دیش ،افغانستان ،مصر ،تیونس ،سوڈان، الجزائر اور سعودی عربیہ میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا ہے ،ایک لکھے پڑھے شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قذافی ،صدام،رضا شاہ پہلوی،زین العابدین ،حسن مبارک ،ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو،جرنل ایوب،آصف علی زرداری ،جرنل مشرف اور نواز شریف میں کون سا پارسا اور امیر المؤمنین ہے اور کون سا دین بیزار ؟عملی اعتبار سے ان لوگوں نے اپنے ملکوں میں بے شک بہت اچھے کام کئے ہیں مگر اپنی پوری توانائیاں انھیں دین بیزاری کے راستے پر چلانے کے لیے سرف بھی کی ہیں !!!یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک کی شرعی حیثیت اتنی کمزور ہوتو وہ لوگ جو طالبان کو ڈاکؤ ،فسادی اور چور ثابت کرتے ہو ئے ان کے برعکس ’’کافر امریکہ‘‘کا ساتھ دینے کے لیے کتابیں کھنگالنے میں مصروف ہیں فکری ،مسلکی اور تنظیمی تعصب میں یہ کیوں نہیں دیکھتے ہیں کہ وہ جن ائمہ اربعہؒ کے حوالوں سے قدم باہر رکھنا گناہ تصور کرتے ہیں اور امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کی قدم قدم پر تقلید کو اپنا زیور بنا رکھے ہیں ان کے نزدیک ایک فاسق یا فاجر حکمران کے خلاف ’’خروج ‘‘کے متعلق کیا احکام اور دلائل ہیں اور حیرت یہ کہ یہ سبھی حضرات سانحہ کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کے برحق اور یزید کو بر باطل موقف کے قائل بلکہ داعی ہونے کے باوجود اس مقام پر پہنچ کر ’’اہل الحدیث‘‘میں شامل ہو جاتے ہیں کیوں؟صرف حنفیت کے مقلدین کے لیے دو نام لینے پر اکتفا کرتے ہوئے میں اس مضمون کو سمیٹتا ہوں کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت زید بن علیؒ اورحضرت محمد بن عبداﷲ ؒ(نفسِ زکیہ)کے خروج کے وقت کون سا طرز عمل اختیار کیا تھا؟ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ کہاں دور اول کی بزرگ ہستیاں اور کہاں پختون فسادی اور چور تو ہم عرض گزار ہیں کہ آپ جس امریکہ کی حمایت کے لیے دور کی کوڑی لاتے ہیں وہ کیا ہیں طالبان کے مقابلے میں ؟اور جن سیکولر اور لبرل ’’مسلمان بزرگ ہستیوں ‘‘کی حمایت میں آپ اس قدر غلطان اور پریشان ہیں وہ کیا ہیں ملا عمر کے مقابلے میں ؟؟؟
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93789 views writer
journalist
political analyst
.. View More