حکومتی نااہلی، غربت، کرپشن اور
قومی وسائل کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث ملک کی آبادی سماجی اورا
قتصادی لحاظ سے ’’طبقات‘‘ میں تقسیم ہو چکی ہے۔ملک میں ایک طاقتور،دولت مند
اور مراعات یافتہ طبقہ ہے ۔اس طبقہ میں جاگیردار ، بڑے سرمایہ دار، گدی
نشین ، وڈیرے، نواب اور قبائلی سردار وغیرہ شامل ہیں۔ دو سرا طبقہ نوکر
شاہی یعنی بیوروکریٹس کا ہے۔ اِس طبقہ میں 17سے 22گریڈ کے صوبائی اور وفاقی
حکومتوں کے ا فسران شامل ہیں۔ تیسرا طبقہ اُن افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے
ٹیکس چوری، سمگلنگ، دھونس، چوری،بلیک مارکیٹنگ،منشیات فروشی، بددیانتی،
شہری اور دیہی املاک پر ناجائز قبضہ اور ایسے دوسرے ناجائز ذرائع سے کالا
دھن اکٹھا کیا ہے۔ مذکورہ بالا تین طبقات ملک کی آبادی کا صرف 2 فی صد ہیں
مگر ملک کی دولت اور وسائل کا تقریباََ 80 فی صد اُن کے پاس ہے ۔چوتھا طبقہ
اقتصادی طورپر متوسط درجہ کا حامل ہے ۔یہ طبقہ میں تقریباََ 18فیصد آبادی
شامل ہے اور بڑے دوکاندار، تھوک فروش، تاجر، صنعت کار،ڈاکٹر، بڑے وکلاء ،
وغیرہ پر مشتمل ہیں۔پانچواں طبقہ غریب،لاچار اور بے بس عوام کا ہے جو ملک
کی کل آبادی کا تقریباََ 80 فیصد پرمشتمل ہے۔ یوں اقتصادی لحاظ سے ملک میں
طبقات پیدا ہو چکے ہیں۔
مذکورہ بالا طبقات میں پہلے تین اکثر یہ وردکرتے ہیں کہ’’طاقت کا سرچشمہ
عوام ہیں‘‘ورد کرنے والوں میں وزراء، ارکانِ اسمبلی اور سیاسی پارٹیوں کے
لیڈران وغیرہ سر فہرست ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی طاقت کا
سرچشمہ عوام ہیں تو آج تک اس طاقت کو اقتدار کے ایوانوں یعنی اسمبلیوں سے
باہر کیوں رکھا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ نظام میں ذات پرست ٹولے
نے آئین اور قانون کو مفلوج کرکے الیکشن اتنا مہنگا بنا دیا ہے کہ متوسط
اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص چاہے وُہ کتنا ہی اہل اور حبّ
الوطن کیوں نہ ہو، الیکشن میں کھڑا ہونے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ صرف جاگیر
دار اور سرمایہ دار ہی الیکشن میں حصہ لے کراسمبلیوں میں پہنچ سکتے
ہیں۔وزراء، ارکانِ اسمبلی اور سیاسی پارٹیوں کے راہنما وغیرہ ’’طاقت کا
سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کا ورد عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کرتے ہیں۔جبکہ زمینی
حقیقت یہ ہے کہ وُہ اس عوامی طاقت(جو کہ معصوم ، غریب، لاچار ، ناخواندہ،
سیاست کی پیچیدگیوں سے بے خبراور الیکشن کے داؤ پیچ سے ناواقف ہے) کو اپنی
جاگیروں کو سرسبز، محلوں کو روشن رکھنے، جلسے اور جلوسوں کی رونقیں بڑھانے،
حکومت کے حق یا مخالفت میں ریلیاں نکالنے،پبلک مقامات اور سڑکوں پر ہنگامے
اور توڑ پھوڑ کرنے، مخالفین کو کچلنے، اپنے نام کے نعرے لگوانے، ووٹ حاصل
کرنے، اپنی ملوں اور کارخانوں کی چینی، آٹا اور دوسری اشیاء مہنگی فروخت
کرنے،مہنگائی،دھونس،جبر اورناانصافی کی چکی میں پسنے، ملکی اور بیرونی
قرضوں کا بوجھ اٹھانے وغیرہ وغیرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر اُنہیں
انتخاب میں حصہ نہیں دیتے ۔
جب ملک کی آبادی سماجی اورا قتصادی لحاظ سے ’’طبقات‘‘ میں تقسیم ہو چکی ہے،
لہٰذ میری تجویز ہے کہ ملک میں انتخابات بھی طبقات کی بنیاد پر کرائے
جائیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی سیٹیں طبقات کے سائز کے مطابق مختص کی
جائیں۔ مثال کے طور پہلے تین پرمراعات یافتہ طبقوں کو 10%سیٹیں دی جائیں
اور اقلیتوں کی سیٹوں کو منہا کرکے باقی سیٹیں متوسط اور غریب طبقات کے لیے
مختص کر دی جائیں۔ اس مقصد کے لیے ملک کے آئین میں ضروری ترامیم کی جائیں(
یاد رہے کہ پہلے بھی آئین میں 19 ترامیم ہو چکی ہیں)اور جب طبقات کی بنیاد
پر انتخابات کے نتیجے میں پارلیمنٹ بنے گی تو عام لوگ بھی کاروبارِ ریاست
میں حصہ لے سکیں گے؛ زرعی اصلاحات اور دیگر عوام دوست قوانین پاس ہو سکیں
گے اور یوں موجودہ جاگیر داریت کے نظام سے نجات پانے کے لیے راہ ہموار ہو
جائے گی ۔۔ |