امریکہ کی قید میں موجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کے حق میں آواز اٹھانے پر اور ان کے لیے کالمز لکھنے پر بہت سے لوگوں کو
تکلیف ہوتی ہے کیوں کہ ان سے امریکہ کی مخالفت برداشت نہیں ہوتی ہے، اور وہ
کسی نہ کسی بہانے کوشش کرتے ہیں کہ ایسی آوازوں کو خاموش کردیا جائے اور جب
اس میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو پھر کوشش کرتے ہیں کہ جس نے کالم لکھا ہے
اس کی ذات اور سیاسی وابستگی کو نشانہ بنایا، ذات پر کیچڑ اچھالا جائے۔ اور
لوگوں کو متنفر کیا جائے تاکہ لوگوں تک اصل حقائق نہ پہنچ سکیں۔ ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کے معاملے پر آواز آٹھانے پر دینی جماعتوں کو معطون کیا جاتا
ہے کہ ملک میں اتنی خواتین ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں یہ اس پر آواز
کیوں نہیں اٹھاتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ الزام وہ لوگ لگاتے ہیں
جو ہر حکومت میں شامل رہے ہیں اور نہ صرف شامل رہے ہیں بلکہ ہر حکومت کی
ناک کا بال رہے ہیں۔ اب عقلی طور اور منطقی طور پر تو یہ بات ہونی چاہیے کہ
جو گروہ کئی سالوں سے بر سر اقتدار ہے اس سے ایسے معاملات پر بات کرنی
چاہیے، اس سے سوال کرنا چاہیے کہ ملک میں یہ انتشار، یہ ظلم کیوں ہورہا ہے؟
اس کر برعکس یہ سوال ان سے کیا جاتا ہے جو کہ حکومت میں شامل ہی نہیں ہیں۔
اس سے بھی دل نہیں بھرا تو پھر اپنی جاہلیت بلکہ مطلق جاہلیت اور اندھے
تعصب کا شکار ہوکر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر کہا جاتا ہے کہ ََ
امریکہ بیسڈ سائنٹسٹ تھیں، ان کو امریکہ نے ہی ٹرینڈ کیا تھا اور وہ لے گیا۔
یا پھر کبھی کہا جاتا ہے کہ َ َ ڈاکٹر عافیہ پر کچھ مقدمات ہیں جن کی
پیشیاں وہ بھگتا رہی ہیں۔ یہ انتہائی شرم ناک رویہ ہے بالخصوص ان لوگوں کے
لیے جو کہ خود کو کراچی کیَ َ نمائندہ اور کراچی کی اصل سیاسی جماعتَ َ
کہتے ہیں اس لیے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی سے ہی ہے۔ دوسری بات
یہ کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں نہیں بلکہ ہیں، تیسری بات یہ کہ امریکہ نے جو
مقدمات قائم کیے ہیں ان کی کیا حقیقت ہے۔ اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ وہ
امریکہ جو نائین الیون کا الزام القاعدہ پر لگاتا ہے لیکن آج تک اس کا کوئی
ثبوت نہیں دیا جاسکا ہے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ نائین الیون امریکہ نے خود
برپا کیا تھا، اس امریکہ کے مقدمات کی بات کرتے ہیں۔ کس قدر بےغیرتی کی بات
ہے خصوصاً اس فرد کے لیے جو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا
دعویٰ کرتا ہو۔ ایک مسلمان عورت کو اس کے ملک سے اغواء کیا جاتا ہے، اس پر
جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں، اس کی تذلیل کی جاتی ہے، غیر مسلم مردوں کے
سامنے اس کو برہنہ کر کے تلاشی لی جاتی ہے، اور نبی مہربان صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی محبت کےدعوے دار کہتے ہیں کہ امریکہ نے ٹرینڈ کیا تھا وہی لے
گیا۔
اس حوالے سے تاریخ اسلام سے ایک واقعہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جسے
ابن ہشام نے اپنی کتاب میں تفصیل سے قلمبند کیا ہے ”ایک عورت بازار میں
خریداری کے لیے گئی۔ ایک زرگر کی دکان پر کچھ اوباش نوجوانوں نے اسے چھیڑنا
اور تنگ کرنا شروع کردیا۔ عورت نے نقاب پہنا ہوا تھا۔ نوجوانوں نے کہا کہ
اپنا چہرہ دکھاؤ۔ عورت کے انکار پر زرگر نے اس کی آنکھ بچا کر اس کے کپڑے
کو کسی چیز سے باندھ دیا۔ جب وہ جانے کے لیے پلٹی تو کپڑا کھنچ جانے کی وجہ
سے بے پردہ ہوگئی۔ شرم اور رنج کی وجہ سے عورت چلا اٹھی۔ ایک شخص قریب سے
گزر رہا تھا۔ عورت کی فریاد سن کر رُک گیا۔ حقیقت معلوم ہونے پر اسے طیش
آگیا، تلوار نکالی اور زرگر کی گردن اُڑا دی جس پر زرگر کے ساتھیوں نے اُسے
گھیرے میں لے لیا اور قتل کردیا۔“ یہ واقعہ آج سے 14سو سال قبل عرب کے ایک
بہت چھوٹے سے شہر مدینے میں پیش آیا۔ بازار یہودی قبیلے بنو قینقاع کا تھا
اور خریداری کے لیے جانے والی عورت مسلمان تھی۔ اہلِ مدینہ کو اسلام کی
روشنی سے منور ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، پہلی اور اکلوتی اسلامی
نظریاتی ریاست قائم ہوچکی تھی اور معرکہ بدر رونما ہوچکا تھا۔ خطرات میں
گھری نومولود ریاست کے مسلمان شہریوں کی تعداد چند ہزار سے زائد نہ تھی۔ ان
میں سے وہ جو مکہ سے ہجرت کر کے آئے تھی، معاشی لحاظ سے مستحکم نہ تھے
ریاست کی باقاعدہ تنخواہ دار فوج نہیں تھی یعنی ہر وہ شخص جو لڑسکتا تھا،
مجاہد تھا۔ اسلحے اور دیگر سامانِ حرب کا حال تو بدر کے موقع پر واضح ہوچکا
تھا۔ بنوقینقاع کے بازار میں اس مظلوم عورت کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ
بظاہر غیر معمولی نوعیت کا نہیں تھا۔ مارکیٹوں، بازاروں میں٬ حتیٰ کہ گلیوں
اور سڑکوں پر اوباش نوجوان آج بھی لڑکیوں پر فقرے کستے اور انہیں چھیڑتے
ہوئے نظر آجاتے ہیں۔ کسی مسلمان عورت کا چہرہ دیکھنے کے لیے البتہ انہیں
فرمائش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لیے کہ پردے کا رواج مغربی تہذیب کے
غلبے کے ساتھ ساتھ مسلمان معاشروں میں خود بخود کم ہوتا چلا گیا ہے لیکن
واقعہ کیونکہ اولین اسلامی ریاست میں پیش آیا تھا اور اس ریاست کے حکمران
دنیا کے سب سے غیرت مند انسان تھے اور رہتی دنیا تک کے لیے خواتین کے حقوق
کے سب سے بڑے محافظ٬ سب سے عظیم داعی‘ جنہوں نے بچیوں کو پیدائش کے بعد
زندہ دفن کردینے والوں کے معاشرے میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے مقدس
رشتوں کے احترام کا درس دیا اور نہ صرف درس دیا بلکہ عورتوں کے عزت و
احترام کی وہ مثالیں چھوڑیں جو روزِ قیامت تک بنی نوع انسان کے لیے مشعلِ
راہ ہیں۔ والی ریاست ِ مدینہ، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مسلمانوں کو لے کر بنوقینقاع
کی آبادی کا محاصرہ کرلیا۔ محاصرہ پندرہ روز جاری رہا جس کے بعد انہوں نے
ہتھیار ڈال دئیے ان میں 700 مردانِ کار شامل تھے ان کے ہتھیار ضبط کرلیے
گئے جن میں 1500 تلواریں، 300 زرہیں، 2000 نیزے اور 500 ڈھالیں شامل تھیں۔
اس محاصرے میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوا اور مسلمانوں میں بعض لوگوں کی
درخواست اور سفارش پر بنو قینقاع کو صرف مدینہ بدری کی سزا دی گئی۔ روایات
سے پتا چلتا ہے کہ اس یہودی قبیلے کی ساری آبادی کو مدینہ بدر کردیا گیا
تھا۔ سیرت کی تمام اہم کتب میں، حتیٰ کہ صحیح بخاری میں بھی مذکورہ بالا
واقعہ جزوی تفصیلات کے ساتھ ملتا ہے اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہودیوں کا
یہ قبیلہ اسلام قبول کرنے سے گریزاں تھا اورشجاعت و جنگجوئی میں خود کو اہل
قریش سے برتر خیال کرتا تھا۔ تمام مؤرخین ان کی جلا وطنی کے واقعے کا فوری
سبب ایک مسلمان عورت کی بے حرمتی کے واقعے کو ہی گردانتے ہیں۔ رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار اس پر کیا کہیں گے؟؟ محترم صرف
کالم لکھنا اور دوسروں کو لعن طعن کرنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے بلکہ عمل
سب کچھ بتا دیتا ہے۔ اب سوال تو یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ دوسروں کو عبداللہ
بن ابی کا لقب دینے والوں کا عمل ان کے گروہ کا تعین کررہا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ گروہ دراصل قاتلوں کا سرپرست تھا سرپرست ہے اور رہے
گا، حق پرستی کا دعویٰ کرنے سے کوئی حق پرست نہیں بن جاتا ہے، دینی جماعتوں
پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ملک عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں پر آواز
نہیں اٹھاتی یہ ایک بہتان ہے، جھوٹ ہے، البتہ گزشتہ نو سال سے حکومت میں
رہنے والی حق پرستوں کی جماعت کی حکومت میں کراچی میں مزار قائد کے احاطے
سے حوا کی ایک بیٹی کواغواء کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی
جاتی ہے، اور پھر سڑک پر نیم مردہ حالت میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ابھی تک اس
مظلوم کو انصاف نہیں ملا ہے، کراچی میں ناظم بھی حق پرست ہے، اور سندھ کا
گورنر بھی حق پرست ہے لیکن اس مظلوم کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ سولنگی قبیلے
کی اس مظلوم لڑکی کو بھی آج تک انصاف نہیں مل سکا ہے، جس کو اس کے ظالم چچا
نے سر عام قتل کیا نہ صرف قتل کیا بلکہ قتل سے پہلے سرعام ایک میدان میں
مردوں کی موجودگی میں اس کا حمل بھی گرایا گیا۔ حق پرست گورنر، درجنوں
وزراء۔ اور ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کی موجودگی کے باوجود نام نہاد حق
پرست اس واقعے پر کوئی آواز نہیں اٹھاتے ہیں اور اس مظلوم کو انصاف نہیں
ملا ہے، کراچی میں ایک عورت کو زندہ جلایا جاتا ہے اور سوات میں ایک عورت
کے کوڑے لگنے پر تڑپ اٹھنے والے اس واقعے پر خاموش ہیں جبکہ اصولی طور پر
وہ حکومت میں شامل ہیں، گورنر بھی ان کا ہے، وفاق میں بھی ان کی نمائندگی
ہے۔ ان کو دوسروں کو کہنے کے بجائے اس تمام معاملات کی خود تحققق کرنی
چاہیے تھی کہ یہ سوات نہیں تھا بلکہ کراچی اور سندھ میں رونما ہونے والے
واقعات ہیں اسی کراچی میں جس کی نمائندگی کا جھوٹا دعویٰ یہ لوگ کرتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جن کا کام ہے امن و امان برقرار رکھنا ان کے سوال
کرنے کے بجائے جو لوگ اس وقت سسٹم میں ہی نہیں یعنی اس وقت جو انتطامی
اختیارات ہی نہیں رکھتی ہیں ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ ملک کے مسائل
حل کریں۔ انشاء اللہ حل کریں اور ہم ہی حل کریں وقت بدل رہا ہے۔ خوش آئند
بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف قانونی نوٹس
جاری کردیا ہے،اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل
کرائے، انشاء اللہ اب بارہ مئی اور نو اپریل کے قاتل بھی گرفتار ہونگے،
جنکے بارے میں ایک بھائی کہتے ہیں بارہ مئی کے ذمہ داروں کے خلاف کیس کریں
اور سانحہ نو اپریل کے ذمہ داروں کے خلاف کیس کریں تو ان کی یہ خواہش بھی
اللہ نے پوری کردی ہے کہ کیس تو پہلے ہی قائم ہیں اب امید ہے کہ مجرم بھی
انصاف کے کٹہرے میں ہونگے۔ |