دورے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دورۂ
صرف دل کا ہوتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ مرگی اور بے ہوشی کا ہوتا ہے، مگر
اِن دوروں سے ہٹ کر ایک غیر ملکی دورۂ بھی ہوتا ہے جو ہمیشہ حکمرانوں کا ہی
مقدر ٹھہرتا ہے۔ دورۂ چاہے کوئی بھی ہو، ہر طرح سے غریب عوام کے لیے ہر حال
میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چلو دِل کا دورۂ تو
ہوتا ہی نقصان دہ ہے، پاگل پَن اور مرگی کا دورۂ بھی کوئی اچھی علامت نہیں
اور بے ہوشی کا دورۂ تو بس نہ پوچھئے، مگر یہ غیر ملکی دورۂ کیسے نقصان دہ
ہو سکتا ہے۔ یہ تو خارجی تعلقات کو فروغ دیتا ہے، قرضوں کی سپلائی بحال
کرتا ہے، باہمی اقتصادی تعلقات مستحکم بناتا ہے اور آنے والے چیلنجوں کا مل
کر مقابلہ کرنے کے عزم کو جلا بخشتا ہے، لیکن جناب عالیٰ جب یہ غیر ملکی
دورے میڈیا کے سینکڑوں نمائندوں، درجنوں ذاتی خادموں، مَن پسند شاہی افسران
کے پینل، پورے خاندان کے افراد اور پوری کابینہ کے ارکان پر مشتمل ہوں اور
قومی خزانے کے کروڑوں روپے ہوٹل کے بیروں کی ٹِپ، سیرو و تفریح اور شاپنگ
کی نظر ہو جائیں تو یہ غیر ملکی دورے دل، دماغ، پاگل پَن اور بے ہوشی کے
دوروں سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے انتہائی
شریف اور لاثانی حکمران اپنے اپنے دورِ اقتدار میں اس قسم کے غیر ملکی دورے
کر چکے ہیں۔ اِن دوروں نے ہماری معیشت کو اکیسویں صدی میں ’’گدھا گاڑی‘‘ پر
سوار کر دیا ہے، جبکہ ہمارے مدمقابل اور مدمخالف ممالک کی معیشت ’’راکٹ‘‘
پر سوار ہو کر چاند کی سیریں کر رہی ہے۔ حکمرانوں کے غیر ملکی دورے اگر
بامقصد ہوں تو اس سے ملک کے عوام اور معیشت دونوں کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن
اگر شاہانہ اخراجات کے ساتھ یہ دورے صرف فیملی وزٹ کا درجہ اختیار کر جائیں
تو اس سے نہ تو بیرونی دنیا میں کوئی اچھا امیج پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی
عوام ایسے دوروں سے خوش ہوتے ہیں۔ ماضی اور آج کے حکمران اب تک تو شاہانہ
اخراجات کے ساتھ ہی دورے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماضی قریب میں سابق صدر پرویز
مشرف سب سے زیادہ بیرونی سفر کرنے والے سربراہ کے طور پر معروف ہو گئے تھے۔
ان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے بھی ساڑھے تین سال میں دوروں کی سنچری مکمل کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا دور تو غیر ملکی دوروں کے نقطہ نظر سے کافی معروف
رہا۔ صرف پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کے صدر اور وزرائے اعظم نے ملکی خزانے
کے پانچ ارب روپے ڈبو کر ایک سو اڑتالیس دورے کیے۔ ان دوروں کیلئے ہر بار
ساتھ رہنے والا ایک بڑا طیارہ، اس کا درجنوں افراد کا عملہ، ساتھ جانے والے
درجنوں افراد کا وفد، ان سب کا دوسرے ملکوں میں اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام،
بھاری سفری الاؤنس اور سیر سپاٹا قومی خزانے اور پاکستانی سفارت خانوں کے
خرچے سے ہوتا رہا۔ سابق وزیراعظم گیلانی ایک دفعہ اتنا بڑا وفد لے کر یورپ
گئے کہ میزبانوں نے انہیں سرکاری طور پرٹھہرانے سے صاف انکار کر دیا۔ راجہ
پرویز اشرف نے بھی اپنی مختصر مدت میں بیرونی دوروں کاتمغہ اپنے سینے پر
سجایا۔ وہ اپنے دورۂ لندن کے دوران کروڑوں روپے سے اعلیٰ پرتعیش ہوٹلوں میں
قیام اور بیٹے بہو سمیت دیگر رشتہ داروں کے ساتھ شاپنگ بھی کرتے رہے۔ وسطی
لندن کے نائٹس برج کے علاقے میں قائم فائیو اسٹار ہوٹل برکلے میں چار روزہ
قیام کیلئے انہوں نے اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ کے لیے چھبیس کمرے بک کرائے،
جن کا مجموعی خرچہ چونسٹھ ہزار پاؤنڈ بتایا جاتا ہے۔ میاں صاحب کا ماضی اور
حال بھی غیر ملکی دوروں کے حوالے سے کافی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ اب کی بار
بھی میاں صاحب جب سے اقتدار میں آئے ہیں طوفانی رفتار سے دُنیا بھر کے دورے
کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی
تنازعات کو بھی اپنے ویژن کے مطابق حل کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے
دورِ اقتدار کے صرف پانچ مہینوں میں آٹھ سرکاری و نجی غیر ملکی دورے کیے
اور یوں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ملک سے باہر گزارا۔ جون میں عہدہ سنبھالنے
کے بعد وہ مہینہ بھر ملک میں رہے لیکن جولائی کے آتے ہی ان کے غیر ملکی
دوروں کا آغاز ہو گیا۔ جولائی کے پہلے ہفتے انہوں نے چین کا پانچ روزہ دورۂ
کیا۔ اگلے مہینے رمضان میں وزیراعظم عمرہ کی غرض سے چھ روزہ نجی دورے پر
سعودی عرب چلے گئے۔ سولہ ستمبر کو وہ تین روزہ دورۂ پر ترکی روانہ ہو گئے۔
وہاں سے واپس آئے تو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے لندن سے ہوتے
ہوئے امریکا نکل پڑے۔ اس دورۂ میں ہی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کا انتظام
ہو سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور انیس اکتوبر کو میاں صاحب نے دوبارہ
امریکا کیلئے اُڑان بھری۔ وہ ایک ہفتہ تک امریکا کی ’’سرکاری سیر‘‘ کے بعد
فقط دو روز کے لیے وطن واپس تشریف لائے اور پھر برطانیہ کی سیر کو نکل گئے۔
تین نومبر کو وہ برطانیہ سے واپس تشریف لائے تو اگلے مرحلے میں پندرہ سے
سترہ نومبر تک سری لنکا اور پھر اٹھارہ سے بیس نومبر تک تھائی لینڈ کے
سرکاری دورے پر نکل پڑے۔ موجودہ زمانے میں ملکوں کے سربراہان کے لیے غیر
ملکی دورے بہت اہم ہو چکے ہیں، لیکن یہ دورے ملکی مسائل کو نظرانداز کرنے
کی قیمت پر نہیں ہوتے۔ بجلی و گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ، مہنگائی ، ڈرون حملوں
،فسادات اور دہشت گردی کی ماری عوام کے پُرزور اسرار پر میاں نواز شریف
اپنا سری لنکا اور تھائی لینڈ کا دورۂ مکمل کرکے پاکستان کے دورۂ پر تشریف
لا چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اگلے مرحلے میں انہوں نے دورۂ افغانستان
کیلئے بھی بیگ تیار کر رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب کا حالیہ ’’
دورۂ پاکستان‘‘ کتنے دنوں پر مشتمل ہوگا۔ |