ہنگو کی تحصیل ٹل میں مدر سے پر ڈرون حملے میں پانچ
طالب علم جاں بحق اور آٹھ زخمی ہوگئے۔ ہلاکتوں کی کل تعداد آٹھ بتائی گئی
ہے ۔ صبح ہی سے علاقے میں جاسوسی طیاروں کی پروازیں جاری تھیں، صبح 5بجے کے
قریب علاقے میں چاردھماکوں کی آواز سنی گئی تھی تاہم معلوم ہوا ہے کہ یہ
ڈرون حملہ تھا جو ایک مدرسے پر کیا گیا ہے۔ ڈرون طیاروں کے حملے سے علاقے
میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جبکہ جاسوسی طیاروں کی پروازیں اب بھی جاری
ہیں۔دوسری طرف سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کو وزیراعظم کے مشیر برائے
خارجہ امور سرتاج عزیز نے بتایا ہے کہ امریکہ نے اب یہ یقین دہانی کرا دی
ہے کہ حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان آئندہ مذاکرات کے دوران کوئی
ڈرون حملہ نہیں ہو گا، حکیم اﷲ محسود ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے جو پہلے سے انکے
نشانہ پر تھے، اسی لئے اس پر حملہ ہوا، بدقسمتی سے حملے کی ٹائمنگ غلط
ہوگئی، وزیر اعظم کا دورہ امریکہ، برطانیہ انتہائی کامیاب رہا، افغانستان
سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان اس سے متاثر ہو
گا، امریکہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کو پاک افغان یا پاکستان
بھارت تنازعہ کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا، نیٹو سپلائی پر امریکہ اور
نیٹو ممالک سے وصولیوں کے ریٹ سابق حکومت نے مقرر کیے تھے اب تبدیل کرنا
مشکل ہے، ملکی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کی
حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، قرضے معاف کروائے جائیں تو آئندہ قرضے لینا
مشکل ہو جاتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی حاجی عدیل نے مشیر خارجہ سے حکومت کی خارجہ
پالیسی کے حوالے سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ، برطانیہ سے
پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم
پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لئے بین الاقوامی برادری سے تعلقات کو بہتر
بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے دورہ امریکہ کے دوران پاک امریکہ تعلقات کے
ساتھ ساتھ دہشت گردی کی جنگ اور خطے کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستانی تشویش سے آگاہ کیا گیا ہے۔ حکیم اﷲ
محسود ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے اور پہلے سے ریڈار میں نشانہ کیلئے فیڈ کیے گئے
تھے لیکن بدقسمتی سے ان پر ڈرون حملہ اس وقت ہوا جب پاکستان طالبان کے ساتھ
مذاکرات کی بات چیت کر رہا تھا ۔ ڈرون حملے کی وجہ سے بات چیت معطل ہو گئی
ہے۔ حاجی عدیل کے مطابق انکے خیال میں امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے روکنے
کی کوئی واضح یقین دہانی نہیں ملی ہے کیونکہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو
اسکا اعلان کسی مشترکہ اعلامیے میں کیا جاتا۔ وزیراعظم نوازشریف کی صدر
اوباما سے ملاقات کے بعد اسکا اعلان لازمی کیا جاتا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکی صدر پاکستان میں پرامن حالات اور مستحکم
جمہوریت کے خواہاں ہیں۔ طالبان سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے اور اس عمل
کو آگے بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے کہا ہے کہ ڈرون
حملوں میں 70 فیصد سے زیادہ اہداف حاصل کئے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان اور
امریکہ کے درمیان مجوزہ سرحدی معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور حکومت
نے اس ضمن میں غیر ملکی جارحیت اور مشاورت جیسے الفاظ کی وضاحت بھی مانگی
ہے۔ انہوں نے کہا کہ جارحیت کیسی ہو گی کون کرے گا اور کس سے مشاورت کی
جائے گی اس کی وضاحت کی جائے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک
مذاکرات اگلے سال مارچ میں ہوں گے۔ پاکستان معاہدے کے تحت امریکہ اور نیٹو
افواج کے دفاعی ساز و سامان کی واپسی کو نہیں روک سکتا۔ تاہم حاجی عدیل نے
اصرار کیا کہ سرتاج عزیز کے مطابق امریکہ نے یہ تاثر دیا ہے کہ طالبان سے
مذاکرات شروع ہونے کی صورت میں ان افراد کو ڈرون حملوں میں نشانہ نہیں
بنایا جائیگا جو امریکہ کے دشمن نہیں ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بول رہے ہیں اور اہم قومی
امور سے نہ صرف یہ کہ قوم کو بلکہ پاریلمان کو بھی بے خبر رکھے ہوئے ہیں
جسے بدقسمتی ہی سے توبیر کیا جاسکتا ہے حکومتی دعوے کے باوجود ڈرون جملوں
کا سلسلہ رکا نہیں ،تھما نہیں بلکہ جاری و ساری ہے ۔ ملک کے اندر بھی
صورتحال سب کے سامنے ہے ایک شرمناک لوٹ مار مچی ہوئی ہے ۔ قومی احتساب
بیورو نے خیبر پی کے پولیس کیلئے اسلحہ کی خریداری میں مبینہ طور پر 1 ارب
80 کروڑ روپے کی بدعنوانی پر سابق آئی جی پولیس ملک نوید اور مضاربہ سکینڈل
کے اہم ملزم مفتی شبیر عثمانی اور ان کے بھائی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
ملک نوید کے شریک ملزم اسلحہ کے ٹھیکیدار مجید کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا
ہے۔ نیب تینوں ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کے حصول کیلئے انہیں آج احتساب
عدالت میں پیش کریگا۔ سابق آئی جی ملک نوید کو پولیس کیلئے 7 ارب روپے کے
اسلحہ کی خریداری میں اختیارات کے ناجائز استعمال پر بدعنوانی اور رشوت کے
حصول پر گرفتار کیا گیا۔ دوسری طرف نیب نے مضاربہ سکینڈل کے اہم ملزم مفتی
شبیر عثمانی اور انکے بھائی سجاد احمد کو ٹیکسلا سے گرفتار کیا گیا۔ ملزمان
نے لوگوں سے مضاربہ کے نام پر کروڑوں روپے اکٹھے کئے اور نیب کو لوگوں کی
طرف سے مفتی شبیر عثمانی سے 14 ملین روپے کی وصولی کی درخواستیں موصول ہوئی
ہیں۔‘‘
ہماری نظر میں حکومت مسائل کے حل میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے ۔
پنجاب میں مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالے اضافے سے حکومت اور
عوام کو 2001ء میں جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے ساتھ رخصت
ہونیوالے مجسٹریٹوں کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف کے بلدیاتی
نظام کے نفاذ کے کچھ ہی عرصہ بعد مجسٹریٹوں کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگ
گئی تھی۔ اس وقت میونسپل مجسٹریٹ بھرتی کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ انہیں
مہنگائی کنٹرول کرنے کے اختیارات دئیے گئے مگر اس مثبت تجویز پر عمل کرنے
کی بجائے ضلعی حکومت اور ٹانز کے افسروں کو مجسٹریسی اختیارات دینے کا شارٹ
کٹ راستہ تلاش کر لیا گیا ہے جو آج تک چل رہا ہے۔ اس فیصلے کی بدولت آج بھی
گریڈ 11 سے 16 کے افسروں کو مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے مجسٹریسی اختیارات
دئیے جاتے ہیں جسے یہ مجسٹریٹ کے افسروں کو درجہ اول کے اختیارات قرار دیتے
ہیں۔ یہ افسر اپنے کمروں کے باہر اور ذاتی گاڑیوں پر مجسٹریٹ درجہ اول کی
تختی بھی آویزاں کرتے ہیں۔ ذاتی گاڑیوں پر نیلی لائٹ لگا کر جگہ جگہ
مہنگائی کنٹرول کرنے کے نام پر سستی خریداری بلکہ بہتر الفاظ میں دکاندار
سے خدمت لیتے بھی نظر آتے ہیں۔ اتوار بازاروں میں سٹال لگانے والے ان
افسران کو پھل اور سبزی کی شکل میں ہفتہ ادا کررہے ہیں۔پنجاب کے دارالحکومت
ضلع لاہور میں اس وقت 100 مجسٹریٹ’’ عوامی خدمت ‘‘میں مصروف ہیں جن میں ڈی
ایم جی، بی سی ایس اور دیگر سروس کے گریڈ 17، 18، 19 کے افسروں کی تعداد 31
ہے۔ تحصیلدار اور نائب تحصیلدار بھی اس سعادت سے محروم نہیں رہے۔ گریڈ 14
اور 16 کے یہ 23 افسر بھی درجہ اول مجسٹریٹ کی تختی لگاتے ہیں۔ ان اعلی
افسروں کے علاوہ 5 سیکرٹری مارکیٹ کمیٹی، سپرنٹنڈنٹ ریونیو لاہور، جنرل
اسسٹنٹ ریونیولاہور، سی او کاہنہ نو، سی او رائیونڈ بھی مجسٹریٹوں کی صف
میں شامل ہیں۔ ان افسروں کے کار خاص اور ماتحت اپنے افسروں کے دستخطوں والے
چالان ٹکٹ لیکر روزانہ نیلی بتی والی گاڑی میں شکار کرنے نکلتے ہیں اور
لاکھوں روپے کے جرمانے کر کے حکومت کو سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے ۔حکومت
اپنے مجسٹریٹوں کے ذریعے جرمانوں کی مد میں رقم اکٹھی کرنے میں کامیاب رہی
ہے مگر مہنگائی میں اضافے پر کنٹرول پر مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ سارے صوبے کا
یہی حال ہے اور ہمارے وزیر خزانہ کی باتیں سن کر رونا آتا ہے کہ وہ مریخ پر
رہیت ہیں یا اسی پاکستان کے باشندے ہیں جن پع کمر توڑ مہنگائی کا اثر ہی
نہیں ہورہا ،شاید وہ سبزیاں کھاتے ہیں نہ ہی انہیں آٹے دال گوشت کا بھائی
معلوم ہے۔جب ساری خلومت ہی بے حس ہوجائے تو شیخ رشید جیسے رکن اسمبلی کا
بجلی کابل لیرانے پر مریخ کی مخلوق مذاق کیوں نہ اڑائے۔
دوسری طرف آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر صدارت ان کے دور کی مسلح
افواج کے فارمیشن کمانڈرز کی آخری کانفرنس ہوئی جس میں سکیورٹی امور سمیت
اہم امور پرغور کیا گیا۔ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز
کیانی کی زیر صدارت اجلاس میں ملکی سرحدوں کی صورتحال، دہشت گردی کے خلاف
جنگ، ملک میں امن وامان کی صورتحال سمیت مسلح افواج کے پیشہ ورانہ امور کا
جائزہ لیا گیا۔ ریٹائرمنٹ سے قبل جنرل اشفاق پرویزکیانی نے آخری مرتبہ پاک
فوج کے اس اہم فورم کی صدارت کی، کانفرنس میں کورکمانڈرز، فارمیشن کمانڈر
اور پرنسپل سٹاف افسر شریک تھے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اشفاق
پرویز کیانی نے کہا کہ وہ پیشہ وارانہ اعتبار سے دنیا کی بہترین فوج کی
کمان کرنے کا موقع ملنے پر اﷲ کے شکرگزار ہیں۔ انہوں نے کانفرنس کے تمام
شرکا کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے
میں ان کی تہ دل سے مدد کی۔ انہوں نے پاک فوج کی کامیابیوں کا تفصیل سے
ذکرکیا اور کہا کہ پاک فوج ہمیشہ اعلی ترین پیشہ وارانہ معیار کے حصول
کیلئے کوشاں رہتی ہے۔آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ و ہ اﷲ
تعالی کے شکر گزار ہیں کہ انہیں دنیا کی بہترین فوج کی قیادت کرنے کا موقع
فراہم ہوا یہ ایسی فوج ہے جس کی پیشہ وارانہ قابلیت کو ساری دنیا میں مانا
جاتا ہے۔ انہوں نے پاک فوج کی بحیثیت ادارہ کامیابیوں کیلئے کوششوں کا ذکر
کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج ہمیشہ بہتر سے بہترین پرفارمنس کیلئے کوشاں رہتی
ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی دنیا بھر میں صلاحیتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
سکیورٹی امور اور دہشت گردی کیخلاف بہترین حکمت عملی اپنائی، امید ہے
آنیوالی قیادت اعلی روایات کو آگے بڑھائے گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنرل کیانی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنی مدت ملازمت
پوری کرکے 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ بطور آرمی چیف ان کی ممکنہ طور
پر یہ آخری کانفرنس تھی کیونکہ اس کے بعد 29 نومبر کو جنرل اشفاق پرویز
کیانی اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ الوداعی کانفرنس میں تمام شرکانے
آرمی چیف کے گزشتہ 6 سال کے عرصے کے دوران ان کی گرانقدر خدمات کو سراہا
اور ان کے مختلف قومی اور سلامتی سے متعلقہ معاملات پر موقف کی تعریف کی۔
کیونکہ ان کے موقف کی وجہ سے پاک فوج کی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ فارمیشن
کمانڈرز نے پاک فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافے اور بہتری کو سراہا
اس کے علاوہ محرم الحرام کے دوران امن و امان کی صورتحال قابو کرنے کیلئے
سول انتظامیہ کی امداد کیلئے پندرہ ہزار جوانوں کو تعینات کرنے کے فیصلے کی
بھی تعریف کی گئی اور پاک فوج کے مختلف شہروں میں کردار کو خراج تحسین پیش
کیا گیا کیونکہ پاک فوج کے جوانوں نے محرم الحرام کے دوران کشیدگی والے
علاقوں میں متحرک گروپوں کو لڑائی سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔
شرکاکا کہنا تھا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی پاک فوج کی قابلیت اور
صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے کی جانے والی خدمات کی وجہ سے ان کا نام
تادیر یاد رکھا جائے گا انہیں پاک فوج کیلئے گرانقدر خدمات کے سلسلے میں
ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد رکھا جائے گا۔ آرمی چیف نے اس کانفرنس سے قبل
وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی اور انہیں اپنی ریٹائرمننٹ جبکہ ایک خبر رساں
ادارے کے مطابق نئے آرمی چیف کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں موجودہ جمہوریت کا جو ڈھانچہ کھڑا ہے اور جس طرح
آج تمام ادارے قائم ہیں اس کا سہرا بھی جنرل موصوف کے سر ہے جنہوں نے
انتہائی نامساعد حالات میں جبکہ ملک’’ پراکسی وار ‘‘کا شکار ہے نہ صرف یہ
کہ انہیوں نے عام انتخابات کے انعقاد میں مدد دی ،فوج کو کسی سیاست میں بھی
ملوث نہیں ہونے دیا اور ملک کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات سے بھی محفوظ
رکھا ۔یہ اعزاز بھی انہیں کو جاتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے قلع قمع کے
لئے بھی گرانقدر خدمات انجام دیں اور فوج کی صحیح سمت میں رہنمائی کی ۔فوج
کے وقار کو بحال رکھنے اور اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں بھی
ان کا کلیدی کردار رہا ہے جسے برسوں یاد رکھا جائے گا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ
نئے آنے والے پاک فوج کے سربراہ بھی ان سنہری روایات کو آگے بڑھائیں گے۔ |