حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جنگ بدر کے دن
قتل ہونے والے کافروں کے بارے میں نبی اکرمؐنے حکم دیا کہ ان کو گھسیٹ کر
کنویں میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا۔ پھر
حضورؐنے کھڑے ہو کر فرمایا اے کنویں والو !کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو
سچا پایا ۔مجھ سے تو میرے رب نے جو وعدہ کیاتھا میں نے تواسے سچا پایا۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲؐ آپ مردہ لوگوں سے بات کر رہے ہیں ؟حضور
نے فرمایا اب ان کو معلوم ہوگیا ہے کہ ان کے رب نے ان سے جو وعدہ کیا تھا
وہ سچا تھا ۔حضرت ابو حذیفہ بن عتبہؓ نے دیکھا کہ ان کے و الد کو گھسیٹ
کرکنویں میں ڈالا جا رہا ہے تو حضورؐ نے ا ن کے چہرے میں ناگواری کے اثرات
محسوس کئے اور فرمایا اے ابو حذیفہ ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اپنے
والد کے متعلق جو منظر دیکھا ہے اس سے تمہیں ناگواری ہو رہی ہے۔ انہوں نے
کہاکہ یا رسول اﷲؐمیرا باپ سردار تھا مجھے امید تھی کہ اﷲ تعالیٰ اسے ضرور
اسلام کی ہدایت دینگے لیکن جب اس کا انجام یہ ہوا (کہ کفر پر ذلت کے ساتھ
مارا گیا)تو مجھے اس کا رنج ہو رہا ہے ۔حضورؐ نے حضرت ابو حذیفہ ؓ کے لئے
دعا ئے خیر فرمائی۔
قارئین!نہ جانے کیوں کبھی کبھی ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت تو بدل گیا
ہے لیکن دنیا کے حالات شاید نہیں بدلے آج بھی مصر کے قدیم بازاروں میں لگی
غلاموں کی منڈیوں کی طرح انسانوں کی تجارت ہو رہی ہے ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ
اب ضرورتوں کی خاطر بکنے والا انسان بزعم خود اپنے آپ کو آزاد تصور کرتاہے
لیکن بھلا پاؤں سے بندھی ہوئی زنجیر کو کوئی زیور کیسے سمجھ سکتا ہے اور اس
کی جھنکار کو موسیقی قرار دے کر اس سے کیسے لطف اندوز ہو سکتا ہے یہ کل کی
بات ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت آصف علی زرداری صدر پاکستان کی قیادت میں
ملک وقوم کی مناسب مرمت وخدمت کا فریضہ سرانجام دے رہی تھی اور ان کی حکومت
کے ناقدین بشمول موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف اینڈ کمپنی انہیں ضمیر
فروش قرار دیتے تھے، پیپلزپارٹی کی حکومت کو ضمیر فروشی کا طعنہ دیا جاتا
تھا ،رینٹل پاور پلانٹ سکینڈل، حج کرپشن سکینڈل، اوجی ڈی سی سکینڈل، سٹیل
مل سکینڈل ،این آئی سی ایل سکینڈل سے لے کر درجنوں منصوبہ جات میں کھربوں
روپے کی کرپشن کے الزامات آصف علی زرداری اور ان کے پیاروں پر لگائے جاتے
تھے ۔پیپلزپارٹی کی حکومت کے ناقدین کا یہ خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی
ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد جمہوریت کی بحالی کے باوجود پیپلزپارٹی کی عوامی
حکومت انکل سام کے سامنے اسی طرح سر جھکائے کھڑی ہے جس طرح جنرل مشرف کے
دور حکومت میں امریکہ کے ہر حکم کی تعمیل کی جاتی تھی۔ ان ناقدین کا یہ بھی
کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے لے کر دیگر سینکڑوں انتہائی پرہیزگار اور
مضبوط عقیدے وعمل کے حامل پاکستانی مسلمانوں کو امریکی دباؤ اور لالچ میں
آکر کروڑوں ڈالرز کے عوض فروخت کر کے ’’بردہ فروشی‘‘کی انتہائی شرمناک
مثالیں قائم کی گئی تھیں ان تنقید کرنے والے گستاخوں کا یہ بھی خیال تھا کہ
جنرل مشرف کے دور حکومت سے شروع ہونیوالا بردہ فروشی کا یہ سلسلہ رکنے کی
بجائے مزید زور وشور سے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جاری رہا اور یہاں
تک ایک انتہائی گھٹیامثال قائم ہوئی کہ لاہور میں سرعام معصوم پاکستانیوں
کو قتل کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کو کروڑوں روپے کے عوض امریکہ کو دیدیا گیا
پوری دنیا میں پاکستان کے متعلق یہ تاثر ابھرا کہ یہ قوم پیسے کے لئے ضمیر
فروشی، بردہ فروشی اور مردہ فروشی سے لے کر ہر کام کر سکتی ہے ۔ریمنڈڈیوس
کو آزاد کرنے کی مثال ’’مردہ فروشی‘‘ہی کے زمرے میں آتی ہے ۔
قارئین ہماری آج کی اس تمہید کا تعلق ہمارے آج کے اس زیر بحث موضوع کیساتھ
انتہائی گہرا ہے پاکستان اور آزاد کشمیر میں قومی سطح پر ہونے والے بڑے بڑے
سانحوں کے بڑے بڑے اثرات کو چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر ’’بونے لیڈروں ‘‘نے
انقلاب کی طرف جانے کی بجائے ان کا رخ انحطاط کی طرف موڑ دیا جس کا نتیجہ
یہ نکلا ہے کہ آج بڑے سے بڑے سانحے کے بعد قوم اس طریقے سے رسپانس نہیں
دیتی جس طرح زندہ قوموں میں دیکھنے میں آتا ہے گزشتہ روز امریکہ نے قبائلی
علاقہ جات سے آگے بڑھتے ہوئے ہنگو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک مدرسے پر
ڈرون حملہ کیا، چار میزائل داغے گئے جس کے نتیجے میں قرآن وحدیث کے پڑھنے
پڑھانے والے نو طلباء واساتذہ شہید ہو گئے اور پندرہ کے قریب زخمی ہیں اور
مدرسے کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہم غیرت کے چیمپئن شیر لاہور میاں
نواز شریف وزیراعظم پاکستان سے سوال کرتے ہیں کہ جناب اب تو اسلام آباد میں
بے غیرت، بے ضمیر، بردہ فروش، مردہ فروش اور ضمیر فروش تخت و تاج کے مالک
نہیں ہیں اب تو اقتدار کی ڈور آپ کے ہاتھوں میں ہے اب کیا مسئلہ ہے ۔ ٹیپو
سلطان شہید نے پوری امت کو ایک غیرت مند امتی ہونے کی حیثیت سے ایک پیغام
دیا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘میاں
نواز شریف صاحب !آپ تو شیر ہونے کے دعوے کیا کرتے تھے آج آپ ہی کے دور
حکومت میں وہ تمام کام جاری وساری ہیں جنہیں آپ اپنے مخالفین پر تنقید کرتے
ہوئے ضمیر فروشی، بردہ فروشی اور مردہ فروشی سے تعبیر کیا کرتے تھے ۔یوں
لگتا ہے کہ آپ شیر کی طرح زندگی گزارنے کی بجائے گیدڑ کی طرح طویل زندگی کے
خواہاں ہیں ۔راولپنڈی میں راجہ بازار میں اسلام کے نام پر ’’مومنین ‘‘کے
اسلحہ بردار جتھوں نے نہتے حفاظ کرام اور نمازیوں کا جس طریقے سے قتل عام
کیا ہے کیا اس کا ردعمل پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجا دے گا۔ امریکہ
کے خلاف جہاد کرنے والے قرآن وحدیث کے طالب علموں کو اگر آپ کے دور حکومت
میں ’’مذاکراتی دھوکے‘‘ کے د وران ڈرون حملے کروا کر مروایا جائے گا تو آپ
کیا سمجھتے ہیں اس سے ملک میں امن آجا ئے گا میاں نواز شریف آپ کے ابتدائی
چند مہینوں کے دوران جس طریقے سے آپ نے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کروائی ہے اس
سے کیا بیس کروڑ غریب پاکستانی خوشحال ہو جائیں گے چند ماہ میں آپ نے ماضی
کے پانچ سالہ اقتدار کے ریکارڈ توڑتے ہوئے جو غیر ملکی قرضے حاصل کر کے
پوری قوم کو بردہ فروش اداروں اور ممالک کے آگے گروی رکھا ہے اس سے کیا آپ
کے متعلق لوگ اچھاسوچیں گے ۔۔۔۔؟ہر گز نہیں ۔ہمیں یوں لگتا ہے کہ باوجود
اپنی فطری اچھائی ،نیکی اور نیک نیتی میاں نواز شریف کے مشیروں نے ان کو
غلط پٹڑی پر چڑھا دیا ہے ۔ایک ایسا راستہ کہ جس کے اختتام پر ایک آندھی
کھائی منہ کھولے انتظار کر رہی ہے ۔
قارئین !پاکستان کی طرح آزاد کشمیر کا موجودہ منظر نامہ بھی لہو لہو ہے اگر
مقبوضہ کشمیر کی بات کریں تو لاکھوں کشمیری شہداء کا خون وادی کے چپے چپے
کو رنگین کئے ہوئے ہے اور اگر آزادی کے بیس کیمپ ’’نام نہاد آزاد کشمیر‘‘
کی بات کریں تو یہاں پر بھی ’’ضمیر فروشی،بردہ فروشی اور مردہ فروشی ‘‘عروج
پر ہے ماضی کے ادوار حکومت کی طرف دیکھیں تو لاکھوں کشمیری شہداء کے خون کو
بیچا گیا اور وفاقی حکومت کو یہ باور کرایا گیا کہ ’’آزاد اور خود مختار
کشمیر‘‘کے نظریے کے حامل کشمیری حریت پسند پاکستان کے دشمن ہیں اور ان کی
بیخ کنی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ایسا بھی ہوا کہ کشمیر کی آزادی کی عملی
جنگ لڑنے والے مقبول بٹ شہیدؒ ،گنگا طیارہ اغواء کرنیوالے اشرف قریشی، ہاشم
قریشی اور ان کے ساتھیوں سمیت نظریہ خود مختار کشمیر کے بانی عبدالخالق
انصاری ایڈووکیٹ مرحومؒ کو پوری جماعت محاذ رائے شماری کے ہمراہ ’’پاکستان
دشمن غدار‘‘قرار دے کر مقدمات قائم کئے گئے بعدازاں پاکستان کی سب سے بڑی
عدالت نے ان کشمیریوں کو آزادی کا سب سے بڑا سپاہی قرار دیا اور انہیں محب
وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ عنایت کیا ۔آج بھی آزاد کشمیر میں ایک ایسی حکومت
برسراقتدار ہے جو پوری دنیا میں کشمیریوں کے لئے ’’کلنک کے ٹیکے‘‘سے کم
نہیں ہے موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کشمیری قوم کے وزیراعظم ہونے پر
فخر نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو گڑھی خدا بخش اور نوڈیرو کے مزاروں کے مجاور
ہونے کی حیثیت پر عزت محسوس کرتے ہیں ان سمیت ان کے قریبی ترین رشتہ دار
اور ’’چار کا ٹولہ‘‘اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کی غلاظت سے بری طرح
لتھڑے ہوئے ہیں ۔سابق وزیراعظم پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما بیرسٹرسلطان
محمود چوہدری نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور چار پیاروں کی اربوں روپے
کی کرپشن کے انتہائی ٹھوس ثبوت میڈیااور پوری دنیا کے سامنے رکھ دیئے ہیں
گزشتہ چند دنوں سے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم آزاد کشمیر کی
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید اور چار پیاروں کی اربوں روپے کی
کرپشن کیخلاف شروع کی گئی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے ،برنالہ، ڈڈیال،
کوٹلی،چکسواری ،میرپور ،مظفرآباد ،راولاکوٹ ،باغ ،پلندری، حویلی سے لے کر
آزاد کشمیر کے تمام اضلاع میں عوام لاکھوں کی تعداد میں بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری کی کرپشن کے خلاف جاری کردہ مہم میں شامل ہوتے جا رہے ہیں پرنٹ
والیکٹرانک میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہاہے کہ
جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل ،کلک اینڈکلک سکینڈل ،ایم ڈی اے سکینڈل ،میڈیکل
کالجز سکینڈل ،ڈیول کیرج وے سکینڈل سمیت دیگر منصوبہ جات میں مجاور
وزیراعظم نے چار پیاروں کیساتھ مل کر اربوں روپے کی کرپشن کی ہے اس کے تمام
تر دستاویزی ثبوت ہم نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی
اعلیٰ قیادت کو فراہم کر دیئے ہیں جلد ہی مجاور کے ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں
ہوں گی ۔مجاور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے اپنے منصب کی توہین کرتے ہوئے
ریاست کے چوتھے ستون صحافت کو بھی گرانے کی کوشش کی ہے اور میرپور میں
ایوان صحافت میں انتہائی سینئر اور سنجیدہ صحافیوں کے کرپشن اور بیڈ گورننس
کے حوالے سے پوچھے جانیوالے سوالوں کا جس طرح گالیوں کی زبان میں انہوں نے
جواب دیا ہے اس سے پاکستان اور آزاد کشمیر بھر کی صحافتی تنظیمیں اور تمام
صحافی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔وزیراعظم فوری طور پر صحافیوں سے غیر
مشروط معافی مانگیں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ایف ایم 93 میرپور ریڈیو
آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘میں سینئر
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کرپشن کے نا
قابل تردید الزامات کے جواب میں ماں بہن کی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور ان
جھوٹی قسموں کی بے برکتی ان کے چہر ے اور ان کے ہر عمل سے ٹپک رہی ہے ۔ان
کے قریبی ترین رشتہ داروں سمیت ان کے چار پیاروں نے ریاست کے وسائل ڈاکوؤ ں
کی طرح لوٹے ہیں صرف آئی ڈیز کلک سکینڈل میں مجاور وزیراعظم اور اس کے
پیاروں نے ساڑھے پانچ ارب روپے کے قریب رقم معصوم شہریوں سے ہتھیائی ہے اس
سکینڈل میں چند وزراء اور انتظامی آفیسران بھی شامل ہیں جن کے نام مناسب
وقت آنے پر میڈیا اور عوام کے سامنے لے آئیں گے ۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری
نے کہاکہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اس وقت افغان دہشتگرد نیٹ ورک کے ساتھ
بھی رابطے میں ہیں اور تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کے لئے بہت بڑا
سکیورٹی رسک بن چکے ہیں پاکستان کی سلامتی کے لئے کام کرنیوالے اداروں کو
سکیورٹی رسک بننے والے مجاور وزیراعظم کی تمام سرگرمیوں کی چھان بین کرنا
ہوگی ۔بیرسٹر سلطان نے کہا کہ میں نے علم بغاوت تنگ آکر بلند کیا ہے ۔تحریک
آزادی کشمیر کے لئے قربانیاں دینے والے کشمیریوں کے لئے موجودہ وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید باعث شرم ہیں اور ان کی شخصیت کشمیری عزت ووقار کے لئے
زہر قاتل ہے بہت جلد وزیراعظم آزاد کشمیر کا اقتدار ختم کر دینگے اور ان کا
ٹھکانہ جیل ہو گی
قارئین!آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں ضمیر فروشی ،بردہ فروشی
او ر مردہ فروشی کے نکتہ نگاہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید پر
لگائے جانیوالے الزامات کا ایک مختصر حال تو ہم نے آپ کے سامنے رکھا ہے
یہاں پر ایک چھوٹا سا اشارہ چوہدری عبدالمجید کے حلقہ انتخاب چکسواری میں
اٹھنے والے طوفان کی طرف بھی کرتے جائیں ۔ رئیل سٹیٹ بزنس کنگ چوہدری محمد
انور نے اپنے دیگر ساتھیوں نمبردار نیاز ،چوہدری محمد عارف، راجہ وسیم
خالد، چوہدری محمد عاشق ،چوہدری محمد مالک، چوہدری شبیر حسین، چوہدری
محمداعظم اور چوہدری کامران حسین کے ہمراہ سیاسی جدوجہد کا جس انداز میں
آغاز کیا ہے اس پر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ہل کر رہ گئے ہیں چکسواری میں
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے تاریخی جلسے اور اب اس سے مزید آگے بڑھ کر
ایک لاکھ کے قریب متاثرین منگلا ڈیم ریزنگ پراجیکٹ کے دلوں کی آواز بنتے
ہوئے چوہدری محمدانور وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کی آنکھوں میں
بیرسٹر سلطان کی طرح کھٹکنے والے کانٹے بن چکے ہیں اس حوالے سے بعض ’’پے
رول‘‘پر موجود لوگوں نے چوہدری انور پر یہ الزامات عائد کیے ہیں کہ ادارہ
ترقیات میرپور کے ایک آفیسر کے ساتھ مل کر انہوں نے ماضی قریب میں چوہدری
عبدالمجید کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’مالی معاونت ‘‘کے لئے بھاری
سرمایہ کاری کی تھی اور اسی طرح اپنی سوسائٹی کے لئے کئی سو کنال زمین بھی
حاصل کی تھی تحریک عدم اعتماد کی بوجوہ میاں نواز شریف کی ’’اصولی
سیاست‘‘ناکامی کے بعد وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے چوہدری انور کی سوسائٹی
کی کئی سو کنال زمین کی الاٹمنٹ بھی کینسل کی اور ترقیاتی منصوبوں میں کام
کرنے والی ان کی کنسٹرکشن کمپنی کے مالی مفادات کو بھی ’’ٹیکنیکل بنیادوں
پر‘‘نقصان پہنچایا ۔یہی وجہ ہے کہ چوہدری انور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
کے پایہ تخت کو ہلانے کے لئے تمام قوت لگا رہے ہیں یہ الزامات تو خیر ان کے
مخالفین کے ہیں یہاں ہم کرپشن ،ضمیر فروشی ،بردہ فروشی اور مردہ فروشی کی
ان تمام مثالوں پر آنسو نہ بہائیں تو بھلا کیا بہائیں۔۔۔؟یہاں ہم چچا غالب
کی زبان میں کہتے چلیں کہ
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ’’ہے‘‘ بند نہیں ہے
ہستی ہینہ کچھ عدم ہے غالب
آخر تو کیا ہے ؟اے’’نہیں ہے‘‘
قارئین! بات پاکستان کی ہو یا آزاد کشمیر کی ،نیل کے ساحل کی ہو یا کاشغر
کی ، عرب کی ہو یا عجم کی اگر ہم چاہتے ہیں کہ عزت اور غیرت کے ساتھ سربلند
ہو کر اقوام عالم میں زندہ رہیں تو ہمیں قرآن وحدیث کا دامن تھامتے ہوئے
ایسے حکمرانوں کو اقتدار تک پہچانا ہوگا جو فاروق اعظمؓ کے پیرو کار ہوں
بصورت دیگر یہی’’ ضمیر فروش ، بردہ فروش اور مردہ فروش‘‘ پوری قوم کی غیرت
،عزت اور لاشوں کے سودے کرتے رہیں گے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
دو میراثی ایک بڑی مجلس میں ادھار کے عالی شان کپڑے پہنے اتفاق سے ایک
دوسرے سے ملے اور یہ تاثر دیا کہ وہ دونوں’’شیخ‘‘ ہیں ایک میراثی نے دوسرے
سے پوچھا ’’آپ کا تعلق شیخوں کے کس قبیلے سے ہے ‘‘دوسرے نے تھوڑا سوچا اور
جواب دیا
’’جی ہم شیخ سعدی کی اولاد میں سے ہیں ویسے آپ کا تعلق کس سلسلے سے ہے ‘‘
پہلے نے سٹپٹا کر گھبراتے ہوئے جوا ب دیا
’’جی شیخ چلی کی نسل سے ‘‘
قارئین ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے تمام ’’ضمیر
فروش ،بردہ فروش اور مردہ فروش ‘‘حکمرانوں کا تعلق بھی ’’شیخ چلی کے خاندان
‘‘ سے ہے کیونکہ یہ لوگ بھی بڑی بڑی چھوڑتے ہیں اور جب کچھ کرنے کا موقع
ملتا ہے تو کچھ نہیں کرتے اﷲ پوری قوم کے حال پر رحم فرمائے جو اس وقت
’’شیخ چلیوں کے چنگل‘‘میں گرفتار ہے۔آمین۔ |