شاعر حضرات انسانی احساسات کے ترجمان ہوتے ہیں جو کبھی
محبوب کی جدائی تو کبھی محبوب کےوصل کے احساسات کو شعر کے قالب میں بیان
کرتے ہیں اسی طرح یہ شاعر اکھڑ اور خود سر محبوب کی دوستی اور محبت سے
ناصرف ڈرتے ہیں بلکہ اپنےمحبوب کے ساتھ اس کا اظہار بھی کرتےہیں اور اپنے
محبوب کی نفرت کو سینے سے لگا کر اس کی نفرت پر نازاں رہتے ہیں اس احساس
کےذریعے شاعر اپنےمحبوب سے غیرمعمولی محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ
اگران کا محبوب ان کو محبت کے قابل نہ بھی سمجھے تو کوئی بات نہیں لیکن ان
سے نفرت کا رشتہ تو نہ توڑے شعرا کواپنے محبوب کی نفرت پر بھی فخر ہوتا ہے
کہ ان کا اپنے محبوب سے چلو کوئی نہ کوئی رشتہ تو ہے اگر یہ رشتہ بھی نہ
رہے تو شاید بعض دل جلے شاعر اپنے محبوب کی نفرت نہ ملنے پر جان سے ہاتھ
دھو بیٹھیں حقیقت میں یہ احساس اپنے محبوب سےمحبت کی آخری منزل ہوتا ہے جس
میں عاشق اپنےمحبوب کےظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے سہتے ہوئے مزیدکا طلبگار
ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے عاشق اپنے محبوب کےساتھ دشمنی کرنا یا
اس کےکسی ستم پر گلہ کرنا اپنے لیےگناہ کبیرہ سمجھتےہیں اور کبھی گلےکی
نوبت آ بھی جائے تو اس کےلیےاپنےمحبوب کی اجازت لینا ضروری سمجھتےہیں
اپنےمحبوب کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنا ایسے عاشقوں کا مقصد حیات
ٹھرتا ہے۔
اسی طرح کےٹوٹےہوئے عاشق دوسرے فلسفہ ھای زندگی کو یکسر پس پشت ڈال دیتے
ہیں ان کے نزدیک زندگی کا فلسفہ صرف اپنے محبوب کے ہجر میں جلتے ہوئے اس
کےمظالم سہنا ہوتا ہے اور آخر کار یہ عاشق لوگ دنیا سے بےخبر ہو کر اپنی
جان تک اپنے محبوب کے قدموں پر نچھاور کر دیتےہیں دوسری طرف ایسے دل
جلےعاشقوں کے محبوب ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ ہم اس ناروا اور پردرد
سلوک کے تذکرے سے صرف نظر کرتے ہیں آپ اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو آپ کو
مذکورہ صفات کےحامل لا تعداد عاشق اور محبوب مل جائیں گے بلکہ ایسےعاشق اور
معشوق آپ کو ملکی سیاست سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک میں مل جائیں گےاس
آرٹیکل میں میں ایک ایسے معشوق کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو بادی الذکر میں
بیان کئے گئے معشوقوں سے بہت مشابہت رکھتا ہے یہ ایسا ظالم معشوق ہے جس کی
دشمنی شاید اتنی شدید نہ ہو جتنی اس کی دوستی شدید ہوتی ہے جو اس کے ہر
محبوب سے جینے کا حق چھین لیتی ہے جی ہاں آپ بالکل صحیح سمجھےہیں بعض ممالک
کےجس معشوق کا میں زکر کر رہا ہوں وہ امریکہ ہی ہے اس ظالم معشوق کے حسن کا
یہ عالم ہےکہ سعودی عرب سے لے کر پاکستانی حکمرانوں تک سب اس کی زلفوں کے
اسیر نظر آتے ہیں۔
پاکستانی حکمران ایک عرصے سے امریکہ نامی محبوبہ کے ساتھ رومانس میں مصروف
ہیں ان کی لیے بڑے فخر کی بات ہوتی ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنا دوست کہتا
ہے اسے دوستی کہیں یا کچھ اور پاکستانی ریاست اس محبوبہ پر اپنے ہزاروں
فرزند قربان کر چکی ہے لیکن اس محبوبہ کا ڈور مور کا مطالبہ جاری رہتا ہے
امریکہ کی شکل میں اس خونخوار حسینہ کے منہ خون لگ چکا ہے اسے جب بھی خون
کی طلب ہوتی ہے تو یہ انہی علاقوں کا رخ کرتی ہے جہاں اس کےقدردان عاشق
موجود ہوتے ہیں پاکستان ہی کو لے لیں جہاں آئے روز ڈرونز حملےجاری ہیں لیکن
پاکستانی حکمرانوں کو امریکہ کو اس ظلم سے روکنے کی ہمت نہیں ہوتی آخر
دوستی اور محبت بھی کوئی چیز ہے؟ جن ممالک کے ساتھ امریکہ نے دوستی کی ان
کا حال ساری دنیا کے سامنے ہے اس آرٹیکل کے لکھنے کا محرک ایران کے عالمی
طاقتوں کے ساتھ کامیاب ہونے والے مذاکرات کی خبربنی جس کے مطابق اب ایران
بھی امریکہ کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے یہ وہی ایران ہے جس نے
اس ظالم حسینہ کی طرف نہ کبھی دیکھا اور اسے دشمنی کے لائق بھی بڑا سوچ
سمجھ کر سمجھا آج وہی ایران امریکہ کی محبت میں گرفتار ہوا چاہتا ہے یا پھر
یہ ظالم حسینہ ایران پر ڈورے ڈال رہی ہےاس ظالم حسینہ کی تاریخ تو یہی رہی
ہے کہ اس نے اپنے ہر عاشق کو ڈسا ہے دیکھیں ایران کے ساتھ اس کی دوستی کا
کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ایران نہ تو اس حسینہ کے
نخرے بردشت کرے گا اور نہ اس کے عشق میں اندھا ہو کر من چلے عاشقوں کی طرح
اس پر سب کچھ نچھاور کر دے گا اوریہ بات ایران نے مذاکرات میں اپنی بات
منوا کر ثابت کر دی ہے۔لیکن پھر بھی نجانے کیوں میں امریکہ کی دوستی سے ڈر
رہا ہوں۔ |