جمہوریت اسلام کی دین ہے ،مغربی ممالک خواہ بھی کچھ دعوی
کریں۔ حقیقت یہ ہے جس وقت اسلام نے جمہوریت کا تصور پیش کیا تھا اس وقت
دنیا تمام اس تصور سے عاری اور نابلد تھی۔ اسلامی جمہوریت کی خاصیت تھی کہ
ایک عام آدمی بھی حکومت کے سربراہ کا دامن پکڑ سر سوال پوچھ سکتا تھا اور
اسلامی جمہوریہ کا سربراہ تمام رعا یا کی حفاظت اور کفالت کا ذمہ دار ہوتا
تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین رات کے اندھیرے میں گشت کرتے تھے کہ کوئی
بھوکا تو نہیں ہے۔حالات بدلے اور مسلمانوں میں خلافت کی جگہ شہنشاہیت نے لے
لی۔ مغرب نے اسی کو جدید شکل میں پیش کرکے اس کا سہرا اپنے سر لے لیا۔
جمہوریت کا مطلب یکساں حقوق کا حصول،راجا رنک میں یکسانیت ہے اور مساویانہ
حقوق و اختیار کی بات کہی گئی ہے لیکن ہندوستان میں اسے مسلمانوں کو ہراساں
کرنے، قتل، ان کی خواتین کی آبروریزی کرنے ، پھانسی پر لٹکانے ، فسادات میں
قتل عام انجام دینے اور دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں اور ان کے
خاندانوں کی زندگی تباہ کرنے وسیلہ بنالیا گیا ہے۔ ہندوستان میں جمہوریت کا
مطلب صرف یہ ہے کہ اکثریتی طبقہ جو چاہے کرگزرے کیوں کہ ان کے پاس تعداد،
لاٹھی، پولیس، عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اور میڈیا ہے۔ کسی بھی غلط کو صحیح ،
جھوٹ کو حقیقت کا آئینہ دینے میں جمہوریت کا سہارا لیا گیا ہے۔ اگر ایسا
نہیں ہوتا تو ہندوستان میں پچاس ہزار سے زائد مسلم کش فسادات کے لئے کسی کو
سزا کیوں نہیں ملی ہے۔ ہندوستانی آئین اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے
والوں کو سزا کا التزام ہے مگراس پر عمل کرنے والے کا منشا کبھی نہیں رہا
کہ ان کو سزا دی جائے۔ جب بھی کوئی معاملہ یا جرائم ہوتا ہے تو جمہوریت کے
چاروں ستون متحرک ہوجاتے ہیں۔ میڈیا اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے ، انتظامیہ
پہل کرتی ہے اورمعاملہ عدالت میں جاتا ہے اور خاطیوں کو سزا دی جاتی ہے اگر
اس طر ح کا کوئی قانون سخت نہیں ہے تو مقننہ قانون بناتا ہے جیسا کہ دہلی
آبروریزی کیس میں ایک نیا قانون ’نربھیاایکٹ ‘بنایا گیا اور سزا کو سخت
بنایا گیا۔ اس کے مطابق عدالت نے سرعت کے ساتھ سماعت کی اور خاطیوں سخت
ترین سزا سنائی گئی۔ لیکن یہ معاملہ دامنی کا تھا کوئی امینہ کا نہیں اس
لئے ہر کام سرعت کے ساتھ ہوا ۔لیکن جب معاملہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا
ہوتا ہے کہ ان تمام ستونوں پر کنبھ کرن کی نیند طاری ہوجاتی ہے۔ مظفرنگر
میں بڑے پیمانے پر گجرات کے طرز پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا، خواتین کی
اجتماعی آبروریزی کی گئی،زندہ جلایاگیا،مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے زمین
میں دفن کردیا گیا لیکن جب خاطی کو سزا دینے کی بات کی جاتی ہے تو سب پر
سکتہ طاری ہوجاتا ہے اس کے مقابلے میں ہندو خواتین کا دستہ تیار کردیا
ہے۔ہندوستان میں جمہوریت کا استعمال صرف مسلمانوں کو سزا دینے، تمام حقوق
سے محروم رکھنے، زندگی کا معیار دلتوں سے بھی بدتر بنانے اور انصاف سے
محروم رکھنے کیلئے کیاگیاہے۔ ذیلی عدالت ہی نہیں عدالت عالیہ اور عدالت
عظمی بھی عوامی جذبات پر فیصلہ صادر کرنے لگی ہے۔ عوامی جذبات ہمیشہ اقلیتی
کے خلاف رہے ہیں۔ تو ظاہر سی بات ہے کہ اقلیتوں کو انصاف کیسے مل سکتا ہے۔
یہی جذبہ ہندوستان میں ہونے والے تمام بم دھماکوں کے بعد کھل کر سامنے آیا
ہے۔ دھماکے کے چند گھنٹوں کے بعد ہندی نیوز چینلز، پولیس، انتظامیہ، سیاسی
رہنما اور سکیورٹی ماہرین ایک نقطہ پر پہنچ جاتے ہیں اور پہلے کسی نام نہاد
مسلم تنظیم کا نام لے کر شور مچایا جاتا ہے اور اسی وقت گرفتاریاں دکھائی
جاتی ہیں۔ پٹنہ میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکے میں بھی یہی ہوا۔ دھماکے
قبل تک خفیہ ایجنسیوں کو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا لیکن دھماکے کے
بعد نہ صرف نام معلوم ہوا بم دھماکے کے ملزم کو گرفتار بھی کرلیا۔ یہ فلموں
اور ٹی وی سیریلوں میں تو ممکن ہے لیکن حقیقی زندگی میں قطعی نہیں ۔ پٹنہ
بم دھماکے اور اس کے بعد خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیاں اور حصولیابیاں دیکھ
معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہے۔ جو ہندوستانی پولیس نارائن
سائیں کو تلاش کرنے میں ناکام ہو وہ پولیس چند گھنٹوں کے اندر بم دھماکوں
کے ملزمین تک کیسے پہنچ گئی۔ یہی اسی وقت ممکن ہے جب ڈرامے کے سارے کردار
موجود ہوں ۔اس معاملے میں پہلے پنکج کو گرفتار کیا گیا لیکن جیسے بھارتیہ
جنتا پارٹی کے کارکنوں نے شور مچایا تو وہ نام بدل کر امتیاز ہوگیا۔اس کے
بعد کئی دیگر ہندو وجے کمار گوئل ، پون کمار، وکاس کمار اور گنیش پرسادکو
فنڈنگ کے معاملے میں گرفتار کیا جاتا ہے لیکن میڈیا، سیاست دانوں، مفکروں،
مدبروں،گاڑیوں اورچوک چوراہوں میں کوئی تذکرہ نہیں ہوتا ہے۔ بہار پولیس اور
قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی مکمل کوشش ہے کہ اسے بری کردیا جائے
یاکم از کم دہشت گردی کا داغ ان لوگوں سے ہٹا دیا جائے ۔ امتیاز کے بعد پھر
وہی انڈین مجاہدین اور اس کے اراکین کی تلاش کے بہانے پورے بہار میں دہشت
کا ماحول پیدا کرکے بی جے پی کے حق میں فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی
ہے۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار کسی پنکج کو گرفتار کرکے اس خبر کو دبا دی
گئی ہو، اس سے پہلے 2009میں جب بی جے پی کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی
یاترا پر تھے اس وقت تمل ناڈو میں یاترا کے راستے پر بم رکھنے کی بات سامنے
آئی تھی پہلی گرفتاری کسی غیر مسلم کی ہوئی تھی لیکن چند گھنے خبر چلنے کے
بعد اس کی جگہ کسی مسلمان کا نام آگیا اور میڈیا اور پولیس نے غیر مسلم کا
نام مکمل طور پر دبا دیا۔ یہی حرکت خفیہ ایجنسی اور پولیس نے پٹنہ بم
دھماکے میں کی ہے۔ گزشتہ اپریل میں ہونے والے بودھ گیا کے مہابودھی مندر بم
دھماکے کو آج خفیہ ایجنسیاں انڈین مجاہدین سر تھوپ کر مسلم نوجوانوں کو
مورد الزام ٹھہرارہی ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ پہلے اس ضمن میں جو
گرفتاری عمل میں آئی تھی وہ اروپ برہمچاری کی تھی۔ سارے اسباب اسی کی طرف
اشارہ کر رہے تھے۔ بودھ گیا بم دھماکے بارے میں میڈیا کے توسط سے یہ بات
اڑائی گئی تھی کہ مسلمانوں نے میانمار کا بدلہ لیا ہے جبکہ پٹنہ بم دھماکے
کے بعد یہ کہا گیا کہ مظفر نگر کا بدلہ لیا گیا ہے۔ کیا ہندوستان میں
مسلمان اس حالت میں وہ کسی کے خلاف جنگ چھیڑ سکیں۔ مسلمانوں کے خلاف
ہندوستان میں جو ماحول بنایا گیاہے اس میں کوئی بھی مسلم نوجوان یہ سوچ بھی
نہیں سکتا کہ وہ اس طرح غیر انسانی اور وحشیانہ حرکت کرے۔ تفتیش میں سب سے
زیادہ اس نقطے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ واردات سے سب سے زیادہ فائدہ کس
کو پہنچے گا یہیں دونوں معاملے میں سارے شواہد چیخ چیخ کہہ رہے ہیں کہ اس
سے فائدہ صرف بی جے پی کو ہوا ہے۔ جب کہیں تھی دھماکہ ہوتا ہے ریلی یا
پروگرام منسوخ کردیا جاتا ہے لیکن نریندر مودی نے دھماکے کے باوجود ریلی کی
اس معلوم ہوتا ہے کہ اس طبقہ کو سب کچھ معلوم تھا۔ جہاں تک رانچی میں بم
برآمد کرنے کی بات ہے یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ خفیہ
ایجنسی نے وہاں خود یاکسی مسلمان سے رکھوا یا ہو۔ خفیہ ایجنسی یہ طریقہ
استعمال کرنے میں ماہر ہے۔ کشمیر دو جوانوں واقعہ قارئین کے ذہن سے محو
نہیں ہوگا ۔ اس کے علاوہ اسی سال مارچ میں لیاقت شاہ کا معاملہ اسی سلسلے
کی کڑی تھی۔ لیاقت شاہ گرفتار کرنے کے بعد دہلی پولیس نے دعوی کیا تھا کہ
اس کے قبضے سے بڑی تعداد میں دھماکہ خیز اشیا برآمد کیا گیا ہے۔ کیوں کہ
ہولی کا موقع تھا اس لئے میڈیا نے خصوصی پولیس کمشنر کی اس کامیابی (جھوٹی
کہانی) پر خوب پیٹھ تھپتھپائی لیکن جلد ہی اس غبارے کی ہوا نکل گئی جب پتہ
چلا کہ یہ تو بازآبادکاری مہم کے تحت خود سپردگی کرنے آرہا تھا اور دہلی
پولیس نے جو دھماکہ خیز اشیاء ہوٹل سے برآمد کیا تھا وہ اس کے ہی رکھے ہوئے
تھے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور پرموشن حاصل کرنے کے لئے اس طرح کی سازش
عام بات ہے۔ اس رجحان کو گجرات میں2002کے بعد زبردست فروغ حاصل ہوا تھا۔
مودی کے خلاف سازش کے نام پر کسی بھی مسلم نوجوانوں کا تصادم میں قتل
کردیتے تھے۔ اسی سے متاثر دہلی پولیس نے اس کا طرح کا رویہ اپنایا ہے۔
بہت سارے آثار و قرائن کہہ رہے ہیں کہ اس کے تار کہیں نہ کہیں مودی کے
گجرات اور سنگھ پریوار (آر ایس ایس) ضرور مربوط ہیں۔ اس لئے اس نے مودی کو
2014میں وزیر اعظم کا تاج پہنانے کے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اس کیلئے
تمام طریقے استعمال کر رہاہے جس میں خوف دہشت کی نفسیات بھی شامل ہے۔ اس کے
سہارے ہندو ووٹ کو اکٹھا کرنے کی پالیسی ہے۔روزنامہ اخبار ’’ ہندوستان‘‘ کے
مطابق گاندھی میدان میں منگل کو تفتیش کے دوران جو تین زندہ بم برآمد کئے
تھے ، ان میں سے ایک جس پولتھین میں پایا گیا، اس پر گجرات کا پتہ ہے۔ اب
تفتیش کا ایک زاویے یہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کے پاس یہ پولتھین آیا کہاں سے
؟ کیا دہشت گردوں نے اس پولتھین کو گاندھی میدان میں کہیں سے پایا یا ان
میں سے کوئی گجرات سے ہی اس سازش کو انجام دینے میں لگا ہواتھا؟ ۔ میڈیا یہ
خبر بھی گشت کررہی تھی کہ گجرات انٹلی جنس نے شدت والے بم دھماکے وارننگ دی
تھی اور اشارہ بھی کیا تھا کہ ہندوتو دہشت گردی سے وابستہ افراد اس دھماکے
کو انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن پولیس او ر انتظامیہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں
دی۔ تازہ خبر یہ بھی ہے کہ پٹنہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ابھے آنند نے
پٹنہ اور بودھ گیا بم دھماکے کیس کو حل کرنے کا دعوی کیا ہے اور دونوں
دھماکوں میں انڈین مجاہدین سے وابستہ دہشت گردوں نے انجام دیا تھا۔ خفیہ
ایجنسی نے یہ نتیجہ رانچی کے ارم لاج سے برآمد بم کی بنیاد پر کیا ہے۔
مسلمانوں، مسلم تنظیموں سیکولر ہندوؤں نے بھی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ
انڈین مجاندین کون ہے ، اس کا دفتر کہاں ہے، کون بانی ہے، کتنے ممبران ہیں
کے بارے میں بتایا جائے لیکن اس سلسلے میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ایک
طبقہ کا خیال ہے کہ انڈین مجاہدین کے نام سے ہندو دہشت گردوں نے گروپ قائم
کر رکھا ہے وہیں دوسرا یہ بھی خیال ہے کہ یہ آئی بی کا قائم کردہ گروپ ہے
جسے بوقت ضرورت استعمال کرتا ہے۔ جس طرح کریم ٹنڈا، یاسین بھٹکل اور دیگر
کی مشبہ انداز میں گرفتاری عمل میں آئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب
کچھ طے شدہ منصوبہ کے تحت ہے۔ اجمیر ،حیدرآباد، مالیگاؤں اور دیگر بم
دھماکے سلسلے میں مفرور ہندو دہشت گردوں کا خفیہ ایجنسی آج تک پتہ نہیں
لگاسکی ہے اور نہ ہی گرفتار کرسکی ہے لیکن سب ایک متعینہ مقام پر آکر خفیہ
ایجنسیوں کی جال میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً
اخبارات میں شائع ہونے والے ان خبروں سے بھی اندازہ ہوتا ہے جو کئی ٹن
دھماکہ خیز اشیا ہندو نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آتی ہے لیکن اس کے بعد
پھر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ دھماکہ خیز اشیا کس مقصد لے جارہا تھا۔ ویسے
ہزاروں ایسے ہندو نوجوان ہوں گے دھماکہ خیز مادہ حاصل کرتے ہیں لیکن پولیس
اسے دہشت گردی نہیں مانتی۔میڈیا کا رویہ بھی یہی ہوتا ہے ۔ نام نہاد قومی
میڈیا (انگریزی ۔ہندی کے پرنٹ اور برقی میڈیا)جب بھی ہندو نوجوان دھماکہ
خیز مادہ کے ساتھ گرفتار کئے جاتے ہیں تو اسے مکمل طور پر دبا دیا جاتا ہے۔
پٹنہ میں اتنے نوجوان گرفتار کئے گئے کسی نیوز چینل نے اس پر کوئی اسٹوری
نہیں دکھائی۔ میڈیا، پولیس اور خفیہ ایجنسیاں کنبھ کرن کی نیند سو جاتی ہے۔
یہ ایسی چیزیں ہیں جوببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ دھماکہ کے پس پشت کون ہے اور
کون ہے جو مسلمانوں کی زندگی کی برباد کرنے کے درپے ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ
مسلمان کھلم کھلا اعلان کریں کہ اب پولیس، میڈیا، خفیہ ایجنسیوں اور حکومت
کے دیگر باڈی سے مکمل طور پر ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
مرکز کی ترقی پسند اتحاد حکومت کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائی
میں ملوث ہونے کے الزام سے بری نہیں کیا جاسکتا ۔ سی بی آئی، این آئی اے
اور آئی سمیت دیگر خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر تباہ
کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ تمام ایجنسیاں مرکزی حکومت کے ماتحت ہیں لیکن
مرکزی حکومت نے اس سلسلے میں صرف وعدے کرنے کے علاوہ کوئی عملی قدم نہیں
اٹھایا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ دہشت گردی کے بارے میں بیان دینا اور پھر اسے
بی جے پی کی مخالفت کی وجہ سے واپس لینا، دہشت گردی کے جال پھنسانے والے
افسران کے خلاف عدالتی حکم کے باوجود کوئی کارروائی نہ کرنااور فاسٹ ٹریک
کورٹ کا اعلان کے باوجود اب تک قائم نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کانگریس کا
بھی وہی منشا ہے جو بی جے پی کا ہے۔ مسلمانوں کو تباہ کرنے میں کوئی بھی
سیاسی پارٹی خواہ بی جے پی ہو یا کانگریس یا سماج وادی پارٹی پیچھے نہیں
ہے۔ حقیقت میں اگر صدق دل سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو کانگریس کا ہاتھ
مسلمانوں کے خون سے رنگے نظر آتے ہیں۔ اعظم گڑھ اور حیدرآباد کے بعد بہار
مسلم کے نوجوان اب خفیہ ایجنسیوں اور مرکزی حکومت کے نشانے پر ہیں۔
متھلانچل کاخطہ کہا جانے والے دربھنگہ، مدھوبنی اور سمستی پور کو جس طرح
خفیہ ایجنسیوں نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے وہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی
مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ نت نئے انکشافات نے سارا کھیل واضًح کردیا
ہے۔ بی جے پی اور کانگریس میں فرق ہی کیا ہے بی جے پی پوٹا نافذ کرکے
مسلمانوں کی زندگی تباہ کی تھی اور کانگریس نے خفیہ ایجنسیوں کے سہارے
مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرنے کے درپے ہے اور اس کا نشانہ پیشہ وارانہ
تعلیم یافتہ مسلم نوجوان ہے۔فسادیوں کو کھلم کھلام چھوٹ دے دینا اور
فسادیوں کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھانا ،مسلمانوں کی تباہی اور دہشت گردی کے
الزامات میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کی تمام تر ذمہ داری کانگریس کی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس دہشت گردی اور خوف کی نفسیات میں مسلمانوں
کو مبتلا رکھنے کیلئے ہمیشہ دوہری چالیں چلتی رہتی ہے اور بہار میں جو کچھ
مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ اس کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ |