ڈرون حملے اور ہماری سیاسی قیادت

امریکی ڈرون حملوں اور دہشت گردی نےہر پاکستانی کونفسیاتی مریض بنادیا ہے، مگر ہماری سیاسی قیادت وہی کردارادا کررہی جو تاریخ میں ایک افسوس ناک واقعے کی صورت میں لکھا ہوا ہے۔ آخری عباسی خلفیہ مستعصم بلا کی حکمرانی کا دور تھا اورہلاکو خان خراسان، آذر بائیجان اور ایران کو تہ و بالا کرنے کے بعد جب ایران سے عراق پر چڑھ دوڑنے کی تیاری کر رہا تھا، تو روائت ہے کہ اُس وقت بغداد میں حکمران اور علما اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ کوا حرام ہے کہ حلال۔ کوے کے حرام یا حلال کا تو پتہ نہیں مگر ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ حکمرانوں اور علماء کو چن چن کر قتل کیا اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کردئیے۔بدقسمتی سے یہ تاریخ پاکستان میں دہرائی جارہی ہے اور اس وقت پاکستان میں ہماری ساری سیاسی قیادت دہشت گردی اور امریکن ڈرون حملوں پر منقسم ہے جس کا ایک مظاہرہ تھوڑئے دن پہلےحکیم محسود پر ڈرون حملے میں مارئے جانے کی شکل میں سامنے آیا، اس مرتبہ بحث کوے پر تو نہیں ہورہی بلکہ اس بات پر ہورہی ہے کہ حکیم محسود شہید ہے یا نہیں، اس بحث کو اسقدر آگے بڑھایا گیا کہ عسکری ادارئے کو بھی ایک بیان جاری کرنا پڑا اور واضح طور پر سوچ کی تقسیم دیکھی جارہی ہے، دوسری طرف یہ ہی حال ہر ڈرون حملے کے بعد سامنے آرہا ہے۔ حال ہی ہنگو میں ہونے والے حملے نے مرکز اورصوبہ پختون خوا کی حکومت کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہےجبکہ کراچی میں انچولی کے مقام پرہونے والی دہشت گردی اور طالبان کی طرف سے اسکی ذمیداری قبول کرنے کے بعد کراچی سے پشاور تک سیاسی قیادت ایک دوسرئے کے خلاف بیان داغ رہی ہے۔ تحریک انصاف ڈرون حملوں کی وجہ سے نیٹو سپلائی کی بندش کےلیے کےپی کے میں دھرنوں کےزریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے، سوائے جماعت اسلامی کے باقی ساری جماعتیں اس سے لاتعلق نظر آرہی ہیں، مسلم لیگ ن کی مرکزی اورپنجاب حکومت نے اپنی توپ کے دھانے تحریک انصاف کی طرف کیے ہوئے ہیں۔ امریکہ اس سارئے منظر سے لطف اندوز ہورہاہے کہ ڈرون حملوں کے ذمیدار ہم ہیں اوریہ آپس میں لڑرہے ہیں۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں میں جب بھی نااتفاقیاں بڑھی ہیں دشمن فاہدئے میں رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت پوری مسلم دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے، پروُ امریکہ یا اینٹی امریکہ۔ پاکستان میں صورتحال اور بھی خراب ہے، یہاں حکومت چاہے فوجی ہویا جمہوری دونوں صورت میں یہ پروُ امریکہ ہوتی ہے اور عوام کی اکثریت امریکہ کے خلاف۔کیا وجہ ہے کہ ہماری ہرحکومت پروُ امریکہ ہوتی ہیں؟ اسکا پہلا جواب یہ ہے کہ ہماری معیشت امریکہ کے پاس گروی پڑی ہوئی ہے کیونکہ اب تک ہمارئے جتنے بھی حکمراں آئے ہیں وہ ملک کے بجٹ میں امریکی امداد کے محتاج ہوتے ہیں۔ آپ ایوب خان کے زمانےکا وہ شرمناک واقعہ یاد کرلیں جب پی ایل 480 کے معاہدئے کے تحت امریکن گندم پاکستان آئی اور بندرگاہ سے اونٹ گاڑیوں پر لدکر یہ گندم جب گوداموں کی طرف روانہ ہوئی تو ہر اونٹ کی گردن میں "شکریہ امریکہ" کا بورڈ لٹکا ہوا تھا۔ پی ایل 480 کے معاہدئے کے تحت یہ گندم پاکستان کو مفت دی گی تھی لیکن اس میں ایک شرط یہ تھی کہ یہ امریکن بحری جہازوں کے زریعے پاکستان آئے گی جسکا کرایہ حکومت پاکستان پاکستانی روپے میں ادا کرئے گی اور اسکا کوئی آڈٹ نہیں ہوگا، یعنی حکومت پاکستان کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ پوچھ سکے کہ یہ رقم کس مد میں خرچ ہوئی، یہ ساری رقم امریکن سی آئی ائے کو پاکستان میں پروان چڑھانے پر خرچ ہوئی۔ایوب خان سے لیکر آجتک ہماری ہر حکومت سوائے کشکول کو پہلے زیادہ بڑا کرنے کے کچھ نہیں کررہی ہے۔ بدقسمتی سے آجتک ہماری سیاسی قیادت نےکرپشن کوتو بہت ترقی دی لیکن کسی بھی حکومت نے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور ہم معاشی دلدل میں پھستے چلے گے، ہم ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود67 ارب ڈالر کے مقروض ہیں جسکی وجہ سے ہم امریکہ کے غلام بنے ہوئے ہیں۔پروُ امریکہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم آجتک پاکستان میں ایک مضبوط سیاسی نظام نہیں لاپائے ہیں، اسکے ذمیدار ہمارئے سیاسی رہنما، ملٹری اور سول بیوروکریسی ہیں۔ جب آپکے گھر کی دیواریں مضبوط نہ ہوں تو ہر کوئی آپکے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہذا دنیا کے اس اہم جغرافیائی خطے پاکستان میں مضبوط سیاسی نظام نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سازشیں ہوتی رہی ہیں اور ہورہی ہیں جس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان بھی شامل ہے۔ آج ہمارئے ملک میں ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ہمارا ہر حکمران امریکہ کی مرضی سے ہی حکومت میں آتا ہے،وہ اپنے ملک کے کم اور امریکن مفادات کے زیادہ محافظ ہوتے ہیں۔

ہماری موجودہ خراب صورتحال کی تمام تر ذمیداری امریکہ کی سازشوں اورہماری حکومتوں پر ہے۔ آج ایک طرف امریکہ ہمارئے اوپر ڈرون حملے کررہا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی نے پورئے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 70ء کی دہائی تک خودکش دھماکے اور بلا امتیاز قتل و غارت ایک ناقابل تصور بات تھی۔ امریکہ نے 70ء کی دہائی کے آخر میں افغانستان میں سوویت یونین کی پیش قدمی کو روکنے اور اپنے معاشی اور سامراجی بالادستی کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے خطے میں اپنے سب سے اہم حلیف پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے ذریعے افغان مزاحمت کاروں کوقومی مزاحمتی جنگ کی بجائے نام نہاد عالمی اسلامی جہاد کے نام پر دنیا بھر سے نام نہاد جہادیوں کو جمع کیا۔ جنگ افغانستان میں سوویت یونین جو پہلے ہی معاشی بحران کا شکار تھا، اسکی شکست اور ٹوٹنےکے بعد دنیا میں طاقت کا توازن ختم ہوگیا اورپوری دنیا امریکہ کے سامراجی نظام کے شکنجے میں آگئی۔ چنانچہ ہر فاتح کی طرح امریکہ نے ایک نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان کر دیا جس کا مقصد دنیا کو امریکی مفادات کے تحت لانا تھا۔ فاتحین افغانستان آجتک صرف اسی بات پر فخرکرتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی ایک بڑی سپر پاور کو ختم کر نے میں ہراول دستے کا کام کیا ہے، لیکن کیا سوویت یونین کے زوال کے بعد فاتحین افغانستان نےاس کی جگہ لے لی ۔ افغانستان میں جنگ کے دوران ہمارے فوجی حکمرانوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر قومی آزادی کی جس تحریک کو مذہبی جنگ میں تبدیل کر دیا تھا اس میں شامل مجاہدین سوویت یونین کے منظر سے ہٹتے ہی پہلے ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے ساتھ اور پھر آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ یوں اسلام کی خاطر لڑنے والے اب ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ جب تک یہ نام نہادمجاہدین سوویت یونین کے خلاف لڑتے رہے امریکہ اور ہمارے حکمران خوش رہے۔ 9/11کے بعد خود امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا،لیکن اس سے پہلے ان نام نہادمجاہدین کو بندوق کے زور پر مخالفین کو قتل کرنے کا کھلا لائسنس مل گیا تھا۔ کل کے نام نہادمجاہدین جو اب دہشت گردوں کا روپ اختیار کر چکےہیں امریکہ کے ہی کارخانے میں ڈھالے گے ہیں۔ اب ایک طرف امریکی ڈرون حملے ہیں جن میں دہشت گردوں کے علاوہ نہتے پاکستانی بھی ایک کثیر تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردوں کے پاکستانیوں پر حملوں میں ابتک پچاس ہزار بے گناہ افراد مارئے جاچکے ہیں۔

نو ستمبر کو جب نہ صرف ہمارئے ملک کی سیاسی قیادت اور عوام طالبان سے مذکرات پر اتفاق کرچکے تھے حکومتی تاخیر کی وجہ سے امریکہ نے ڈرون حملے کرکے اس سیاسی اتفاق کو سیاسی مخالفت میں بدل دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نواز شریف غیرملکی دوروں کے بجائے مذاکراتی عمل کو جلد از جلد شروع کرتے مگر وہ غیر ملکی دورئے کرتے رہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ امریکی ڈرون حملوں سے نہ صرف ہمارئے معصوم لوگ مررہے ہیں بلکہ ہماری خودمختیاری بھی مجروح ہورہی ہے، جبکہ طالبان ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کرنے کی آڑ میں اپنی دہشت گرد کاروایاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلیے ہماری ساری سیاسی قیادت کو یکجا ہوکر ڈرون حملوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے جبکہ دوسری طرف دہشت گردی ختم کرنے کےلیے بھی سب کا یکجا ہونا لازمی ہے۔ اگر ہماری حکومت امریکہ کے سامنے کھڑی ہوتی ہے تو شاید ہماری معاشی مشکلات اور بڑھ جایں، لیکن اگر ہم اپنے سارئےملکی وسائل کو استمال کریں اور کرپشن کی روک تھام کریں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنے معاشی مسائل پر قابو پاسکتے ہیں ۔ کیا ہماری سیاسی قیادت اپنے سیاسی اختلافات وقتی طور پر بھول کر اس قومی مسلئےپر یکجا ہوسکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو ڈرون حملے بھی رک سکتے ہیں اور دہشت گردی بھی ختم ہوسکتی بس آپس میں اتفاق کی ایک خواہش کی ضرورت ہے۔ مستقبل کا مورخ ڈرون حملے اور ہماری سیاسی قیادت کے متعلق کیا لکھے گا یہ ہماری سیاسی قیادت کے عمل سے وابستہ ہوگا۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485359 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More