صوبہ خیبر پختونخواہ میں تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمران
بھی سابقہ حکمرانوں کی روش پر چل پڑے ہیں یعنی پشتو زبان کے مثل کے مصداق
ستو بھی کھا رہے ہیں اور ساتھ میں سیٹی بھی بجا رہے ہیں حکومتی مزے بھی چل
رہے ہیں او رساتھ میں آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے ڈرامے بھی سرکاری
خرچے پر ہورہے ہیں سابقہ والوں کے بارے میں اب ان کے اپنے ہی کہہ رہے ہیں
کہ یہ چور اچکے ہیں خیر یہ الگ موضوع ہے لیکن ڈرون حملوں کے خلاف نیٹو
سپلائی کی بندش کے ڈرامے سے واضح ہوگیاکہ حکمرانی کے کرسی پر بیٹھنے والے
پہلے صرف ہوشیار تھے جبکہ نئے آنیوالے والے مکار بھی ہیں- نیٹو سپلائی کے
نام پر ہونیوالے دھرنے سے ہمیں پتہ چلا کہ دھرنا کرسیوں پر دیا جاتا ہے اور
اس عمل میں نام کی حد تک اسلامی پارٹی بھی شامل ہیں جنہوں نے پشاور کے
کوہاٹ روڈ پر کرسیاں رکھ کر جلسہ کرکے کہہ دیا کہ یہ دھرنا ہے جس کے بعد
تبدیلی والی سرکار بھی کرسیوں پر بیٹھ کر دھرنے دینے لگی اور یہ سلسلہ
تاحال جاری ہے ٗ تبدیلی والی سرکار کے دور میںآکر ہمیں پتہ چلا کہ دھرنے
کرسیوں پر بیٹھ کر دئیے جاتے ہیں -کسی زمانے میں ڈمہ ڈولا کی واقعے پر
حکومت سے استعفی دینے والی ایک اہم شخصیت آج کل حکومت میں مزے بھی لے رہی
ہیں اور ساتھ میں احتجاج بھی کررہی ہیں کیونکہ انہیں اس استعفے کے بعد
احساس ہوا تھا کہ اس ملک ناپرسان میں تو صرف ڈنڈے ٗ پیسے اور طاقت کا زور
چلتا ہے اسی باعث اب کی بار ہنگو میں ہونیوالے ڈرون حملے پر صرف زبانی جمع
خرچ کیا جارہا ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ بے وقوف عوام ویسے بھی چیخیں مار
کر خاموش ہو جاتی ہیں -
تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمران نے سابقہ حکومت کی طرح اپنی دھرتی اپنا
اختیار کا نیا نعرہ لگانا شروع کردیا ہے یہ الگ بات کہ سابقہ حکمران اس
وعدوں میں کامیاب نہ ہوسکی اور انہوں نے اپنی زمین پر اپنی بدمعاشی شروع
کردی بہر حال سابقہ حکمرانوں نے جو حال اپنی دھرتی کا کیا وہ تو پانچ سالوں
میں کرکے گئے اب کی بار آنیوالوں نے صرف چھ ماہ میں بے وقوف عوام کو ہر
معاملے میں کفن چور اور اس کے بیٹے کا کہانی یاد دلا دی ہے صوبے کے عوام کو
امیدیں تھی کہ تبدیلی کے نام پر حکمرانی کرنے والے صوبے کے عوام کا حال
بہتر کرینگے لیکن حال تو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ حکمران غسل خانوں میں اپنے
نشوں میں مصروف عمل ہیں اور ان کے پارٹی کے کارکن ڈنڈے ہاتھ میں لیکر سڑکوں
پر نیٹو سپلائی کو روکنے کیلئے ڈنڈاا بردار فورس کی حیثیت سے کام کررہے ہیں
صبح سے شام تک یہ ڈرامہ چل رہا ہے نہ کوئی قانونی حیثیت نہ کوئی اختیار
لیکن پھر بھی یہ ڈرامہ چل رہا ہے بیروزگاری ٗمہنگائی اور ذہنی تناؤ کا شکار
نوجوان سارا دن سڑک کنارے کھڑے ہو کر لائیو پروگراموں کا حصہ بن رہے ہیں
کوئی تعمیری کام نہیں ہورہا ہاں اخبارات اور ٹی وی چینل والوں کیلئے موضوع
مل گیا ہے ان کا کا کام اچھا چل رہا ہے - دوسری طرف حال یہ ہے کہ ڈرن کے
خلاف ہونیوالے تاریخی ڈرامے کا حال یہ ہے کہ جس طرح حکمران منافقت کررہے
ہیں اس طرح ان کے کارکن بھی منافقت کی بام عروج پر پہنچ چکی ہیں-قانون کی
عملداری کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ روڈ کنارے گاڑیاں روکی جاتی ہیں ان
کے کاغذات چیک کئے جاتے ہیں اس دوران تصاویر بنوائی جاتی ہیں اور پھر
گاڑیوں کوآگے جانے دیا جاتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی کبھار تصاویر
بنوانے کے معاملے میں پر جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں اور پھر فائرنگ کے واقعات
ہو جاتے ہیں ٗ مزدوری کرنے والوں ڈرائیوروں کو مارا جاتا ہے غنڈہ گردی کی
جاتی ہے اس وقت تک خاموشی چھا جاتی ہیں لیکن پھر میڈیا پر خبریں آنے کے بعد
قانون کا نفاذ کرنے والے خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں ایف آئی آر کا اندراج
ہوتا ہے لیکن چونکہ سارا ڈرامہ سرکار کی مرضی سے ہورہا ہوتا ہے اس لئے
قانون جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اندھاہوتا ہے اتنا ہی اندھا ہو
جاتا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود نہ تو کارکنوں کو گرفتار کیا
جاتا ہے اور نہ ہی اس کی تحقیقات ہوتی ہیں کیونکہ اوپر سے آرڈر چل رہا ہے
کہ \"سب چلتا ہے اور چلنے دو\"کی پالیسی اپناؤ اور یوں ہی کام چلاؤ -
حالانکہ اگر فائرنگ کسی غریب آدمی سے ہو جاتی یا پھر جھگڑا ہو جاتا تو پھر
اس کے خاندان کے بچے بھی راتوں رات تھانوں میں سرکار کے مہمان بنتے اور پھر
دہشت گردی کے مقدمات بن جاتے لیکن چونکہ فائرنگ کرنے والے اور مار پیٹ کرنے
والے پیسے والے لوگ ہیں اس لئے ان کیلئے قانون بھی انوکھا اور اندھا ہی ہے-
کرپشن کے خاتمے کے دعوے بھی بہت کئے جاتے تھے کل کے اتحادی آج میدان
اپوزیشن میں بیٹھ کر سچ بولنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے ممبران کو لات مار
کر اسمبلی سے نکال دیا گیا ہے ان پر الزام عائد کیا گیا کہ کہ ان کی وجہ سے
تبدیلی والی سرکار بدنام ہورہی ہیں کرپشن کی خاتمے کی باتیں کرنے والے یہ
سمجھ بیٹھے ہیں کہ کہ کرپشن کرنے والوں کو نکال کر انہوں نے بڑا کام کردیا
ہے ٗ اگر ان کے خلاف ثبوت ہے تو ان کی بنیاد پر ان لوگوں کے خلاف کارروائی
کی جائے عدالتوں میں اسے لایا جائے اور کرپشن کی بنیاد پر ان کے مقدمات
کھولے جائیں لیکن اس معاملے میں بھی تبدیلی والی سرکار اتحاد ختم کرکے سمجھ
بیٹھی ہے کہ انہوں نے کرپشن کا خاتمہ کردیا ہے حالانکہ انہیں اس معاملے کو
منطقی انجام تک پہنچا دیانا چاہئیے ٗ ویسے آپس کی بات ہے تبدیلی والی سرکار
اپنے ممبران اسمبلی کا احتساب کب کرے گی کیا بھائی کے نام پر بھرتیوں میں
کمیشن لینے والے کسی کو نظر نہیں آرہے یا پھر ایسے ممبران جن کے پاس الیکشن
سے قبل رکشہ کے کرائے کے پیسے نہیں تھے آج کل بیس لاکھ کی ذاتی گاڑیوں میں
کیسے گھوم رہے ہیں کیا ان کے کارخانے لگ گئے ہیں یہ وہ سوال ہے جو تبدیلی
والی سرکار کو خود سوچنا چاہئیے - |