ایک اور امتحان ۔۔۔ میاں صاحب کے لیے

وزارتِ عظمیٰ کے عہدۂ جلیلہ پر تیسری بار براجمان ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ اُسی استقامت سے اپنی پہلی اور دوسری وزارت عظمیٰ کی پالیسیوں کی روایت برقرار رکھیں گے۔۔ ۔ یعنی ’’ساڈا صدر ۔ ۔ ۔ تے ساڈا جنرل‘‘ ۔ ۔ ۔ ججز کیس اور سرکش باروں کے سبب بہرحال میاں صاحب کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ۔ ۔ ’’ساڈا جج ‘‘ بھی لگا دیتے ۔ ۔ مگر۔ ۔ گزشتہ سات ماہ سے تواتر سے اس دعوے کے باوجود کہ فوج کی نیابت میرٹ پر ۔ ۔ اور معروف اصطلاح میں \’\'Book\’\'کے مطابق ہوگی۔ ۔ ۔ ایک بار پھر ۔۔ ماضی کی تاریخ دہراتے ہوئے۔ ۔ سینیارٹی کے اعتبار سے ’’دو جنرلوں‘‘ کو By passکرتے ہوئے۔ ۔ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کو فوج کی سربراہی سونپ دی گئی ہے۔ ۔ ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ بہر حال ساٹھ، ستّر اور اسّی کی دہائی کی طرح اب ’’جی ایچ کیو‘‘ ایک مقدس ادارہ نہیں۔ ۔ خاص طور پر چیختے، چلّاتے ۔ ۔ اور ایک حد تک غیر ذمہ دار الیکٹرانک میڈیا کے ہوتے ہوئے۔ ۔ حالیہ برسوں میں سیاسی اداروں کی طرح عسکری اداروں پربھی۔ ۔ بد زبانی کی حد تک گفتگو ہونے لگی ہے۔ اور اس پر ماضی کی طرح ’’پکڑ دھکڑ‘‘ بھی نہیں ہوتی۔ ۔ معاف کیجئے گا۔ ۔ یہ لکھنے کی بھی جرأت اور جسارت کررہاہوں کہ۔ ۔ اِدھر سیاست دانوں کے مقابلے میں وردی والوں میں زیادہ برداشت دیکھنے میں آئی ہے۔ ۔ جس کی مثال 29نومبر کو سبکدوش ہونے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں کہ۔ ۔ ہمیشہ چہار جانب سے ہر طرح کے حملوں کی زد میں رہے ۔ ۔ مگر کبھی اشتعال میں آکر حملہ آور نہیں ہوئے۔ ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اور نہ ہی اُن کے کسی ترجمان نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ آخر۔ ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ’’میرٹ‘‘ کو کیوں بائی پاس کیا۔ ۔ جبکہ اس حوالے سے خود میاں صاحب ہی نہیں بلکہ ماضی کے تمام ہی منتخب جمہوری حکمرانوں کا تلخ تجربہ رہا ہے۔ ۔ ۔ ماضی کی طرف اس لئے جانا پڑے گا کہ سند کے لئے ریکارڈ پر رہے۔ ۔ ۔ چاہے ہمارے بزعم خود جمہوری حکمراں اس سے سبق حاصل کریں یا نہ کریں۔ ۔ ۔ کہ وطن عزیز میں اس بات کا آغاز قیامِ پاکستان کے بعد قائد اعظم کی رحلت کے بعد ہی سے ہوگیا تھا۔ ۔ ۔ متعدد بار اپنے اِنہی کالموں میں اس کا حوالہ دیتا رہا ہوں کہ جنرل شیر علی خان پٹودی نے اپنی کتاب ’’پالیٹکس آف سولجر اینڈ سولجرنگ‘‘ میں لکھا ہے کہ۔ ۔ انگریز جنرل گریسی نے محمد ایوب خان کو1950ء ہی میں یہ سبق پڑھا دیا تھا کہ۔ ۔ ’’ موجودہ حالات میں فوج کے کمانڈر ان چیف کو وزیر اعظم کے مقابلے میں اس سے زیادہ بڑا کردار ادا کرنا ہوگا جو اس وقت اس کے لئے آئین میں متعین ہے۔‘‘ انگریز جنرل کے پڑھائے ہوئے اس سبق پر جنرل محمد ایوب خان ثابت قدم رہے۔ 1956ء کے آئین کے خالق وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے خود اس بات کا اعتراف اپنی یادداشتوں میں کیا ہے کہ ۔ ۔ اُن کی کابینہ میں شامل فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نہ صرف کابینہ کے اجلاسوں میں باوردی شریک ہوتے ۔ ۔ بلکہ اہم فیصلوں میں اُن کی آراء کو اوّلیت اور اہمیت بھی دی جاتی تھی۔ ۔ ۔ 1956ء کے آئین کے تحت جب 1958ء میں عام انتخابات کا انعقا د کراکے وطن عزیز کو جمہوریت کی پٹری پر چلانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ ۔ تو یہ فوجی جنرل ایوب خان ہی تھے جنہوں نے عام انتخابات کے انعقاد سے چند ماہ پہلے اکتوبر1958ء میں شب خون مارا۔ ۔ اور پورے گیارہ سال اپنے بوٹوں سے جمہوری اداروں کو رگڑتے رہے۔۔ ۔ المناک اور خوفناک بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت اُن بوٹوں کی مزاحمت کرنے کے بجائے اُس کی پالِشِنگ میں مصروف رہی۔ 1973ء میں ہمارے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو بھرپور موقع ملا تھا کہ اپنے دیے ہوئے 1973ء کی پاسداری کرتے ہوئے جمہوری اداروں کو مستحکم کرتے ۔ ۔ مگر اپنی پہلی مدت کے اختتام سے پہلے ہونے والے انتخابات میں جو اپنا دھڑن تختہ کرایا سو کرایا۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ایک بار پھر ’’جی ایچ کیو‘‘ کے ’’جِن‘‘ کو باہر نکال کر لے آئے۔ ۔ فوج کا یہ جن جنرل ایوب خان سے دو نہیں ، چار گز آگے تھا کہ یہ۔ ۔ ’’مُلّا‘‘ بھی نکلا ۔ نوّے کی دہائی کے آخر میں دوسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف اس وقت تک ایک Maturedیعنی بالغ نظر سیاستداں ہوچکے تھے ۔ ۔ ۔ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اُن کیلئے یہ کچھ زیادہ مشکل نہ تھا کہ اپنی حریف محترمہ بے نظیر بھٹو سے ایک ’’ میثاق‘‘ پر اتفاق کرلیتے جو دہائی ایک کے بعد جا کر اور وہ بھی بڑی مار کھا کے انہوں نے کیا بھی ۔ ۔ مگر میاں صاحب نے ۔۔ بھٹو صاحب کی عین روایت کے مطا بق اپنے اقتدار کے نصف النہار پر ۔ ۔ ’’جی ایچ کیو‘‘ پر ہی انحصار کیا ۔ ۔ مگر اُن کے ہاتھ لگا جی ایچ کیو کا جن ذرا زیادہ ہی ’’وکھڑے‘‘ مزاج کا تھا۔ جو کچھ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کے ساتھ سلوک کیا۔۔۔ وہ اُن کے مزاج اور اپنے سابقہ پیش رو کی روایت کے عین مطابق تھا۔ ۔ ۔ ادھر پانچ ،چھ برسوں میں ہماری دو مین سٹریم جماعتوں کی ہر گریڈ کی قیادت نے بر سرِ عام کان پکڑ کر بڑی توبہ کی تھی کہ آئندہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ ۔ ۔تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ یہ بذاتِ خود ایک طول طویل موضوع ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اُن کے ادارے کی خود یہ خواہش نہ تھی۔۔ یا پھر حالات ہی اتنے ناساز گار تھے کہ۔ ۔ جنرل ضیا ء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی راہ اختیار کرتے ۔ تاہم جب وطن عزیز کے اس مضبوط ترین ادارے نے ماضی کے مقابلے میں ایک روشن روایت کی بنیاد رکھ دی تو۔ ۔ پھر تیسری بار اقتدار میں آنے والے منتخب وزیر اعظم بھی \’book\’ یعنی۔۔ میرٹ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ۔ ۔ سب سے اونچے درجے پر فائز جنرل ہارون اسلم کو ہی فوج کی نیابت سونپتے۔ ۔ ابتدا ء میں ہی عرض کرچکا ہوں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اوراُن کے کسی ترجمان نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی اسے اہمیت دی کہ وہ اس بات کی وضاحت کرتے کہ۔ ۔ تیسرے نمبر پر آنے والے جنرل راحیل شریف کے ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو۔ ۔ میرٹ پر آنے والے پہلے جنرل ہارون اسلم اور دوسرے نمبر پر جنرل راشد محمود کی کیپ پر نہ لگے ہوئے ہوں۔ ۔ نئے آرمی چیف کے ہنگام۔ ۔ اعلیٰ عدلیہ میں نئے چیف کی تقرری ۔ ۔ ذرا پس منظر میں چلی گئی ۔۔اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ دسمبر کا سرد خوشگوار موسم نئے سال کی آمد سے قبل ہی بڑی خوشگوار تبدیلیاں لے کر آرہا ہے۔ ۔ کہ ’’ساڈا صدر‘‘ کے بعد ’’ساڈے جنرل‘‘ کا گھمبیر اور سنگین مسئلہ بھی طے ہوگیا ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر اُن کی حکومت کے لئے مستقبل میں ایک ڈراؤنا خواب بنا ’’چوہدری‘‘ بھی رخصت ہوگیا۔ ۔ فی الوقت تو راوی ’’میاں صاحب کے لئے چین ہی لکھ رہا ہے‘‘۔ ’’گُڈ لک میاں صاحب‘‘ مگر۔۔ اب ’’مگر‘‘ کو ۔۔۔آئندہ کالم کے لئے چھوڑتا ہوں ۔ اس وقت کیوں رنگ میں بھنگ ڈالا جائے

Waqas khalil
About the Author: Waqas khalil Read More Articles by Waqas khalil: 42 Articles with 37858 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.