ضرورت برائے اتحاد و اتفاق

عرضِ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے اگر مسجدوں، درگاہوں، خانقاہوں،صوفیوں اور اولیاؤں کا ملک کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ملک کا کوئی گوشہ‘ کوئی کونہ‘ ایسا نہیں جہاں عبادت گاہوں کا وجود نہ ہو۔ یہ وہ ملک ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ صدیوں سے رہتے اور بستے آ رہے ہیں۔ یہ طرح طرح کی بولیاں بولتے ہیں، طرح طرح کے مذہب، تہذیب و تمدن سے تعلق رکھتے ہیں مگر ایک دوسرے کا احترام ، محبت و اخوت اور بھائی چارہ ان کی پہچان تھا ہے رہے گا ۔ اور یہی وہ بیش قیمت میراث ہے جسے یہاں کے لوگ اپنے سینوں سے اب تک لگائے ہوئے تھے۔ لیکن افسوس کہ گزشتہ چند برسوں سے مال و دولت اور اقتدار کے جستجو رکھنے والوں اور چند تفرقہ پھیلانے والوں نے ملک کی سب سے قیمتی شئے کو چھین لینے کی جس طرح کوشش کی ہے اس سے قومی یک جہتی اور رواداری کا جنازہ تو نکل ہی گیا ہے ساتھ ہی انسانیت بھی شرمشار ہے۔درندہ صفت لوگوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر مذہب کو نہیں بخشا، انسانی خول میں شیطانی روح نے جب سے مسجدوں، درگاہوں،چرچوں، امام بارگاہوں، ملک کے حساس مقاموں، اور چوراہوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانا شروع کیا ہے تمام کی تمام عقیدت گاہیں اپنی روح سے بے روح ہوتی جا رہی ہیں۔میرے کہنے کی تو بات ہی نہیں ہے آپ سب روزانہ اخباروں اور خبروں میں پڑھ اور دیکھ ہی رہے ہیں۔
کیا ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اتحاد و اتفاق، بھائی چارگی اور آپس کی میل محبت خیر و برکت اور بھلائی کا ذریعہ ہے۔ بچپن سے ہم یہ کہانی سنتے آرہے ہیں کہ ایک لاٹھی کو کوئی بھی توڑ سکتا ہے لیکن جب ایک جگہ لاٹھیوں کا گٹھر ہو جس میں بہت ساری لاٹھیاں بندھی ہوں تو پھر اسے توڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتا ہے۔ ایسی کہانیاں عموماً ایسے گھرانوں میں سنائی جاتی ہیں جہاں ایک ماں باپ کے کئی نرینہ اولاد ہوتے ہیں، وہ انہیں بچپن میں اس طرح کے واقعات سنا کر اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ بڑے ہوکر یہ آپس میں متحد رہ سکیں ، اور دنیا کی کوئی بھی شر پسند طاقت ان کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ کر سکے، وہ لوگ جو اپنے والدین کے اطاعت شعار اور ان کی باتوں کو اپنے لئے مشعلِ راہ سمجھ کر پوری زندگی ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے رہتے ہیں دیکھا یہی گیا ہے کہ وہ ہمیشہ آپس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کوئی بھی بیرونی طاقت ان کے اس اتحاد کو پارہ پارہ نہیں کر پاتی ہے۔ ان کی آپس کی میل محبت دنیا والوں کے لئے ایک مثال بن جاتی ہے اور وہ اپنے اس اتحاد و اتفاق کے ذریعے بڑی بڑی شیطانی طاقتوں کو مات دے دیتے ہیں لیکن اس کے بر عکس جو لوگ اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف و انتشار میں زندگی گزارتے ہیں انہیں کوئی بھی بری آسانی سے زیر کر دیتا ہے۔ایسی صورت میں وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے کسی بڑی طاقت کے زیرِ سایہ چلا جاتا ہے جو اسے انجانے خوف میں مبتلا کرکے اپنے مفادات کے حصول کے لئے پوری زندگی اس کا استحصال کرتا رہتا ہے اور وہ بھی بلا چوں و چرا اس کے دامِ فریب میں پھنس کر باآسانی شکار ہوتا رہتا ہے۔ غالباً میری بات سمجھ گئے ہونگے آپ سب۔ تو دوستو! اب بھی وقت ہے ، کچھ نہیں بگڑا ، اس چُنگل سے نکلنے کی جستجو کیجئے، اپنے درمیان نفاق کا بیج بونے والوں کو بے نقاب کیجئے، اور پھر سے ملک کو اور ملک میں بسنے والوں کو وہی اتحاد و اتفاق، بھائی چارگی کا سبق دیجئے کہ جس پر عمل کرکے ہم اور ہمارا ملک ترقی کا ضامن بن جائے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ہم یہاں آپس میں لڑ کر مر رہے ہیں دن بہ دن
ہیں بکثرت پھر بھی سب سے ڈر رہے ہیں دن بہ دن
مسلکوں کے یہ تفرقے یہ عقائد کے نفاق
کھوکھلی بنیادِ ملّت کر رہے ہیں دن بہ دن

پاکستان میں یہ فسادات نہ ہوتے اور نہ قتلِ عام ہوتا، نہ پاکستان میں دہشت گردی ہوتی اور نہ خونریز سیاست ہوتی اگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اور ان کے لیڈران کے درمیان ہم آہنگی ہوتی ۔ پورے پاکستان میں خلفشار، انتشار، افرا تفری اور خون خرابہ ہے ۔ مگر اتحاد کے فقدان کے باعث ان جراثیموں پر قابو پانے میں دقت ہے تو کہیں کہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاست چمکانے کا ذریعہ بھی۔دنیا میں کہیں بھی ایسے لیڈر شاذ و نادر ہی مل پائیں جو اپنے ہی ملک کے عوام ، اپنے ہی ملک کے عزیز ہستیوں کے خلاف ایسی غلط سیاسی حکمتِ عملی اپنائیں ہوئے ملیں جس کی وجہ سے خلفشار، افرا تفری اور قتل عام پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ اور تو اور سونے پر سہاگہ کا کردار ہمارے ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، کرپشن نے الگ عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ ہر ستم عوام پر، ہر ظلم عوام پر، ہر کڑوی گولی عوام کے لئے، ایسے تماشے آخر کب تک کھیلے جاتے رہیں گے ۔ یہ ایک سوال ہے دیکھئے کب اس کا جواب عوام کو ملتا ہے۔

سرکار غریبی کے الگ الگ پیمانے بتاتی رہتی ہے۔ ہماری تو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ اُن کے نزدیک امیر کون ہے اور غریب کون؟کیا جو دو وقت کی روٹی کے لئے ترستا رہے وہ غریب ہے اور جو دوسروں کی روٹی چھین کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتا رہے وہ امیر؟ملک میں اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت خود کو غریب عوام کی ہمدرد اور مسیحا قرار دینے کی کوشش کرتی ہے۔ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما خود کو غریبوں کے کاز کا ایکسپرٹ قرار دیتے ہیں۔ حکومت چاہے کوئی بھی ہو اپنی ہر اسکیم کو غریبوں کی فلاح و بہبود سے معمور کرتی ہے اس کے باوجود اس ملک سے نہ غریبی ختم ہو رہی ہے اور نہ غریب۔ جس طرح تیزی سے بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نہ غربت ختم ہوگی اور نہ غریب۔ بلکہ اس ملک میں غربت اور غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ارب پتیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے لیکن غریبوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ہمیشہ حکمرانوں کی جانب سے غریبوں کی فلاح و بہبود کے نعروں ‘ غریبوں کے لئے بے شمار اسکیم کا اجراء ، اور پھر غریبوں تک اس کے ثمرات کے نہ پہنچنے کے باوجود کروڑوں روپئے اس مد میں ظاہر کر نا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ غریبوں کے نام پر جو اسکیمات شروع کی جاتی ہیں وہ غریبوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ یوں غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتوں کی غریبوں کی اسکیم کا اجراء سے قطع نظر حقیقت میں حکومتیں اور اپوزیشن کی جماعتیں غریبوں کا مذاق اڑاتی ہوئی ہی نظر آتی ہیں۔ غریبی اور غربت سے متعلق اعداد و شمار جو وقتاً فوقتاً ظاہر کیا جاتا ہے وہ غریب کے ساتھ کسی مذاق سے کم نہیں ہوتا۔اختتامِ کلام بس اتنا کہ:
حالاتِ حاضرہ پہ کیا لکھیں میاں
حالات ہی کچھ ایسے شب و روز ہیں میاں
دل کا سکون و چین تو ناپید ہوگیا
ہر سمت پیش پیش ہیں اب بے قراریاں

Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368336 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.